رسول اکرم ؐ کے طریقہ تربیت میں حلم اور شفقت کا پہلو

0

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

محسن انسانیت، امام الانبیاء اور نبی خاتم حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت گوناگوں، کثیر جہتی اور مثالی تھی۔ آپؐ جہاںایک صاحب حکمت و بصیرت داعی تھے وہیں ایک بہترین مدبر و منتظم، ایک زیرک سیاست داں، ایک ہوشیار جرنیل، ایک بہترین حکمراں، ایک عادل و غیرجانبدار قاضی، ایک بہترین ماہرین ماہر نفسیات، ماہر سماجیات اور ماہر اقتصادیات بھی تھے۔ الغرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے لئے آپؐ نے اپنی رہنمائی نہ چھوڑی ہو۔ اور یہ کیوں نہ ہو جب کہ اللہ رب العزت کو آپؐ کی زندگی کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ایک نمونہ بنانا تھا۔ ان مختلف حیثیتوں میں سے آپؐ کی ایک اہم حیثیت معلمانہ و مربیانہ بھی تھی۔ آپؐ ایک بہترین معلم و مربی تھے بلکہ آپؐ کی یہ حیثیت علاوہ داعی ہونے کے تمام حیثیتوں میںفوقیت رکھتی ہے کیوں کہ یہی وہ حیثیت تھی جس کی کماحقہ ادائی نے انسانیت کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور جس کے ذریعے آپؐ نے ایک ایسی جماعت تشکیل دی جو اخلاق و کردار کا نمونہ بنی اور اسی جماعت کی مدد سے آپؐ نے ایک ایساانقلاب برپا کردیا جو تاریخ کا حصہ ہے اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے عبرت کا سامان بھی۔ آپؐ کی معلمانہ حیثیت کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے:
(مفہوم):’’بے شک مسلمانوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (سورۃ آل عمران)
آپؐ نے اپنی اس معلمانہ حیثیت کو خود یوں بیان فرمایا: ’’میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
یہ کلمات آپؐ نے اپنی زبان مبارک سے تب صادر فرمائے جب بقول راوی آپ ایک بار مسجد میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ وہاں دو حلقے لگے ہوئے ہیں ، ایک حلقہ قرآن کی تلاوت اور دعا میں مشغول ہے اور دوسرا علم سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہے پھر آپ اس حلقے کے قریب بیٹھے جو تعلیم و تعلم میں مشغول تھا۔ یہ روایت معنوی اعتبار سے تو بالکل درست ہے لیکن محدثین کے قائم کردہ اصولوں کی بنیاد پر ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں داؤد، بکر بن خنیس اور عبدالرحمٰن بن زیاد تینوں راوی ضعیف ہیں۔ البتہ ایک دوسری روایت جسے امام مسلمؒ نے نقل کیا ہے بالکل درست ہے جس میںآپؐ نے اپنی معلمانہ حیثیت کو بیان کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: (ترجمہ)اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لئے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے معلم اور لوگوں کے لئے آسانیاں کرنے والا بناکر مبعوث کیاہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ ؐ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’سنو! بے شک میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جن سے تم جاہل ہو‘‘۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’یقینا مجھے تمھاری طرف عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔
آپؐ نے اپنی اس معلمانہ اور مربیانہ ذمے داری کو بھی نہایت ہی خوش اسلوبی، حکمت اور بصیرت کے ساتھ انجام دیا۔ آپؐ کی تربیتی نہج کے بھی کئی اہم پہلو ہیںجن کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں تو قطعاً ناممکن ہے۔ اس لئے احقر نے اس کے دو پہلو یعنی ’’حلم اور شفقت‘‘ کے پہلو کو ہی اس تحریر کا موضوع بنایا ہے۔ ’’ شفقت‘‘، مہربانی، رحم و کرم، نوازش اور غم خواری کے معنی میں ہے اور ’’حلم‘‘ کے معنی ہیںمتحمل مزاجی اور بردباری۔ یہ وہ صفت ہے جس کی وجہ سے کوئی انسان برانگیختہ کرنے والے اسباب کی موجودگی اور ناگواری و غصہ کے اظہار پر قادر ہونے کے باوجود ضبط و تحمل اور نرمی سے کام لے۔ جناب رسول اللہ ؐ کے اندرمذکورہ دونوں صفات بدرجہ کمال موجود تھیں۔ آپؐ اپنے ساتھیوں پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے جس کی گواہی قرآن نے ان الفاظ میں دی ہے: (مفہوم):’’تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت (نقصان) کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ، ایمان والوں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔‘‘ (التوبہ: ۱۲۸)۔ اسی طرح آپؐ کی صفت حلم کی گواہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے: (مفہوم): ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔‘‘
ان دو صفات کی وجہ سے ہی آپؐ اپنے تربیتی مشن میں پوری طرح کامیاب و کامران رہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ کو رسول اکرم ؐ کی سیرت کے ان گوشوں کی سیر کرائی جائے ، احقر یہ مناسب سمجھتا ہے کہ تربیتی نظام میں مذکورہ صفات کی اہمیت کو جدید مفکرین کی آراء کی روشنی میں آپ پر واضح کردے تاکہ رسول اکرم ؐ کی اعلیٰ صفات کا آپ کماحقہ ادراک کرسکیں۔ استاد اور شاگرد کے درمیان مثبت اور مشفقانہ تعلقات کو دور جدید کے ماہرین تعلیم اور ماہر نفسیات نے بہت ہی زیادہ اہمیت دی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بہتر تربیتی ماحول وجود میں آتا ہے، طلباء کی تعلیمی حصولیابیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، ڈسپلن اور نظم و ضبط کے مسائل کم ہوجاتے ہیں، طلباء کی خود اعتمادی اور ذہنی صحت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور خود اساتذہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بھی فروغ پاتی ہیں۔
معاویہ بن حکم سلمیؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں رسول اللہؐ کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے کہا : ’’یرحمک اللّٰہ یعنی اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا۔ میں نے کہا : میری ماں مجھے گم پائے ، تم سب کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھے گھور رہے ہو؟ پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرارہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا۔ جب رسول اللہ ؐ نماز سے فارغ ہوئے، تو میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعدآپ سے بہتر کوئی معلم نہیں دیکھا! اللہ کی قسم ! نہ تو آپؐ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ نماز ہے، اس میں کسی قسم کی گفتگو روا نہیں ہے، یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے یا جیسے رسول اللہ ؐ نے فرمایا۔‘‘ (صحیح مسلم)۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS