جیل آپ کے دل سے جیل کا ڈر نکالتی ہے: شرجیل امام

0
image:beyondheadlines.in

نئی دہلی: ہندوستانی سیاست میں حکومت طاقت کی اجارہ دار بن گئی ہے اور اس اجارہ داری کا ایک پہلو اس کا مسلم مخالف کردار ہے۔ سیاسی اختلاف رکھنے والے 33 سالہ شرجیل امام کو بغیر کسی مقدمے کے 535 دن قید میں رکھا گیا۔ اس دوران ان کو سنگین مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امام نے تہاڑ جیل سے ‘آرٹیکل 14’ کو ایک ٹیلی فونک انٹرویو دیا،جس میں انہوں نے اپنے نظریے،قوم پرستی کی مخالفت اور ایک ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے اس کی شناخت کے بارے میں بات کی جو متفق نہیں۔ امام نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستان میں بی جے پی کے اختلاف کا کیا مطلب ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا کتنا مشکل ہے اور معاشرے میں مساوات،سیاست میں شرکت اور بطور شہری ایک مسلمان کے حقوق کے لیے بات کرنا کتنا مشکل ہے۔ انہوں نے جیل سے تجربے بھی شیئر کئے کہ اسے قریب سے کچھ دیکھنے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ صرف انٹرنیٹ کو بند کر کے اختلاف کیسے روکا جا سکتا ہے۔

آپ نے کتنے دن جیل میں گزارے؟

میں نے 28 جنوری 2020 کو دہلی پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ تب سے میں نے تقریبا 17 ماہ جیل میں گزارے۔ ایک مہینے میں کئی ریاستوں کی پولیس تحویل میں تھا، 6 ماہ اور 9 ماہ سے زیادہ کے لیے گوہاٹی سنٹرل جیل میں رکھا گیا ،میں اب تہاڑ جیل میں ہوں۔

جب آپ کو معلوم چلا کہ آپ کے خلاف الزام ہے تب آپ نے سب سے پہلے کیا سوچا؟
دو خیال آئے پہلا،جب میں جنوری 2020 میں قوم سے غداری کے لیے گرفتار گیا تھا، اس وقت مجھے باکل امید نہیں تھی کہ ایک دن میں 5ریاستوں میں ایف آئی آر درج ہو جائے گا۔ میں یہ امید کرتا ہوں کہ حکومت کی طرف سے ہمارے پروٹسٹ پر ردعمل آیا ہے،خاص کر شاہین باغ پروٹسٹ کے لیے۔ جنوری کی ابتدا میں مجھے کچھ اندازہ تھا اور میں نے اس کے متعلق بات کی اور لکھی بھی۔ میری گرفتاری کا شکنجا کسنے کی شروعات تھی اور یہیں بات میرے ذہن میں آئی کہ دہلی الیکشن کے مدنظر احتجاج کو غیر قانونی ٹھرانے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔

دوسری بات، میرے ذہن میں اگست 2020 میں 6 مہینے بعد آئی،جب میں دہلی میں ہوئے فساد کے لئے
گرفتارہوا تھا،تب میں گوہاٹی پولیس کی حراست میں تھا۔ جب دہلی میں فسادات شروع ہوئے تب میں پہلے ہی جیل میں ایک مہینے گزار چکا تھا۔ اس لیے جب مجھے فساد کے لیے گرفتار کیا گیا اور یو پی اے کے تحت الزام لگائے گئے جو دہشت گردوں کے لئے استعمال کئے جانے والا خصوصی عمل ہے،پھر مجھے احساس ہوا کہ حکومت نے ہمیں سنگین سزا دے کر مثال بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ مقدمہ سے پہلے حراست ہے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان یوپی اے میں ضمانت پر مخالفت کو دیکھتے ہوئے اس خطرہ کو اٹھانے کی ہمت نہیں کریں گے.اس کا مطلب ہے مقدمہ سے پہلے سے حراست، ملک سے بغاوت کے منفی جو آئی پی سی کی دفعہ ہے۔

آپ جیل میں اپنا وقت کیسے گزارتے ہیں؟

گوہاٹی سینٹرل جیل میں وارڈ سسٹم نہیں تھا۔ وہاں صبح اٹھنا ہوتا تھا،جیل میں آس پاس ٹہلنا ہوتا تھا اور واپس شام میں لانج آنا ہوتا تھا۔ میری وہاں رو ز قیدیوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں شمال مشرق کی تاریخ اور ثقافت پر مبنی ڈھیر ساری کتابوں سے بھری لائبریری تھی۔ گوہاٹی میں رہتے ہوئے میں نے درجنوں کتابیں پڑھی۔ اپنی بنگلہ اور درست کی اور تھوڑی آسامی زبان سیکھی۔ میں نے وہاں دونوں زبانوں کے اخبار پڑھنے شروع کردئے تھے۔ جیل میں اندر والی مساجد میں میں میرے ساتھی قیدیوں کے ساتھ گھٹنوں وقت گزارا کرتا تھا۔ شام کو ان کے ساتھ چیس کھیلتا تھا۔ تہاڑ جیل زیادہ سخت اور پابند جیل ہے۔ یہاں آپ مشکل سے ہی اپنے واڈ کے باہر نکلنے کی سوچ سکتے ہیں۔ میں اپنا زیادہ تر وقت اپنے سیل میں، کچھ کتابوں کے ساتھ گزارتا جو میرے پاس ہیں، اور میں اپنے سیل میں تنہا رہتا ہوں۔ حال ہی میں عدالت کے حکم کے بعد ،مجھے جیل کے’’لیگل سیل‘‘میں کمپیوٹر کے ساتھ 17،000 صفحات چارج شیٹ کی سافٹ کاپی پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے یہاں ہر روز اخبار پڑھنے کے لئے ملتا ہے اس کے علاوہ تہاڑ وحشت اور تنہائی کی جگہ ہے۔ میرے تحظ کی فکر یہ بھی طے کرتی ہے کہ مجھے ادھر ادھر نہیں گھومنا چاہئے.

آپ کو مظاہرے کی تحریک کہاں سے ملی؟

جس بات نے میرے ساتھ ساتھ لاکھوں دوسرے لوگوں کو احتجاج کرنے کے کئے موٹی ویٹ کیا۔ احساس کہ ریاست تیزی سے مسلم مخالف ہوتی جارہی ہے۔اور حکومت کچھ لوگوں کے ہاتھوں تک سمٹ گی ہے۔ اس اجارہ داری کا ایک پہلو اس کا مسلم مخالف مزاج ہے ۔ 2019 کے نتائج سب سے زیادہ سوچنے پر مجبور کرنے والا تھے۔ 1984 کے بعد یہ پہلی بار کسی پارٹی نے اس طرح اکثریت سے جیت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد بھی الگ الگ جگہوں پر مسلم مخالف لہرشروع ہو گئی۔ دفعہ 370کو ہٹانا، بابری پر فیصلہ، شہریت مخالف قوانین پاس ہونا یہ سب مسلم مخالف ایجنڈے کی کچھ مثال ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے عارضی طور سے احتجاج جتانا شروع کیا۔ جہاں تک میری بات ہے میں اس سیاست کے بارے میں کچھ سال پہلے سے ہی لکھتا رہا ہوں۔

میں نے 2013 میں ایک سافٹ وئیر انجینئر کے طور پر اپنی مستقل نوکری چھوڑدی اور تاریخ،تقسیم اور تقسیم کے بعد بھارت کے نظام کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے اختیارات،اتحاد الیکشن وغیرہ کا مطالعہ کرنے کے لئے پاٹ ٹائم نوکری کی۔ پچھلے دو سالوں میں یہ سارے الفاظ بس نام کےلئے رہ گئے اور کسی بھی مضبوط پارٹی کے ذریعہ انہیں کچلاجاسکتا ہے۔ چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی، پسندیدہ مطالعات کے لیے ٹائم ٹائم نوکری کرتا ہوں۔ اس طرح،جس بات نے مجھے احتجاج کرنے کے لئے حوصلہ دیا ہے وہ ہندوستان کے آئینی ڈھانچے میں بے شمار خامیاں ہیں۔ یہ سی اے اے ہے جس نے مجھے لکھنے کے ساتھ سڑکوں پو بولنے کا حوصلہ دیا۔اس نے مجھے سسٹم کی کمیوں کے بارے میں بولنے کا موقع فراہم کیا۔ کس طرح یہ ایکٹ لایا گیا؟ کیسے یہ قانون پاس ہوا؟ کیسے دفعہ370 ختم کیا گیا؟ کس طرح انٹرنیٹ کو مہینوں اور سالوں تک بند رکھا گیا؟ کچھ تو بنیادی غلطیاں اس ڈھانچے میں ہیں۔

آپ کے خلاف جس طرح کے الزام لگے ہیں،کیا آپ مانتے ہیں کہ ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی محدود اسٹیج میں داخل ہورہی ہے؟

آزادی اظہار کے دو پہلو ہوتے ہیں – ادارہ جاتی اور ثقافتی۔ جہاں تک اظہار رائے کو روکنے کے خلاف ادارہ جاتی روک تھام کا تعلق ہے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکز میں ایک پارٹی کی اجارہ داری ، کسی دھڑے یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری، عدلیہ کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ ان ادارہ جاتی کمزوریوں کو درست کرنا ہوگا۔ یہ ایک بہت گہری خرابی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آزادی اظہار کے ثقافتی اصولوں کو بڑے پیمانے پر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک گروہ نے اپنے طریقے سے بیان کیا ہے۔

اس طرح کی قوم پرستی یا انتہائی قوم پرستی کو ان لوگوں کی جانچ پڑتال اور سختی سے جانچنا ہوگا جو خود کو کسی بھی قسم کی لبرل،جمہوری، ترقی پسند سیاست سے جوڑتے ہیں۔ اسی لیے میں ایک نظریہ کے طور پر قوم پرستی کے خلاف بولتا ہوں۔ یہ سوچ اور اظہار کی آزادی کو روکتا ہے۔ جب سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے لوگ جمہوری طور پر برطانیہ سے آزادی کی بات کر سکتے ہیں تو ہم ہندوستانی ملک دشمن لفظ استعمال کیے بغیر ایسی بحث کیوں برداشت نہیں کر سکتے؟ 1950 اور 60 کی دہائی میں ایک وقت تھا جب رام منوہر لوہیا جیسے سوشلسٹ مرکزی دھارے کے اخبارات میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہوئے لکھ سکتے تھے، اورلکھنے کے باوجود انہیں شمالی ہندوستان میں اب بھی ایک بڑا لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ جیوتی باسو (سابق وزیراعلیٰ مغربی بنگال) 1962 کی بھارت چین جنگ میں غیر جانبداری کا دعویٰ کر سکتے تھے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ہمالیہ میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ چیزیں ابھی ناممکن لگ رہی ہیں۔

اختلافات اور حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے یو اے پی اے کے بے لگام تجربے کے نتائج کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ، جب آپ خود اس پر الزام لگاتے ہیں؟ علیحدگی پسند اور علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے 1967 میں یو اے پی اے ایک بل پاس کیا۔ تاہم ، اسے 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد منموہن سنگھ کے دور میں مزید مضبوط کیا گیا ، جب پوٹا (دی پریوینشن آف ٹیررسٹ ایکٹ) کے کچھ غیر واضح حصے منسوخ کر دیے گئے۔ اس کے ابواب 4 ، 5 اور 6 کو یو اے پی اے میں شامل کیا گیا۔ اب باب 3 غیر قانونی یا علیحدگی پسند سمجھے جانے والے بیانات کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اس میں
ضمانت کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے،اس کا مطلب 6 ماہ قید،لیکن اس کے بعد بھی ضمانت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن،دہلی فسادات جیسی صورتحال میں جہاں تشدد اور اموات ہوئیں ، باقی 3 ابواب استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

پہلے تنظیموں کو دہشت گرد سمجھا جاتا تھا ، لیکن 2019 میں بی جے پی کی جانب سے لائی گئی ترمیم کے بعد افراد کو بھی دہشت گرد سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم نے یو اے پی اے کا دائرہ کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ علیحدگی پسند تنظیموں سے ، یہ قوانین علیحدگی پسند/دہشت گرد تنظیم/فرد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور عدالتوں نے ابھی تک ہمیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اسے آئینی بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تعریفیں بہت مبہم ہیں اور اسی وجہ سے اب یہ افراد پر بھی من مانی طور پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔ 2001 اس حوالے سے ایک اہم سال تھا۔ نائن الیون حملوں کے بعد “دہشت گردی کے خلاف جنگ” نے دنیا بھر کی حکومتوں کو اختلافی مسلمانوں کو مجرم بنانے کا لائسنس دیا۔ اگر میں کہوں کہ میں مسلمان ہوں اور نظامی تبدیلی چاہتا ہوں تو مجھے دہشت گرد کہنا بہت آسان ہے۔ ہندوستانی حکومت نے مسلمانوں کے اختلاف اور جائز مطالبات کو روکنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر 2001 کے بعد علیحدگی پسند دہشت گرد بن گئے۔ تاہم ، دلچسپ بات یہ ہے کہ یو اے پی اے کو کسانوں کے خلاف نافذ نہیں کیا گیا ، کیونکہ مسلمانوں کو ملک دشمن اور دہشت گرد قرار دینا آسان ہے ، جب کہ کسانوں کے لیے،چاہے وہ حکومت مخالف ہوں؛ یہ لیبل ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔ میرے معاملے میں ، شاہراہوں اور سڑکوں کو پرامن طور پر بلاک کرنا حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی سازش کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ میری کوئی تقریر یا بیانات تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ، پھر بھی مجھے ایک دہشت گرد کے طور پر سزا دی جا رہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایکٹ کی دفعات کتنی مبہم ہیں۔

اب آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

میں نے حال ہی میں الف شفق کی’فورٹی رولس آف لو‘پڑھی جو رومی اوران کے صوفی گرو شمس تبریز کی
ملاقات پر مببنی ایک ناول ہے۔ میں نے یہاں آدھا درجن پریم چند کے ناول پڑھے ہیں۔ ابھی میں سی اے بیلی کی ‘ ایمپائر اینڈ انفارمیشن’ اور اکبر نجیب آبادی کی اردو میں ‘اے ہسٹری آف اسلام’ پڑھ رہا ہوں۔ میں جیل میں رہتے ہوئے اپنے مقالے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میرا مضمون M.Phil & Ph.D؛ ان دونوں میں مضامین میں تقسیم کے سلسلے میں فرقہ وارانہ فسادات کے گرد گھومتے ہیں اور میں فرقہ وارانہ فسادات (دہلی فسادات) کے ماسٹر مائنڈ کے الزام میں زیر حراست ہوں۔ اس وجہ سے میری چارج شیٹ میرے لیے تحقیقی مواد کا بنیادی ذریعہ بھی ہے۔ ایک اور کتاب جو میں پڑھتا رہتا ہوں وہ ہے -دہلی جیل قانون کتاب۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی گرفتاری کا مقصد سی اے اے مخالف احتجاج کو جھوٹا بنانا ہے؟

جی ہاں ، جیسا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میری گرفتاری چھاپے کا صرف آغاز تھا۔ وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ چاہئے کچھ بھی ہو،مظاہرین ملک دشمن ہیں اور وہ حکومت کے خلاف ہیں۔ دہلی انتخابات میں دوسرا مقصد دہلی کو فرقہ وارانہ رنگ دینا تھا۔ چونکہ میں 15 دسمبر کو پہلے دن سے ہی شاہین باغ احتجاج سے وابستہ تھا اور اس وقت جب تک میں اس سے ہٹتا ۔ اس کا چہرہ بن چکا تھا۔ مجھے نشانہ بنانے کا مطلب شاہین باغ کو نشانہ بنانا تھا۔ میں نے اس کا اندازہ جنوری 2020 میں ہی لگایا تھا جب میں نے روڈ بلاک کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا،لیکن بہت سے لوگوں نے مجھے غدار کہا۔ لیکن میں اس موضوع پر بہار، یوپی اور بنگال میں بات کی۔ لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ مجھ پر علی گڑھ ، یوپی میں تقریر کے لیے مقدمہ درج کیا گیا اور دہلی میں ایک احتجاج کو نشانہ بنانے کے لیے بہار سے گرفتار کیا گیا اور آخر کار میری گرفتاری کے ایک ماہ بعد دہلی فسادات کے لیے سازش کا الزام لگایا گیا۔ خاص طور پر،میرے معاملے کو ایک مسلم بنیاد پرست یا ہندو مخالف کے طور پر پیش کرتے ہوئے ، غیر مسلم جو ترقی پسند ہیں ان کی حمایت منقطع کر دی گئی ہے۔ جس طرح ایک شخص بیک وقت مسلمان اور جمہوری نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ جب میں نے ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں کانگریس کے قابل اعتراض کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے نظاماتی مسائل کے بارے میں بات شروع کی تو کچھ مسلمانوں نے یہ بھی سوچا کہ میں دراصل بی جے پی کی مدد کر رہا ہوں۔ مجھے ایک مسلمان بنیاد پرست کے طور پر پیش کیا گیا جو ایک ناخواندہ ہجوم کی قیادت کر رہا تھا،جب کہ کوئی میری تقریروں کو غور سے سنتا ہے تو اسے احتجاج کے عدم تشدد کے طریقے،اقلیتی حقوق،جمہوری نظام میں انتخابات جیسے موضوعات ملیں گے۔

جیل نے اگر آپ کچھ سکھایا ہے تو وہ کیا ہیں؟
جیل ہمیں صبر کرنا سکھاتی ہے،یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ کھڑے ہو اور ‘نہیں’ کہنے کا بھی درس دیتی ہے اگر آپ اپنے حقوق کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر،ہم نے کووڈ جانچ کی مانگ کو لیکر گوہاٹی جیل میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے اور بعد میں تقریبا آدھی جیل کورونا متاثرہ پائی گئی۔ چونکہ آپ کو پولیس اہلکاروں،وکلاء اور عدلیہ کے بارے میں ایک واضح تصویر فراہم کرتا ہے،ان میں سے بہت سے لوگ جیلوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ہم جانتے ہیں کہ کس طرح معصوم لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جرائم کے لیے سزا دی جاتی ہے کیونکہ ان کی کوئی ضمانت دینے ولا نہیں ہوتا۔ آپ اس 5 منٹ کی قدر کرتے ہیں کہ حکام آپ کو اس دوران اپنے خاندان سے بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جیل آپ کے دل سے جیل کا خوف دور کرتی ہے۔

کیا یہ آپ کو پریشان کرتا ہے کہ ضمانت ملنے میں آپ کی توقع سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے؟

ہاں،پہلے یہ بغاوت تھی اور یہ بیک وقت پانچ ریاستوں میں تھی،اس لیے میں نے سوچا کہ اس میں 6 ماہ یا ایک سال لگے گا۔ پھر یو اے پی اے کے سیکشن 16 ، 17 اور 18 لگائے گئے،جس کا مطلب عام طور پر بغیر کسی مقدمے کے پانچ سے سات سال کی حراست ہے۔ اب سب کچھ عدالتوں پر منحصر ہے ،کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ کیا آپ کو کبھی ان چیزوں کے لیے فعال آواز ہونے پر کبھی افسوس ہوتا ہے جن پر آپ یقین رکھتے ہیں؟ نہیں ، مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ کچھ جگہوں پر میں مختلف اقدامات کر سکتا تھا یا بہتر متبادل پر کام کر سکتا تھا۔ لیکن جہاں تک ان کا تعلق میرے طرز زندگی سے ہے ، مجھے اس پر بالکل افسوس نہیں ہے۔ آئی آئی ٹی ممبئی سے گریجویشن کی ہے یا پھر تاریخ داں بننے کے لیے جے این یو سے جڑنا ہوں۔ 2013 میں ہی راستہ طے ہوچکا اور قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ کئی سالوں سے لوگوں نے میرے منافع والی نوکری چھوڑنے اور تاریخ پڑھنے اور لکھنے کے میرے فیصلے پر سوال اٹھایا۔

ایک ایسا کام کرنا ہے جو کسی کی لسانی اور تجزیاتی مہارت کو چیلنج کرے ، تاکہ پوری انسانیت ترقی کر سکے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت،ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ ایک چیلنجنگ مسئلہ ہے۔ گوہاٹی جیل میں ایک افسر نے ایک بار مجھ سے کہا ، “آپ شاید جیل میں آئی آئی ٹی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویٹ ہیں۔” میں نے جواب دیا – “میں خوش قسمت ہوں۔” پہلے تو اس نے میرا جواب نہیں سمجھا،بعد میں سمجھ گیا۔ اگر جیل میں رہنے کے بعد سے میرے الفاظ وسیع طور پر لوگوں تک پہنچ چکے ہیں،اگر میری سوچ،میری تعلیم،ان چند سالوں میں لاکھوں تک پہنچ گئی ہے،تو پھر افسوس کا کیا فائدہ؟ اس کے علاوہ
،اگر لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں،تو کچھ سینکڑوں کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

ایک خاص بیانیہ کے خلاف اختلاف کو آج ہندوستان میں ملک مخالف سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جہاں آپ جوان پوئے ہیں؟

میں 1988 میں بہار میں منڈل کے زمانے میں پیدا ہوا ۔ ہندوستان میں بڑا ہوا جس کا مرکز نسبتا کمزور تھا۔ بہار کے مسلمانوں کا آخری بار بڑے پیمانے پر قتل عام 1989 میں ہوا ، 1990 میں بہار میں مرکزی جماعتوں کے تسلط کا خاتمہ،اور پسماندہ ذاتوں اور پاسماندا جو پیچھے رہ گئے (فارسی میں ، ‘جو پیچھے رہ گئے’، پسماندہ مسلمان) کا ڈسکورس شروع ہوا اور علاقائی جماعتوں نے بہار میں اقتدار حاصل کیا۔ میرے مرحوم والد،اکبر امام، جو 2014 میں انتقال کر گئے تھے،ایک سیاستدان کے طور پر اور اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے وکیل کے طور پر اس تبدیلی کا حصہ رہے تھے۔ جس بہار میں میں پرورش پائی وہ کمزور مرکز کی بہار تھا،جس میں علاقائی سیاست تھی اور قوم پرستی کے بجائے مثبت کارروائی کی گنجائش تھی۔ اس تناظر میں اختلاف کی گنجائش اتنی محدود نہیں تھی جتنی آج ہے۔ لیکن اسی وقت قومی سیاست میں آر ایس ایس کا قد بڑھا،یہ لوگ گجرات میں مضبوط ہوئے،بابری کے خاتمے،خونریزی اور کشمیر میں فوج کی حکمرانی کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں بات کی تھی ،اچھی تبدیلی پر ہونی چاہیے۔ انٹرنیٹ نے ہمیں بات کرنے اور سننے کی آزادی دی ہے ، لہذا ایسا نہیں ہے کہ اختلاف کو آسانی سے دبایا جا سکے۔ ہاں،ریاستیں ہمارے الفاظ کو روکنے اور انہیں ملک دشمن قرار دینے میں زیادہ سرگرم ہیں،لیکن ہمارے الفاظ ریاستی سینسروں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ انٹرنیٹ کے دور میں اختلاف کو روکا نہیں جا سکتا،اس کو ملک دشمن کہا جا سکتا ہے،لیکن اس پرروک نہیں لگائی جا سکتی۔ اختلاف کو صرف انٹرنیٹ بند کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

آپ پر ایک ایسے فعل کا الزام لگایا گیا ہے جو آپ کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ حب الوطنی کی پیمائش کی جا سکتی ہے؟ آپ اپنی حب الوطنی کیسے ثابت کریں گے؟

حب الوطنی ایک مبہم تصور ہے۔ چونکہ یہ ایک مبہم اصطلاح ہے،اس سے یہ ثابت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ میں وطن سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔ اس کے بجائے،میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایماندار ہوں اور ایک ایسی گفتگو میں حصہ لینا چاہتا ہوں جو جمہوری نظام کو زیادہ مضبوط،منصفانہ اور نمائندہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ حب الوطنی کی تعریف مبہم ہونے کی بجائے اسے مذہبی اقلیتوں جیسے عیسائیوں،سکھوں اور مسلمانوں کے حقوق، لسانی اقلیتوں کے حقوق،مرکز کے ساتھ ساتھ علاقائی حقوق کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ میں محب وطن نہیں کہنا چاہتا،لیکن ایک جمہوریت پسند جو اپنے طریقے سے جنوبی ایشیائی پہیلی کو جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ نیز،میں ایک مسلمان ہوں جو اسلامی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS