بدلتا ہوا منظر نامہ اور مدارس کا نصاب و نظام

0

ڈاکٹر توقیر راہی

ان دنوں ہندوستانی مدارس سرخیوں میں ہیں۔ ایک طرف جہاں سرکاری عملے سروے کے کام میں مصروف ہیں، وہیں دوسری جانب پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اپنا اپنا فرض منصبی کو نبھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔یوں تو مدارس کا سروے پہلے بھی ہوا ہے، اس تعلق سے ’سچر کمیٹی کی رپورٹ‘عیاں و بیاں ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ مدارس میں محض چار فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔تازہ سروے بارہ سوالات پر مشتمل ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ٹیم بھی جائے وقوع میں نظر آتی ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں مدارس خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مزید برآں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا دورۂ مسجد و مدرسہ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خبروں کی سونامی آگئی ہے۔
موجودہ سروے کے تناظر میں جہاں مدارس میں ہلچل ہے، وہیں مدارس کے ذمہ داران کے درمیان کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس تعلق سے جمعیۃ علماء ہند کی میٹنگ اور سرکردہ شخصیات کے انٹرویوز معنی خیز ہیں۔ سروے رپورٹ حکومت کو اکتوبر میں پیش ہونی ہے۔ آگے معلوم ہوگا کہ مدارس کے حوالے سے حکومت کی کیا پالیسیاں بنتی ہیں۔ میڈیا کی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ مدارس اپنے نصاب اور نظام تعلیم میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں۔
بدلتے ہوئے حالات اور منظرنامے کی روشنی میں مدارس کے نصابات میں تبدیلی جہاں وقت کی اہم ضرورت ہے، وہیں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم و فنون کی شمولیت عصر حاضر کا تقاضا بھی۔کیونکہ ہندوستان کے بیشتر مدارس میں روایتی نصاب ’درس نظامی‘ ہے جسے برسوں پہلے ملا نظام الدین فرنگی محلی نے تیار کیا تھا، اب یہ فرسودہ ہوچکا ہے۔ دارالعلوم دیوبند جس کی بنیاد1866میں رکھی گئی، اس میں بھی درس نظامیہ کا نصاب شامل ہے۔ اس میں تفسیر، فقہ، اصول فقہ، منطق و فلسفہ، صرف و نحو، عروض و بلاغت، عربی زبان و ادب وغیرہ کو نصاب تعلیم میں داخل کیا گیا ہے جو کہ روایتی اور قدیم ہے۔ اس ادارے کی تقلید ہندوستان کے بیشتر مدارس کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ندوۃالعلماء‘جس کی تاسیس1898میں لکھنؤ میں رکھی گئی، اس کے نصاب میں ’قدیم صالح اور جدید نافع‘کا لحاظ رکھا گیا یعنی روایتی مضامین کے ساتھ جدید مضامین کو بھی نصاب تعلیم میں جگہ دینے کی حمایت کی گئی، مثلاً انگریزی وغیرہ لیکن اصلاح نصاب کے حامی علماء خصوصاً مولانا شبلی نعمانی بھی جرأت مندانہ اقدامات نہ کرسکے، لہٰذا ندوۃ کا نصاب بھی روایتی بن کر رہ گیا۔ ندوۃ کے نقش قدم پر ہندوستان بھر میں بہت سارے مدارس قائم ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل سنت و الجماعت(بریلوی مسلک) کے مدارس ہندوستان کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں، ان کے نصابات بھی روایتی ہیں۔بعض مدارس میں انگریزی، ہندی، ریاضی وغیرہ مضامین کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے عموماً ابتدائی درجات میں، گرچہ بعض مدارس میں انگریزی کو اعلیٰ درجات تک جگہ دی گئی ہے لیکن یہ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔فرقۂ اثنا عشریہ(شیعہ مسلک) کے بھی متعدد مدارس ہیں، لیکن اس فرقے کے زیادہ تر مدارس لکھنؤ میں قائم ہیں۔اس کا نصاب تعلیم بھی روایتی ہے۔
اب تک گفتگو غیر ملحقہ مدارس کی تھی۔بہت سارے مدارس ایسے ہیں جن کا الحاق مختلف ریاستی حکومت کے مدرسہ بورڈ سے ہے، مثلاً مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، مدھیہ پردیش،اترپردیش، راجستھان، اتراکھنڈ وغیرہ۔ ان ملحقہ مدارس کے نصاب میں دینی مضامین کے علاوہ عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا ہے، مثلاً انگریزی، ہندی، ریاضی، سائنس، جغرافیہ، تاریخ وغیرہ۔ان مدارس کی اسناد کو عام اسکول و کالج کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں مدارس کی تعلیم دینی اور دنیاوی علوم میں تقسیم نہیں تھی۔مدارس کے فارغین جہاں مفتی و قاضی کے عہدوں پر فائز ہوتے تھے، محدث و مفسر بنتے تھے، وہیں وقت کے حکمراں،سائنس داں، فلاسفر، ماہر سیاست داں، ماہر نفسیات، ماہر تعلیم، ماہر فلکیات و نجوم، ماہر طب، ماہر ریاضی و ہندسہ، ماہر اقلیدس، ماہر جراحی، ماہر صیغۂ مال وغیرہ ہوتے تھے، مثلاً امام غزالی، برہان الدین زرنوجی، ابن خلدون، ابن اثیر، فخرالدین رازی، بو علی سینا، نظام الملک طوسی، عمر خیام، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، نصیرالدین طوسی، ابن الہثیم، عبداللہ بن زہر، البیرونی وغیرہ۔لیکن آج مدارس کے حالات بالکل برعکس ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہی مدارس کے فارغین اور علمائے ہند تھے جنہوں نے برادران وطن کے شانہ بشانہ انگریز حکومت کے خلاف جنگ آزادی میں نہ صرف حصہ لیا، بلکہ کلیدی کردار ادا کیا،یہی حضرات تھے جو ریشمی رومال اور خلافت تحریک کے روح رواں رہے، انہوں نے ’کالا پانی‘کی صعوبتیں برداشت کیں، ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں علمائے کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔اس طرح مدارس اور علمائے کرام کی زریں خدمات تاریخ کے اوراق میں گم ہیں۔
آج کل مدارس حکومت کے سوالات کے گھیرے میں کیوں؟ مدارس کا نصاب اور نظام تعلیم کارگر کیوں نہیں؟ مدارس کے فارغین دین و دنیا کے امام کیوں نہیں؟ کیا اسلام کی تعلیمات میں دنیاوی علوم حاصل کرنے کی ممانعت ہے؟ اگر نہیں تو پھر مدارس کے نصاب میں عصری علوم کیوں نہیں؟ اس طرح کے ہزاروں سوالات ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کے بعض مدارس اس جانب اقدامات کر رہے ہیں، لیکن رفتار دھیمی ہے۔ بورڈ سے الحاق شدہ مدارس کے علاوہ جن مدارس کو ’مدارس کی جدید کاری اسکیم‘ کے تحت مالی امداد حکومت ہند کی جانب سے ملی ہے، ان میں ہندی، انگریزی، حساب، سائنس وغیرہ مضامین شامل ہیں۔
موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ غیر ملحقہ مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کو بھی جگہ دی جائے، تاکہ طلبا میں خدا اعتمادی کے ساتھ خود اعتمادی پیدا ہوسکے۔نیز دین اور دنیا کی کامیابیوں سے سرفراز ہو سکیں۔
نصاب تعلیم میں رد و بدل نظام تعلیم کا حصہ رہا ہے، کیونکہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیلی ضروری ہے۔درس نظامی اپنے وقت کا بہترین نصاب تھا، وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور میڈیا کا ہے، لہٰذا مدارس کی وابستگی اس عہد کے ساتھ ضروری ہے۔کمپیوٹر کی تعلیم روز مرہ کی زندگی کے لیے لازمی ہو گئی ہے، اسی طرح انگریزی زبان پر عبور ٹیکنیکل تعلیم کے لیے از حد ضروری ہے، برادران وطن سے افہام و تفہیم کے لیے ہندی زبان کا علم، موجودہ وقت کا تقاضا ہے۔ مزید برآں تقابلی مذاہب کا مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ دیگر مذاہب کے بارے میں معلومات ہوسکے۔آزاد ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی تھی، اسی طرح راجہ رام موہن رائے ’مدرسہ عالیہ‘ میں زیر تعلیم رہے تھے۔آج بھی مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت ہزاروں ہندو طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اس بورڈ کے مدارس میں ہندو اساتذہ بھی درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔آج مدارس کی گراں قدر خدمات کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔بہتر ہوگا کہ مدارس کے ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں میں نیز آزادی کی تقریبات میں برادران وطن کے اہل علم اور سرکاری ذمہ داران کو بھی مدعو کیا جائے، تاکہ شک و شبہات کو دور کیا جاسکے اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ بھی ہوسکے۔
مختصر یہ ہے کہ بدلتے ہوئے منظر نامے میں ہندوستان کے مدارس کے نصاب و نظام کو زرخیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کے لیے ٹریننگ بھی بہت ضروری ہے۔اس تعلق سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔بس:
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS