نسل نوکی ذہنیت میں تبدیلی کا منصوبہ

0

محمد حنیف خان

کسی بھی ملک کی بنیاد اس کے نظام تعلیم میں پوشیدہ ہوتی ہے۔نظام تعلیم اور نصاب تعلیم یہ دونوں ملک کی ایسی اساس ہیں کہ اگر اس میں کوئی اینٹ ٹیڑھی لگ جائے تو کسی بھی ملک /خطے کا مستقبل کجی کا شکار ہوجاتا ہے،جس کی وجہ سے نسلیں نہ صرف راہ سے بھٹک جاتی ہیں بلکہ ان کا مستقبل ہی کسی دوسری راہ پر چلا جاتا ہے۔ہندوستان کے پاس ایک نظام تعلیم ہے،جس کی سب سے اہم کڑی نصاب تعلیم ہے۔وقت اور ضرورت کے اعتبار سے ان دونوں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ایسی تبدیلی جس سے ملک کو نئی راہ اور نئی سمت ملے کسی بھی ترقی پسند ملک کی علامت ہے لیکن ایسی تبدیلی جو اس کو سچ سے دور کردے،جو اس کی بنیاد میں کجی پیدا کردے اس کو کسی بھی صورت میں پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ وہ چند لوگوں کی پسند ہو جو اقتدار میں ہوں،جس کی وجہ سے وہ اس کے نفاذ میں بھی کامیاب ہو جائیں لیکن نظام تعلیم کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ان کو لائق ستائش نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔
ملک کی آزادی سے قبل انگریزوں کا تیار کردہ نظام اور نصاب رائج تھا،وہ اپنی ضروریات کے مطابق اس میں اصلاحات و ترمیمات کیا کرتے تھے۔فورٹ ولیم کالج اس کی سب سے زندہ مثال ہے جو آج بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہے۔اس سے زبان و ادب کو کیا فوائد حاصل ہوئے یہ الگ بحث کا متقاضی ہے لیکن اس سے انگریزوں نے کس طرح اپنے مفادات حاصل کیے، وہ جگ ظاہر ہیں۔ آزادی کے بعد جب مولانا ابوالکلام آزاد اس ملک کے پہلے وزیر تعلیم ہوئے تو انہوں نے ہندوستان کے ماضی کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کے مستقبل کی فکر کی اور نئی نسل کی تعلیم کے لیے ایک بنیادی اسٹرکچر تیار کیا تاکہ نئی نسل منظم و منضبط ہو کر اپنے روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھائے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن مولانا ابوالکلام آزاد کی دور بین نگاہوں کا ہی نتیجہ ہے۔جس نے اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دراصل ملک کے مستقبل کی طرف توجہ ہے۔اس لیے سبھی حکومتوں نے اس جانب خصوصی توجہ دی ہے لیکن اس کا ایک کمزور پہلو بھی رہا ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے، اس کی فکر اور اس کا ایجنڈاسب سے پہلے اسی شعبے میں نظر آتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اقتدار میں آتے ہی چشم زدن میں اس کی کایا پلٹ کردی جا تی ہو بلکہ بتدریج اس میں اصلاحات و ترمیمات کی جاتی ہیں۔دراصل تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے، جس کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد ایک ایسی نسل تیار کی جاسکتی ہے جو مقتدرہ کی ہم خیال ہو لیکن چونکہ ملک میں جمہوریت ہے،اس لیے کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس کے نتائج مقتدرہ کے دوراقتدار میں ہی برآمد ہوجائیں۔اس کے باوجود وہ لوگ جن کے پاس ایک سوچ ہے،ایک فکر ہے،جنہوں نے ایک ایجنڈا تیار کر رکھا ہے کہ ملک کو کن خطوط پر لے جانا ہے،ان کو اس بات کی جلدی بھی نہیں ہوتی ہے کہ وہ سبھی نتائج اپنے دوراقتدار میں ہی دیکھ لیںبلکہ ان کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ جب ان کو اقتدار ملا تو انہوں نے کس انداز میں پالیسیاں نافذ کیں اور کس طرح ملک کو اپنی فکریات کی جانب موڑنے کی کوشش کی۔

اب اگر تاریخ کے نام پر مذہبی معتقدات کی تعلیم دی جانے لگے گی تو نئی نسل کا کبھی منطقی ذہن تیار ہوسکتا ہے؟ جبکہ تاریخ کی بنیاد ہی منطق اور سبب و نتیجہ پر ہے۔اسی لیے جن واقعات و معلومات کے بارے میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق تاریخ نویسی سے قبل سے ہے تو ان کے بارے میں ایک خاص اصطلاح ’ماقبل تاریخ ‘ رائج ہے تاکہ طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ اس میں صداقت کی کمی ہے۔

بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے وہ ہر شعبے میں اصلاحات کے نام پر ترمیمات نافذ کر رہی ہے۔معاشیات سے لے کر زراعت تک، سیاسی نظام سے لے کر تعلیمی نظام تک ہر جگہ ابرز طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے وہ کس طرح سے ترمیمات کو راہ دے رہی ہے۔اس نے نئی تعلیمی پالیسی بھی بنائی جس کا خیر مقدم کیا گیا۔اب یوجی سی نے گریجویشن سطح پر تاریخ کے نصاب میں ترمیم کے لیے نیا نصاب تیار کیا ہے۔یہ نصاب محل نظر ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ اس میں ایسی ترمیمات ہیں جن کا تاریخ سے تعلق نہیں ہے۔ تاریخ کے نام پر اگر اسطور پڑھایا جائے گاتو سمجھا جا سکتا ہے کہ آنے والی نسل کس بات کو تاریخ تصور کرے گی۔تاریخ اور اساطیر میں بہت فرق ہے۔تاریخ زمان سے وابستہ ہے جبکہ اساطیر لازمانی ہوتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسرقاضی افضال حسین نے پروفیسر خالد جاوید کے ایک افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے تاریخ سے متعلق بڑی اہم بات لکھی ہے: ’’تاریخ کی اصل دو بنیادی تصورات ’تحرک اور تعقل‘پر قائم ہے۔تاریخ کا کوئی تصور تحرک یعنی وقت کے تصور سے آزاد نہیںاور نہ ہی سبب اور نتیجے کی منطق سے تاریخ کو الگ کیاجا سکتا ہے۔‘‘یہ تاریخ کا ایک پیرا میٹر ہے۔یوجی سی کے تیار کردہ نصاب کے مطابق اس چیپٹرکو ’’آئیڈیا آف بھارت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سرخی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارباب حل و عقد اور یوجی سی کے ماہرین تعلیم ’’آئیڈیا آف بھارت‘‘ کے عنوان سے ہندوستان کی بنیاد کے بارے میں طلبا کو واقف کرانا چاہتے ہیں۔با دی النظر میں یہ بہت بنیادی اور اہمیت کی بات لگ سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔تیار ڈرافٹ کے مطابق وہ تاریخ کے نام پر وید، ویدانگ، اپنشد، مہاکاویہ، جین اور بودھ لٹریچر کے ساتھ ہی اسمرتی اور پران وغیرہ کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔اسی طرح تیسرے پیپر میں سندھو سرسوتی تہذیب کے نام سے ایک باب ہے جس میں سندھو،سرسوتی تہذیب اور ویدک تہذیب کے رشتوں کے بارے میں پڑھا یا جائے گا۔اس تیار ڈرافٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیاد تاریخ کے بجائے اساطیر پر دکھائی دیتی ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو وہ تاریخ کے نام پر اسطوری قصو ں اور مذہبیات کو شامل کرنا چاہتے ہیں اور نئی نسل کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے ان اساطیری واقعات کا تعلق تاریخ کے بجائے مذہبی معتقدات سے ہے۔اب اگر تاریخ کے نام پر مذہبی معتقدات کی تعلیم دی جانے لگے گی تو نئی نسل کا کبھی منطقی ذہن تیار ہوسکتا ہے؟ جبکہ تاریخ کی بنیاد ہی منطق اور سبب و نتیجہ پر ہے۔اسی لیے جن واقعات و معلومات کے بارے میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق تاریخ نویسی سے قبل سے ہے تو ان کے بارے میں ایک خاص اصطلاح ’ما قبل تاریخ ‘ رائج ہے تاکہ طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ اس میں صداقت کی کمی ہے۔ مگر یہاں تو صداقت کے نام پر اساطیر کو داخل نصاب کیا جارہا ہے۔جبکہ اس طرح کی تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں میں ’دینیات فیکلٹی‘کے نام سے الگ شعبے ہیں جہاں مذہبی کتب کی تعلیم معتقدات کی بنیاد پر ہی دی جا تی ہے، وہاں تاریخ اور صداقت کی کوئی ضرورت نہیں ہو تی ہے۔
یوجی سی نے صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے،اس نے مزید ترمیمات کو راہ دیتے ہوئے مسلم حکمرانوں کے سلسلے میں معلومات میں کمی کی گئی ہے،اتنا ہی نہیں اس کو اپنی فکر کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔مثلاً بابر سے متعلق جو پڑھایاجائے گا، اس میں اس کو ایک حملہ آور کے طور پر پیش کیا جائے گا جبکہ دہلی یونیورسٹی کاموجودہ نصاب اس کو حملہ نہیں تصور کرتا ہے۔13ویں سے 18ویں صدی کی مسلم تاریخ کو بھی جگہ نہیں دی گئی ہے۔کسی کو کم یا زیادہ جگہ دینا بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، اہم مسئلہ تاریخ کے نام پر اساطیر پڑھا نا اور تاریخ کو اپنی فکری روش کے مطابق پیش کرنا ہے۔اس جانب سخت توجہ کی ضرورت ہے ورنہ ہندوستان کی تاریخ وہ نہیں رہ جائے گی جو اب تک طلبا پڑھتے آئے ہیں بلکہ تاریخ پر ایک خاص چشمہ چڑھ جائے گا اور پھر نئی نسل اپنے ماضی کو اسی کے مطابق دیکھے گی اور پھر مستقبل کو اسی کی روشنی میں دیکھنا چاہے گی۔اگر اس ڈرافٹ کا نفاذ ہوتا ہے تو یہ تاریخ پر جبر ہوگا۔قاضی افضال حسین کی زبان میں ’’ہم سب کی طرح اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تاریخ کا نقطہ نظر کتنے وحشیانہ طور پر بدلا جارہا ہے کہ تحریر/تاریخ لکھنے والا اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔‘‘یہ اطاعت پر مجبوری ہی ہے،اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔در اصل یہ سب صرف اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ ہندوستان کا صدیوں کے تنوع کا تانا بانا تباہ و برباد ہوجائے اور ان کا اپنا مقصد حاصل ہوجائے مگر قاضی صاحب کے ہی مطابق اس کا نتیجہ لازماًدونوں کی ہلاکت سے وابستہ ہے۔وہ کہتے ہیں ’’تاریخ کے اس غبی بندر کا کرشمہ ہے جو تیز استرے سے خود اپنا گلا کاٹ رہا ہے۔یہ غبی بندر تاریخ کو اپنے طور پر دوبارہ لکھنے کی کوشش میں اپنے غیر کو جلا کر راکھ کردینا چاہتے ہیںاور نہیں جانتے کہ اپنے غیر کو خود سے الگ تصور کرکے فنا کردینے کی خواہش /ضد خود ان کی اپنی ہلاکت سے لازماً مربوط ہے۔‘‘ماہرین تعلیم خصوصاً ملک کے تاریخ دانوں کا یہ منصبی فریضہ ہے کہ وہ تاریخ کے نام پر اساطیر اور مذہبی معتقدات کی تعلیم کو روکیں۔ورنہ اگر ایسا ہوگیا تواس کے نتائج نسلیں بھگتیں گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS