بنگال میں دوسرے مرحلہ کی پولنگ

1

حکم امتناعی اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے سینٹرل فورسز کی800کمپنیوں کے ایک لاکھ سے زائد جوان، ان گنت پولیس اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود مغربی بنگال میں دوسرے مرحلہ کی 30سیٹوں کی پولنگ بالخصوص ہائی پروفائل اسمبلی حلقہ نندی گرام کی پولنگ تشدد سے پاک نہ رہ سکی۔ شرپسندعناصر اور ووٹوں پر قبضہ جمانے والے سیاسی طالع آزمائوں نے ہنگامہ، تشدد، مار پیٹ اور پتھرزنی سے عوام کو اتنا ہراساں کیا کہ وہ سنگینوں کے سائے میں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے رہے۔باوجود اس کے پولنگ کی شرح 80فیصدسے زائد بتائی گئی ہے۔ نندی گرام کی پولنگ پر پورے ہندوستان کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں اورلوگوں کو یہ گمان تھاکہ یہاں پرامن، صاف ستھری، کھری اور منصفانہ پولنگ ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ الیکشن کمیشن کی تیاریاں دھری رہ گئیں اور عوام کی خودمختاری کا مظہر کہاجانے والا انتخاب عملاًسیاسی پارٹیوں کی طاقت آزمائی میں بدل گیا۔
ریاست میں حکمراں ترنمول کانگریس اور اس کی قریب ترین حریف بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں نے ہی ایک دوسرے پر تشدد پھیلانے اور ووٹوں پر قبضہ کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔نندی گرام سے امیدوار ریاست کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کا الزام ہے کہ سینٹرل فورسز نے مرکزی وزیرداخلہ کے کہنے پر بی جے پی امیدوار کو ووٹ ڈالا اور بی جے پی نے یہاں باہری لوگوں کو لاکربھی ووٹ ڈلوائے ہیں۔ کئی علاقوں میں بی جے پی امیدوار اور اس کے حامیوں اور کارکنوں نے عام ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک بھی نہیں جانے نہیں دیا،گھر گھر جاکر لوگوں کو ڈرایادھمکایاگیا ہے۔30اسمبلی حلقوں میں 150 سے زیادہ ای وی ایم خراب رہے اور لوگوں کا ووٹ ایک ہی پارٹی کو جاتارہا۔ ممتابنرجی نے اس پورے عمل کو ’ چیٹنگ بازی‘ یعنی عوام سے کھلا دھوکہ قرار دیا ہے۔حالات کی سنگینی کااندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ نندی گرام کے ایک بوتھ پر خود ممتابنرجی دو گھنٹے تک دھرنا دے کر بیٹھ گئیں اور وہیں سے مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھن کھڑاور الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر پولیس مشاہد سے فون پر بات کی اور اس دوران بوتھ سے باہر ہنگامے ہوتے رہے۔ بی جے پی کارکن ممتابنرجی گو بیک اور جے شری رام کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ گورنر کی جانب سے قانونی کارروائی کی یقین دہانی کے بعد دیدی بوتھ سے باہر نکلیں۔اس واقعہ پر شوبھیندو ادھیکار ی کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی کو احساس ہوگیا ہے کہ وہ ہار رہی ہیں، اسی لیے وہ معمولی واقعہ کو ڈرامائی انداز میں پیش کررہی ہیں۔نندی گرام میں 335 بوتھوں میں سے80سے زائد بوتھ پر ترنمول کانگریس اپناانتخابی ایجنٹ ہی نہیں دے سکی اور میری جیت یقینی ہے۔بھارتیہ جنتاپارٹی کے امیدوار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے قافلہ پر بھی حملہ کیاگیا ہے۔جس میں ان کے ساتھ موجود میڈیا کی کچھ گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ادھیکاری نے اس حملہ کیلئے ترنمول کانگریس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ممتابنرجی ہار سے خوف زدہ ہیں اور وہ غنڈوں کاسہارا لے رہی ہیں۔اسی دوران اپنے ایک کارکن کی خودکشی کے واقعہ کو شوبھیندو ادھیکاری نے ترنمول کانگریس کے غنڈوں کی دہشت کا نتیجہ بتاکر معاملہ کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
نندی گرام جیسی ہائی پروفائل سیٹ اور دوسرے مقامات پرپولنگ کے دوران ہونے والے تشدد نے یہ بتادیاہے کہ صاف ستھرے اور منصفانہ انتخاب کا مطالبہ کرنے والی سیاسی پارٹیاں درحقیقت اس کے حق میں نہیں ہوتی ہیں۔ان کا ارادہ بزور طاقت ووٹوں پر قابض ہونا ہوتا ہے اوراس عمل میں بدامنی و تشدد یقینی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اپنی مقدور بھر کوشش کر لی تھی، شرپسندوں کو پہلی وارننگ کے بعد گولی ماردینے جیسے حکم، دفعہ144کا نفاذ اور دوسری تادیبی کارروائیوں کے باوجود سیاسی پارٹیوں کے شر پسند عناصر نے کھیل کھیلا اورعوام کے حق پر نہ صرف ڈاکہ ڈالا ہے بلکہ جمہوری انتخابات کے تقدس کو بھی مجروح کیا ہے۔ شر پسند عناصر کا یہ کام ان سیاسی پارٹیوں کیلئے ہی تھا جو منصفانہ اور پرامن پولنگ کے مطالبے اور دعوے کرتی تھیں بلکہ درون خانہ ان کی کوشش رہتی ہے کہ ہر ووٹ ان کے حق میں ہی جائے اور جہاں بھی غیر یقینی صورتحال دیکھتی ہیں، وہاں شر پسند عناصر سے کام لیتی ہیں۔ان سیاسی پارٹیوں میں ترنمول اور بی جے پی کی کوئی تخصیص نہیں ہے جسے جہاں موقع ملا اس نے اپنا دائو کھیلا ہے۔کمزور پڑنے والے ری پولنگ اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں اور مضبوط فریق ان کے ہر دعویٰ کو باطل بتارہاہے۔
پولنگ کا عمل اس وقت تک پرامن نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ انتخاب کا ہر فریق اپنی اپنی ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ نہ نبھائے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ان کی شہ پر ہی انتخاب اور پولنگ کے دوران بدامنی اور تشدد کے واقعات ہوتے ہیں اگر یہ سیاسی پارٹیاں اپنا کردار صاف ستھرا رکھیں اورا نتخاب کے عمل میںووٹروں کی جانب سے ردو قبول کے ہرفیصلہ کو تسلیم کرنے کی ہمت رکھیں تو ہنگامے،تشدد اور بدامنی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔بصورت دیگر نیم عسکری دستے یا کلی عسکری دستے بھی تعینات کردیے جائیں تو پولنگ کو پرامن اور بدامنی سے پاک نہیں بنایاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

1 COMMENT

Comments are closed.