سرسید احمدخاں: عقائد ونظریات

0

عقیدت اللّٰہ قاسمی
سرسید احمد خاں کی زندگی یقیناسرگرمیوں سے لبریز اور عملی تھی۔یہ سرگرمیاں بہت مثبت اور ملک وملت کے لئے کارآمد وقابل تحسین تھیں، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دین ومذہب کے تعلق سے منفی اور افسوسناک بھی تھیں۔انہوں نے انگریزوں کے رابطہ میں آکر انگریزوں اور مسلمانوںکو ایک دوسرے سے قریب لانے کی زبردست کوششیں کی تھیں، لیکن اس طرح کی بہت سی کوششیں دین اسلام کی شکل مسخ کردینے والی اور اس کے وجودہی کو جڑوبنیاد سے ختم کردینے والی تھیں ، لیکن ان حقائق کو دیکھنے کی ان کے پیروکار کبھی زحمت ہی گوارانہیں کرتے اور جو دیکھتے ہیں وہ ان کے سوانح نگار الطاف حسین حالی کے چشمہ سے ہی دیکھتے ہیں کہ حالی نے سرسید کی سوانح حیات جاوید میں مدح سرائی اور ثناخوانی پر اپنے علم ودانش اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کردی ہیں۔ وہ جہاں جس کے مخالف ہوگئے اسے جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں پہنچا کر دم لیتے ہیں اور جس کی مدح سرائی پر کمر باندھ لیں اسے عرش پر خود اللہ تعالیٰ کی جگہ مستوی ومتمکن کردیتے ہیں۔حیات جاوید میں ان کی بہت سی برائیوں اور عقائد ونظریات کو بیان کرنے کے باوجود ان کی ایسی تاویل وتوضیح پیش کرتے ہیں کہ خود اپنی دانست میں انہیں خوبیاں ثابت کرنے اور قارئین سے منوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ حیات جاوید کے 526تا534پر حالی کے بیان کردہ سرسید کے کچھ عقائد کو پیش کرکے ہم خود سرسید کے پیروکاروں پر ان کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ ان عقائد ونظریات کی بنیاد پر وہ سرسید کے بارے میں دین اسلام کے تعلق سے کیا رائے دیتے ہیں۔
حالی525پر رقم طراز ہیں اگر چہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر مسئلہ کے بارے میں جس میں کوئی اختلاف ہے جو کچھ سرسید نے لکھا ہے وہی صحیح ہے اور ہر ایک اختلاف میں انہی کی رائے صائب ہے لیکن چونکہ انہوں نے موجودہ زمانہ کی ضرورت کے موافق ایک جدید علم کلام کی بنیاد ڈالی ہے۔اس لئے جو لوگ دین اسلام کے دوست ہیں اور اس کو ہر قسم کے اعتراضات اور شکوک وشبہات سے پاک جانتے ہیں ان سے امید ہے کہ سرسید کے مندرجہ ذیل اختلافات کو صرف اس نظر سے کہ وہ جمہورعلمائے اہل سنت کے خلاف ہیں ناقابل التفات نہ سمجھیںگے۔ (1) سوائے ان کفار ومشرکین کے جن کا قرآن کی سورۃ الممتحنہ کی آیت 8میں ذکر کیاگیاہے یا جو اس آیت کے مصداق ہوں تمام کفارومشرکین سے دوستی ومولات کرنا جائز ہے ۔( 2)عہد عتیق اور عہد جدید (یہودونصاریٰ کی کتابیں ) کی کتابوں میں تحریف لفظی واقع نہیں ہوئی بلکہ صرف تحریف لفظ معنوی ہوئی ہے، مگر اسی کے ساتھ ان کا اول سے آخرتک الہامی ہونا اور غلطی سے پاک ہونا غیرمسلم ہے۔(3)ہرشخص ان مسائل میں جو قرآن یا حدیث صحیح میں منصوص نہیں ہیں ، آپ اپنا مجتہد ہے۔(4)اجماع حجت شرعی نہیں ہے (5)قیاس حجت شرعی نہیں ہے (6)تقلید واجب نہیں ہے(7)قرآن کا کوئی حکم جو ایک آیت میں بیان ہوا تھا کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوا اور نہ قرآن کی کسی آیت کی تلاوت منسوخ ہوئی اور سورہ بقرہ کی آیت فانسخ میں آیۃ اوننسہا سے قرآن کی کسی آیت کا فاسخ اور کسی کا منسوخ ہونا مراد نہیں ہے ، بلکہ اس کی بعض آیتوں سے پچھلی شریعتوں کے بعض احکام کا منسوخ ہونامراد ہے۔(8) قرآن میں کسی طرح کی زیادتی یا کمی یا تغیرو تبدل واقع نہیں ہوا۔وہ جس طرح اور جس قدر نازل ہوا تھا ، اسی قدر نزول سے آج تک محفوظ ہے اور جن روایتوں سے زیادہ یا کمی یا تغیروتبدل کا ہونا یا بعض صحابہ کے اقوال سے قرآ ن کا توارد ہونا پایاجاتاہے ، وہ سب موضوع اور افتری ہے۔(9) صحاح ستہ بلکہ صحیحین(بخاری ومسلم) کی بھی تمام حدیثوں کو جب تک کہ اصول حدیث کے موافق ان کی جانچ نہ کی جائے قابل وثوق نہیں سمجھناچاہئے۔ (10)شیطان یا ابلیس کا لفظ جو قرآن میں آیا ہے اس سے انسان سے خارج کوئی وجود مراد نہیں ہے ، بلکہ انسان میں جو نفس امارہ یا قوت بہیمیہ ہے وہ مراد ہے۔(11)جن پرندوں اور مرغی وغیرہ کو نصاریٰ نے گلا گھونٹ کر مارڈالا ہو ، مسلمانوں کو ان کا کھانا حلال ہے(12) چونکہ خبرواحد میں صد ق وکذب کا احتمال باقی رہتاہے ، اس لئے اخبار احاد کی بنیاد پر جواعتراض اسلام کی نسبت کئے جاتے ہیں ، اسلام ان کا جواب دینے کے لئے پابند یا مجبور نہیں ہے۔(13)حضرت ہاجرہ جو حضرت اسمٰعیل کی والدہ ہیں جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے حقیقت میں باندی نہیں تھیں بلکہ وہ امیون بادشاہ کی بیٹی تھیں اور امیون نے ان کو صرف تربیت کے لئے حضرت سارہ کے ساتھ کردیاتھا۔(14)وضع قطع ولباس وغیرہ میں کافروں کے ساتھ تشبیہ شرعاممنوع نہیں ہے(15) معراج اور شق صدر یعنی رسول اللہ کے سینہ کا چاک کیا جاناخواب میں ہوتے ہیں نہ کہ بیداری کی حالت میں۔مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بھی اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک بھی(16) اگر چہ ممکن ہے کہ جس طرح انسان سے کم تردرجہ کی مخلوقات موجود ہیں اسی طرح اس سے بالا تر مخلوقات بھی موجود ہوں جن کا ہمیں علم نہیں ہے لیکن ملک یا ملائکہ کے الفاظ جوقرآن میں آتے ہیں ۔ ان سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ انسان سے بالا تر کوئی مخلوق ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے مادے میں جو قوتیں رکھی ہیں جیسے پہاڑوں کی سختی ، پانی کا بہنا ، درختوں کا بڑھنا، بجلی کی قوت جذب ودفع وغیرہ اپنی ملک یا ملائکہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (17) آدم اور ملائکہ اور ابلیس کا جو قصہ قرآن میں بیان ہوا ہے یہ کسی واقعہ کی خبر نہیں ہے بلکہ یہ ایک تمثیل ہے جس کے پیرا یہ ہیں انسان کی فطرت اور اس کے جذبات اور قوت بہیمیہ جو اس میں رکھی گئی ہے ، اس کی برائی یا دشمنی کو بیان کیاگیاہے اور اس قسم کی اور بھی تمثلیں قرآن میں موجودہیں۔(18) معجزہ نبوت کی دلیل نہیںہوسکتا۔ (19)قرآن میں رسول اللہ ؐ سے کسی معجزہ کے صادر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔(20) سورہ بقرہ کی آیت 146 سے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اس سے رسول اللہ ؐ مراد نہیں ہیں جیسا کہ عام مفسرین لکھتے ہیں۔بلکہ قبلہ کی طرف رخ کرنا مراد ہے۔ (21) آیت میراث سے وصیت کا حکم ، جو آیت وصیت میں والدین اور دیگر ورثہ کے لئے تھا منسوخ نہیں ہوا، لہٰذا وارثوں کے حق میں جووصیت کی جائے وہ نافذ ہے(22) جس ربا یا سود کی حرمت قرآن میں بیان ہوئی ہے اس سے اس قسم کا ربا مراد ہے جیسا کہ جاہلیت کے زمانہ میں عذاب جاری تھا جس کی مثال ہمارے ملک کے پیشہ ورسود خوروںمیںپائی جاتی ہے۔اس کے سوا کسی گورنمنٹ یا کمپنی کو جو ملک کی ترقی کے لئے قرض لے ، اس کو سود پر روپے دینا یا کوئی جماعت جو کسی رفاہ عام کے لئے چندہ جمع کرے اس روپے کا سود میں لگانا اور اس کے منافع سے رفاہ عام کے کام کرنا یہ بھی ربا میں داخل یعنی حرام نہیں ہے۔(23) قرآن میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے حضرت عیسیٰؑ کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہو۔ (24)شہیدوںکے سلسلے میں جو قرآن میں آیا ہے ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں۔اس سے ان کے درجوں کی بلندی اور روحانی خوشی اور دنیا میں قابل تقلید مثال چھوڑنا مراد ہے۔ نہ یہ کہ وہ حقیقت میں زندہ ہیں اور زندہ کی طرح کھاتے پیتے ہیں۔(25) صور کا لفظ جوقرآن میں کئی جگہ آیاہے اس سے کوئی واقعی آلہ لشکر وغیرہ مراد نہیں ہے بلکہ یہ محض استعارہ ہے۔(26)اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اسماوافعال سے متعلق جوکچھ قرآن یا حدیثوں میں بیان ہوا ہے ،وہ سب مجازاستعارہ اور تمثیل کے طور پر بیان ہواہے اور اس طرح معادوآخرت کے متعلق جو کچھ بعث وحشر، حساب کتاب ، میزان ، پل صراط، جنت اوردوزخ وغیرہ بیان ہوا ہے، وہ سب بھی مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔(27) قرآن میں جو خدا کا زمین وآسمان کوچھ دن میں پیدا کرنابیان ہواہے،اس سے کسی واقعہ کی خبر یہاںمقصود نہیں ہے۔بلکہ صرف یہودیوں کے اس عقیدہ کی تردید مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو چھ دن میں پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کیا اور اس لئے ان کا جو کچھ عقیدہ زمین وآسمان کو پیدا کرنے کے بارے میں تھا۔ اس کواس طرح قرآن میں بیان کرکے ان پر رد کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ لوگوں کے دل میں جو خیالات اللہ کی وحدانیت اور قدرت وعظمت کے خلاف جمے ہوئے ہوں ،ا ن کو زائل کرناہے۔(28) قرآن مجید میں جو غزوہ بدر وحنین کے بیا ن میںفرشتوں کی مدد کا ذکر کیاگیاہے اس سے ا ن لڑائیوں میں فرشتوں کا آنا ثابت نہیں ہوتا۔ (29) حضرت عیسیٰؑ (علیہ السلام )کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ (30) کوئی امراللہ تعالیٰ کی عادت یا طبعی قانون کے خلاف واقع نہیں ہوتا۔(31)قرآن میں جو کفارسے چیلنج کے طور پر کہاگیا ہے کہ اگر تمہیں اس کتاب کے اللہ کے پاس سے ہونے میں شک ہوتو اس کی جیسی کوئی سورت یا کچھ آیتیں تم بنا لائو ، اس سے جیسا کہ اکثر اہل اسلام خیال کرتے ہیں یہ مراد نہیں ہے کہ ایسا فصیح کلام تم نہیں بنا سکتے۔بلکہ یہ مراد ہے کہ ایسا کلام جو عالم اور فلسفی سے لے کر جاہلوں ، جنگلوں میں رہنے والوں اور اونٹ چرانے والے تک سب کی ہدایت کے لئے یکساں مفید ہو اور سب کی سمجھ اور علم کے موافق ہو، بتالینا تمہاری طاقت اور قدرت سے باہر ہے۔ (32) نبوت کاملہ نبی کی اصل فطرت میں رکھی جاتی ہے اور جس طرح تمام قوتیں فطری طور پر بتدریج ترقی کرتی ہیں نبوت کا ملکہ بھی بتدریج ترقی کرتاہے ، یہاں تک کہ جب وہ کمال کے درجہ کو پہنچ جاتاہے تو اس سے وہ ظہور میں آتاہے اس کا متقضی ہوتاہے اور جس کو عرف عام میں بعثت کہتے ہیں۔ اس لئے جووحی اس پر نازل ہوتی ہے وہ کسی ایلچی یا قاصد(یعنی فرشتہ) کے واسطہ سے نازل نہیں ہوتی بلکہ خودبخود ایک چیزاس کے دل سے اٹھتی ہے اور اس پر گرتی ہے۔(33)قرآن سے جنات کا ایسا وجود جیسا کہ عموماً خیال کیاجاتاہے کہ وہ ہوائی آگ کے شعلہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان میں مردوعورت دونوں ہوتے ہیں ، جس شکل میں چاہتے ہیں ظاہر ہوسکتے ہیں۔آدمی کو نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں وغیرہ ثابت نہیں ہوتا۔(34)بنی اسرائیل اور اس کے نبیوں کے قصے جوقرآن میں بیان ہوئے ہیں ان میں جس قدر باتیں بظاہر قانون فطرت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں ، وہ سب درحقیقت فطرت کے مطابق بیان کی گئی ہیں ، مگر مسلم مفسرین نے یہودیوں کی پیروی کرتے ہوئے ان کے معنی ایسے بیا ن کئے ہیں جو قانون فطرت کے خلاف ہیں۔(35)طوفان نوح جس کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔عام نہ تھا بلکہ اس قوم اور اس ملک میں محدودتھا،جس پر حضرت نوح مبعوث ہوئے تھے۔(36) حضرت اسحاق کی ولادت کے وقت حضرت سارہ کی عمر اس حد کونہیں پہنچی تھی جب کہ عادتاً اولاد کا ہونا غیر ممکن ہے۔
حضرت موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور پچھلے تمام نبیوں کے قصوں میں جس قدر واقعات بظاہر قانون فطرت کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ، جیسے ید بیضا،عصا کا اژدہا بن جانا، فرعون اور اس کے لشکر کا غرق ہونا، خدا کا موسیٰؑ سے کلام کرنا ،پہاڑپر تجلی ہونا، ابر کا سایہ کرنا، من سلویٰ کا اترنا،یا عیسیٰؑ کا گہوارہ میں بولنا۔چڑیاںبنانا، اندھوں اور کوڑھیوں کو ٹھیک کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، دسترخوان کا نازل ہونا وغیرہ کی تفسیر میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں ا ن کے خلاف اشتعال پھیلااور بدظنی ومخالفت کا طوفان کھڑا ہوا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے رفقائے کاروں نے جلد ہی ان حالات اور مخالفت پر قابو پالیا اور مسلمانوں نے مدرسۃ العلوم کی اور پھر اینگلومحمڈن اورینٹل (اے ایم او) کالج کی ہرطرح بھرپورمدد کی۔مگر آگے چل کر خود سرسید کے بہت سے رفقائے کار ان کا ساتھ چھوڑکر جانے پر مجبور ہوگئے، یہاں تک کہ سرسید کے انتقال کے وقت اے ایم او کالج کی حالت بہت خستہ ہوگئی۔بعد میں دوسرے لوگوں نے بڑی مشکل سے کالج کو استحکام اور ترقی کی ڈگرپر ڈالا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS