سمیر وانکھیڑے : بغض و لالچ پر مبنی جھوٹے مقدمات کا استعارہ

0

اے- رحمان

تعزیری قوانین میں سنگین ترین قوانین دہشت گردی اور منشیات کے انسداد سے متعلق ہیں اور ان دونوں میںانسداد منشیات قانون کو سنگین تر سمجھا جا نا چاہیئے کیونکہ مہذب دنیا کے بیشتر ممالک میں ا س کے تحت موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے اور دی جاتی ہے۔ منشیات کا کاروبار ہے بھی ایک بہیمانہ اور انسانیت سوز جرم ۔ اسی لیے دنیا بھر کے ممالک اس کے خلاف متحدہ طور سے صف آرا ہیں اور اقوام متحدہ نے1997 میں اپنے جملہ ارکان کے تعاون و اشتراک سے اس منظم کاروبار کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کے لیے خصوصی دفتر قائم کیا تھا جو تنظیم کی اہم ترین شاخوں میں شمار ہوتا ہے۔ بین الاقوامی پولیس(Interpol) کو بھی منشیات کے معاملات میں دنیاکے کسی بھی کونے میں بغیر کسی رسمی اجازت کے تفتیش اور دیگر کارروائی کی کھلی چھوٹ ہے اور ان تمام انتظامات کے باجود منشیات کا کاروبار اور دنیا بھر میں ان کی اسمگلنگ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس سے اس کاروبار کے وفاق CARTEL کی تنظیم اور قوت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تفتیشی اور جاسوسی( انٹیلی جنس) تنظیمو ںکی بھر مار کے باجود منشیات کے استعمال اور چلن میں اضافہ ہی ہوا ہے جس کے سبب انسداد ی قوانین میں بھی مزید سختی اور شدت لائی گئی ہے۔ لیکن کسی قانون کی سختی اس کے استعمال اور اطلاق میں انتہا درجے کی احتیاط کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔خصوصاً ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کسی معمولی تعزیری مقدمے میں ملوث ہونے کا مطلب ہے سالہاسال کی تھانہ کچہری اور مقدمہ اگر دہشت گردی یا منشیات کے قوانین کے تحت ہو تو معصوم اور بے گناہ ہونے کی صورت میں بھی عمر عزیز کے نہ جانے کتنے سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزریں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سنگین قانون میں ایسے تحفظات اور شرائط شامل کی گئی ہیں جو حتی الامکان کسی بے گناہ کو گرفتاری وغیرہ سے محفوظ رکھیں۔ عام تعزیری قوانین کے معاملے میں تو سپریم کورٹ نے پولیس کے لیے ایک سنہرا اصول مرتب کرتے ہوئے حکم دیا ہے، ’گرفتاری کا اختیار گرفتاری کی اجازت نہیں ہے۔ محض شبہ پر نہیں بلکہ وافر ثبوت قابل گرفتاری حاصل ہونے کے بعد ہی ملزم کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔‘ منشیات قانون کے تحت بغیر وارنٹ چھاپہ، تلاشی اور گرفتاری کے لیے اونچے عہدے یعنی گزٹیڈ افسر کی موجودگی اور تصدیق ضروری ہے او ریہ بھی شرط ہے کہ گزٹیڈ افسر کے پاس اس کی ذاتی اطلاع پر مبنی تلاشی اور گرفتاری کے لیے ’معقول وجہ‘ موجود ہو۔ یعنی محض شبہ یا اپنی مرضی اور صوابدید کے تحت گزٹیڈ افسر گرفتاری نہیں کر سکتا، لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاںگزٹیڈ افسربد عنوان ہو یا کسی لالچ اور بغض کے تحت کارروائی کرے جیسا کہ شاہ رخ خاں کے بیٹے آرین خاں کے معاملے میں کیا گیا۔ جب 3اکتوبر 2021 کو سمیر وانکھیڑے نے تفریحی بحری جہاز ’ کورڈیلیا‘ پر چھاپہ مارا تو اس کے دعوے کے مطابق اسے خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اس جہاز پر ’دعوت سر مستی‘(Rave Party) کی جائے گی جس میں منشیات(کوکین، ہیروئن وغیرہ) کا استعمال ہوگا۔ اس چھاپے کے نتیجے میں آرین خاں گرفتار ہو کر 4 ہفتے جیل میں رہا اور عدالت میں اس کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سمیر وانکھیڑے نے الزام لگایا کہ آرین کے قبضے سے منشیات بر آمد ہوئیں نیز اس کے موبائل فون پر آئے گئے وہاٹس ایپ پیغامات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا تعلق منشیات اسمگلروں کے ایک بین الاقوامی گروہ سے ہے۔ ظاہرہے یہ نہایت سنگین الزامات تھے اور بادی النظر میں ملزم یا ملزمان کی ضمانت ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آئی تفصیلات سے اندازہ ہو گیا کہ ان گرفتاریوں میں نہ صرف بے قاعد گیاں بلکہ غیر قانونی اقدامات کیے گئے ہیں نیز بے قصور لڑکے لڑکیوں کے خلاف جعلی ثبوت پیش کیے گئے ہیں اور بعد کو یہ ثابت بھی ہو گیا جب ہائی کورٹ نے آرین خاں کو ضمانت دیتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا کہ نہ تو اس کے قبضے سے منشیات کی برآمدگی ثابت ہوتی نظر آئی ہے نہ اس کے وہاٹس ایپ پیغامات میں ایسا کوئی اشارہ ہے جس سے اس کا کسی بین الاقوامی مجرم گروہ سے تعلق ظاہر ہوتا ہو۔
چند روز پیشتر محکمہ انسداد منشیات (NCB) نے اس مقدمے کی فرد جرم عدالت میں داخل کی جس میں ملزمان کی فہرست سے آرین خاں کا نام حذف کر دیا گیا تھا اور جس کے سلسلے میں میڈیا نے ’آرین خاں کو کلین چٹ ‘ کی سرخیاں قائم کیں۔کلین چٹ کوئی قانونی اصطلاح نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی تحریری صداقت نامہ ہوتا ہے جو بیان کرتا ہو کہ فلاں شخص معصوم ہے۔ دراصل فرد جرم کے پہلے خانے میں ان تمام ملزمان (خواہ وہ گرفتار نہ کیے گئے ہوں) کے نام ہوتے ہیں جن کے خلاف ثبوت قابل مقدمہ حاصل ہو گئے ہوں او رجن کے بارے میں فرد جرم عدالت سے استدعا کرتی ہے کہ ان پر قانون اور ضابطے کے مطابق مقدمہ چلا کر سزادی جائے، لیکن گرفتار شدگان یا شکایت (ایف آئی آر) میں نامزد کوئی ایسا شخص ہو جس کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکا ہو تو اس کا نام فرد جرم کے دوسرے خانے میں درج ہوتا ہے اور اسے مقدمے کے اختتام تک ملزم خانہ نمبر2کہا جاتا ہے، حالانکہ دوران مقدمہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کے تحت عدالت کو اختیار ہے کہ وہ خانہ نمبر2 کے ملزم یا ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ چلانے کا حکم صادر کر دے اور سپریم کورٹ کی ایک نظیر موجود ہے کہ کافی ثبوت موجود ہوں تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ319 کے تحت کسی ایک شخص کو بھی ملزم قرار دے کر اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جس کا نام ایف آئی آر میں بھی موجود نہ ہو۔ لیکن آرین خاں کے معاملے میں ایسا ہونے کاکوئی امکان نہیں۔ اس کی توثیق یوں بھی ہوتی کہ فرد جرم داخل ہونے کے بعد محکمہ منشیات کے ڈائریکٹر جنرل ایس۔ این پردھان نے ایک قومی سطح کے ٹی وی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ آرین خاں معاملے میں تفتیشی ٹیم سے ’بے قاعدگیاں اور لغزشیں‘ سر زد ہوئیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان بے قاعدگیوں اور لغزشوں کے لیے تفتیشی افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ظاہر ہے ان کی مراد تھی سمیر وانکھیڑے کیونکہ تفتیشی ٹیم میں وہی گزٹیڈ افسر تھا اور جو کچھ ہوا اسی کے حکم اور ہدایات پر ہوا۔
آرین خاں اور اس کے کچھ دوستوں کی گرفتاری کے بعد جو حالات سامنے آئے ان سے یہی اندازہ ہوتا تھا( اوران دنوں شائع ہوئے اپنے ایک مضمون میں میں نے کھل کر ذکر کیا تھا) کہ وانکھیڑے کو جو اطلاع ملی اس کا اہم ترین حصہ یہ تھا کہ مذکورہ بحری جہاز پر شاہ رخ خاں کا بیٹا موجود ہے لہٰذا اس کے شیطانی دماغ نے فوراً ایک بڑی رقم کے حصول کا ارادہ کرکے اس چھاپے کا منصوبہ بنایا تاکہ آرین کی گرفتاری کی دھمکی دے کر شاہ رخ سے پیسہ اگلوایا جا سکے۔ یہ بات مع چند ثبوت و شواہد کے ساتھ ذرائع ابلاغ نے نشر بھی کر دی۔ مگر غالباً بات باہر آجانے اور سمیر وانکھیڑے کے دلالوں کے اناڑی پن کے باعث منصوبہ ناکام رہا اور اس نے بالآخر آرین کو باضابطہ گرفتار کر لیا۔
بد قسمتی سے ہمارے نظام عدل میں ایسا کوئی قانون ، ضابطہ یا میکینزم موجو دنہیں ہے جس کے تحت کسی بے قصور ملزم کو عدالت کے ذریعے بے قصور ثابت ہو جانے پر تاوان یا معاوضہ دیا جائے۔ درجنوں ایسے معاملات سامنے آ چکے ہیں جن میں نوجوان ’ ملزمان‘ نے 15 اور 20 برس تک جیل میں گزارے اور آخرش بے قصور ثابت ہونے پر رہا ہوئے، لیکن ان کے نقصان کی بھرپائی کون اور کیسے کرے گا یہ سوالات تشنہ ہی رہے۔
کسی کو جھوٹے الزامات میں پھنسا کر گرفتار کرنا یا اس پر مقدمہ چلانا قانونی اصطلاح میں malicious prosecution یعنی استغاثہ مبنی بر بغض و کینہ کہلاتا ہے جو تعزیراتِ ہند کے تحت جرم ہے۔آرین خاں چار ہفتے جیل میں رہا اور اس دوران جو جسمانی تکالیف اور نفسیاتی صدمہ اسے پہنچا اور تقریباً روز ٹی وی نیوز چینلوں پر جس طور اس کا معاملہ زیر بحث رہنے سے اس کا ذاتی وقار اور حیثیت عرفی مجروح ہوئی (ماں باپ کو جو ذہنی ایذا پہنچی اس سے قطع نظر) اس کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن سمیر وانکھیڑے کو معطل کر کے اس پر مقدمہ چلا کر سزا دی جائے تو کم از کم انصاف کا تقاضہ کسی حد تک پورا ہو گا نیز اس جیسے دیگر بد عنوان اور بے ضمیر افسران کو عبرت حاصل ہو گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS