موسمیاتی آفات سے دنیا کے کچھ ممالک کا وجود بھی خطرے میں

0

خواجہ عبدالمنتقم

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے موسمیاتی آفات کے بالارو گراف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے عالمی ابتدائی وارننگ سسٹم تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پوری دنیا کو انتہائی نازک موسمیاتی صورت حال کا سامنا ہے۔ صرف یہی نہیں انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اس سلسلے میں دنیا کے عوام کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے اور انہیں مناسب انتباہ کے لیے کوئی معقول میکانزم تاہنوز تیار نہیں کیا گیا ہے۔
گلوبل وارمنگ و موسمیاتی تغیرات آج پوری دنیا کے لیے ایک باعث تشویش امر ہے اور اگراس پر قابو نہیں پایا گیا تو نہایت خطرناک ماحولیاتی تبدیلیاں وجود میں آسکتی ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک کو مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ خطرات جیسے غذائی پیداوار میں کمی، سخت برف باری، ہوائی طوفان، سیلاب وغیرہ کی مار کم و بیش تمام ممالک ہی جھیل رہے ہیں اور مزید خطرات کی تلوار ہمارے سروں پر برابر لٹکی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں ان شدید آفات کے سبب کچھ ممالک کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے جیسے مالدیپ اور دیگر جزائر بحرالکاہل ۔
موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً کتنے ہی فورموں پر اور کتنی ہی کانفرنسوں میںتمام ممالک کی توجہ اس جانب مرکوز کرائی گئی کہ عالمی درجۂ حرارت کو 1.5سینٹی گریڈسے آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور اخراجات (emissions) 7.6% سے زیادہ نہ ہوں۔
Gas Report,2021 Emissions میں یہ بات کہی گئی تھی کہ 2030تک درجہ حرارت کو 1.5°C سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور اخراج (emissions) 7.6%سے زیادہ نہ ہوں۔
موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک نئی عالمی حکمت عملی پر اتفاق رائے کے لیے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس جغرافیائی دہشت گردی کا،جس کے لیے دنیا کے تمام ممالک وعوام کم وبیش خود ذمہ دار ہیں، حل نکالنے کے لیے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیاتھا۔ اس کانفرنس میں ظاہر بات ہے عالمی درجۂ حرارت کے اضافہ میں افاقہ مقصود تھا اور یہی گفتگو کا محور بھی تھا۔ اس کانفرنس کو COP 21 کا نام دیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میںمنظور شدہ معاہدہ میں بھی عالمی درجۂ حرارت کو 2سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کا اعادہ کیا گیاتھا اور مستقبل میں اسے 1.5سینٹی گریڈ تک لانے کی بات کہی گئی تھی ۔صرف یہی نہیں بلکہ گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے اور متعلقہ امور کی بابت شفافیت برتنے کی بھی بات کہی گئی تھی لیکن امسال اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پینل(Intergovernmental Panel on Climate Change (IPCC)کی رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر درجۂ حرارت کو 2سینٹی گریڈسے نیچے بھی رکھاجائے تو بھی موسمیاتی آفات سے بچنا مشکل ہے کیونکہ گلوبل وارمنگ کی سطح کا4°Cتک پہنچنے کا امکان ہے جس کے سبب صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی اور کتنی ہی مخلوقات کا وجود تک ختم ہو جائے گا۔
اب 6 تا 18نومبر،2022کے درمیان مصر میںاقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق منعقد ہونے والی UNConference on climate change-COP27 میں مستقبل میں اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے اور بڑے صنعتی ممالک کوچھوٹے ممالک کی مدد کرنے اور اخراجات میں کمی لانے جیسے امور پر تفصیلی بحث ہونے کی امید ہے اور ہونی بھی چاہیے ورنہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیںجس پر ان آفات کا منفی اثر نہ پڑے۔
گلوبل وارمنگ سے مراد ہےplanet پر طویل مدت تک درجہ حرارت کا بڑھا رہنا۔ موسمیاتی تبدیلی(Climate change) نہ صرف گلوبل وارمنگ کی جانب اشارہ کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسی تبدیلیوں کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے جو planet پر رونما ہورہی ہیں،جیسے سمندری سطح کا بڑھنا،پہاڑی گلیشیروں کا سکڑنا، برف پگھلنا، پھول پودوں، ہواؤ ں، درجہ حرارت، بارش، برف باری وغیرہ کی روش میں تبدیلی آنا۔زمین کے درجۂ حرارت میں شدید اضافہ کی وجہ اس خطۂ ارض پر موجود ایسی خطرناک گیسز ہیں جو ہوا میں مل کر آب و ہوا کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان گیسز میں 67% حصہ Greenhouse gasses کا ہوتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈکی زیادتی ہے جس میں جنگلات کاٹنے، کوئلہ،تیل اورگیس کے جلانے، صنعتی ونیوکلیائی اخراج، اضافۂ حدت، انسانوں کی اپنی حرکات مثلاً فوصل ایندھن کا جلایا جانا، سمندری تغیرات وغیرہ کی وجہ سے اضافہ۔ اب رہی بات زیرو اخراجات کی تویہ ہدف شاید ہی کبھی پورا ہو۔ اس سلسلے میں عملی اقدامات بہت ہی کم اٹھائے گئے ہیںاور جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے طاقتور صنعتی ممالک خود اس صورت حال کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک ہمیشہ سے اخراج کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
کاربن کے اخراج سے متعلق پہلی مرتبہ 1992 میں ریو ڈی جینیرو میں اس بات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ آب وہوا کے نظام میں کسی بھی طرح کی کوئی مضر خلقت ونسل انسانی مداخلت نہ کی جائے۔ اس کے بعدبارہا وقتاً فوقتاً اجلاس منعقد کیے جاتے رہے ہیں مگر یہ اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں اور ان کے ابھی تک مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اب ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ بھی اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ان پر قابو پانا اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ ماحولیا تی آلودگی کی نئی نئی اقسام ہمارے سامنے آرہی ہیںجیسے شور کے سبب آلودگی،انسانوں کی اپنی لاپروائی کے سبب آلودگی جیسے پرالی جلانا،آلودہ دواؤں کے سبب طبی آلودگی، زراعتی آلودکاری(کسا ن بھی کبھی اپنی فصلوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے یا دیگر وجوہات سے اپنے کھیتوں میں ایسی کھاد یا کیمیاوی مرکبات ڈال دیتے ہیں جس سے انسانوں، جانوروں اور دیگر مخلوق کو نقصان پہنچ سکتا ہے)،حراری(تھرمل) آلودگی یعنی نیوکلیئر پاور پلانٹوں سے نکلی waste کے سبب آلود گی، مٹی کے سبب آلودگی وغیرہ۔
اس طرح کے مسائل کے لیے معقول حکمت عملی تیار کرنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری تو ہے ہی مگر اقوام عالم اور اس دنیا میں رہنے والے ہر شخص کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ماحول کو آلودہ نہ ہونے دیں اور گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلی وماحولیاتی تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویزات اور اپنے ملک کے قانون پر ایمانداری سے عمل کریں۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک اخراج کے معاملے میں ذمہ داری سے کام لیں اور ماحولیاتی نا انصافی کے مرتکب نہ ہوں۔اگر اس معاملے میں سنجیدگی سے کام نہیں لیا گیا اور ہم سب نے اپنا اپنا رول ایمانداری سے ادا نہیں کیا تو نامعلوم ہمیں کتنی اور شدید آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کتنے طوفان آئیں گے ؟ سیلابوں میں کتنے پل ٹوٹیں گے اور کتنی جانیں جائیں گی؟ اب عالم مدہوشی سے نکل کر میدان عمل میں آنے کی سخت ضرورت ہے ۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS