اب تو اسکول کھلیں۔۔۔

0

انسانی تاریخ کی بدترین وبا اور دنیا بھر میں مہنگائی اور بے روزگاری کا نقیب بننے والے کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر عالمی بینک نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بالخصوص اسکولوں اور تعلیمی ادارے بند رکھنے کو عالمی بینک غیرمنطقی اور غیر سائنسی سمجھتا ہے۔اس کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کو بند کیے جانے کاکورونا وائرس سے نمٹنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ عالمی بینک کے گلوبل ایجوکیشن کے ڈائریکٹرجیمی ساویدرا (Jaime Saavedra) کا کہناہے کہ وبائی مرض کے پیش نظر اسکول بند رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے حتیٰ کہ نئی لہروں کے دوران بھی اسکولوں کو بند کرنا آخری حربہ ہوناچاہیے۔ جیمی ساویدرا کی ٹیم نے تعلیم کے شعبہ پر کووڈ19-کے اثرات کا سراغ لگانے کے دوران یہ پایا کہ اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ہے کہ اسکولوں کو کھولنے کی وجہ سے کورونا وائرس کے معاملات میں اضافہ ہواہے اور یہ کہ اسکول ’ محفوظ مقامات‘ نہیں ہیں۔ اس عالمی ٹیم کا کہنا ہے کہ بچوں کے ویکسی نیشن تک انتظار کرنا ’غیرسائنسی ‘انداز فکر ہے اوراس کے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔اسکول کھولنے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کوئی ربط نہیں ہے۔ دونوں کو جوڑنے کا کوئی ثبوت بھی اب تک دستیاب نہیں ہوا ہے لہٰذا اسکولوں کو بند رکھنے کا کوئی جوازبھی نہیں ہے۔ ریستوراں،بار اور شاپنگ سینٹرز کھلے رکھنے اور اسکول بند رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، فائدہ نہیں ہے۔ عالمی بینک کے مختلف تجربات اور مطالعات کے مطابق جن بچوں کے اسکول کھلے ہیں، ان کیلئے صحت کے خطرات کم اور بند ہونے کی قیمت زیادہ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب عالمی بینک کا یہ ردعمل سامنے آیا ہو، اس سے قبل بھی گزشتہ سال اکتوبر کے مہینہ میں اسکولوں کو کھولے جانے کیلئے ویکسی نیشن کے انتظار کی ضرورت کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے مختلف ممالک کی حکومتوں سے عالمی بینک نے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے یہاں اسکول کالج کھول دیں لیکن زیادہ تر ممالک نے اس پر کان نہیں دھرااور نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے لاکھوں اور کروڑوںکی تعداد میں بچے دائرۂ تعلیم سے باہر ہوگئے۔اس سنگین نقصان کے ازالہ کیلئے آن لائن کلاسیز کی مشق شروع کی گئی لیکن اس کے نتائج توقع کے برخلاف نکلے۔2020کے بعد سے ہماری نئی پود عملاً جہالت کے سمندر میں غوطہ زن ہے اور ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اس وبائی مرض کامقابلہ کرنے کا بہترین اور مناسب طریقہ کیا ہے۔اس کے باوجود بہت سے ممالک نے ابتدائی فوری ردعمل کے طور پر اپنے یہاں اسکول بند کردیے تھے، پورا دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ان دو برسوں میں بالخصوص 2021 کے آخر تک آنے والے شواہد بتارہے ہیں کہ کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہروں کے دوران بھی جن ممالک میں اسکول کھولے گئے تھے، وہاں وائرس کی منتقلی میںاس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بہت سے ایسے مقامات پر کورونا کی لہروں نے یلغار کی جہاں اسکول بند تھے تو ایسے میں اسکول بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے۔
ہندوستان میں وبائی امراض کی وجہ سے اسکول اور تعلیمی اداروں کے بند رہنے کے سلسلے میں بھی عالمی بینک کے اعداد و شمار، جائزے اوران کی بنیاد پر کی جانے والی پیش قیاسیاں سنگین صورتحال کا پتہ دیتی ہیں۔ عالمی بینک کے ڈائریکٹرجیمی ساویدرا کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اس کے اثرات ہماری سوچ سے کہیںزیادہ شدید ہیں اور سیکھنے کی کمی توقع سے کہیںزیادہ بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اگر اسکول یوں ہی بند رہے تو ہندوستان میں10سال تک کی عمر کا بچہ ایک سادہ سی متن پڑھنے اورسمجھنے سے قاصر ہوجائے گا۔
کورونا سے پہلے بھی ہندوستان کی تعلیمی صورتحال افسوس ناک تھی اب تو یہ بھیانک شکل اختیار کرگئی ہے۔ ہندوستان میں طبقاتی اور معاشی عدم مساوات کی وجہ سے 90فیصد بچے ابھی تعلیم سے محروم ہیںاور اگرا سکول یوں ہی بند رہے تو شاید یہ بچے کبھی اسکول واپس ہی نہ جاپائیں۔تعلیم بالخصوص بنیادی اور ابتدائی تعلیم سے مسلسل محرومی بچوں او ر نوجوان نسل، ان کے خاندانوں اور دنیا بھر کی معیشت، دنیا کی پیداواری صلاحیت، کمائی اور فلاح و بہبود اور ترقیات پر تباہ کن اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ مایوس کن منظر نامہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کورونا پابندیوں پر غور کیا جائے بالخصوص اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش فی الفور ختم کرتے ہوئے بچوں کا تعلیمی سلسلہ بحال کیا جائے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری پوری ایک نسل جہالت کے سمندر میں غرق ہوجائے اور ہم ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں۔ کورونا وائرس سے لڑنے کا اب تک کا تجربہ اور عالمی بینک کا جائز ہ بھی اس کی تائید کررہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS