احترام آ دمیت اور موجودہ منظرنامہ

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

تحفظ نفس اور احترام انسانیت و آدمیت اسلام کا روشن و تابناک باب ہے۔ اسلام کے بنیادی مصادر میں احترام نفس اور انسانی جان کی حفاظت و صیانت پر خاصا مواد موجود ہے۔ علاوہ ازیں حضرت محمدمصطفیؐ نے بھی قبل از نبوت اور بعد از نبوت انسانی حقوق کے تحفظ واحترام پر قولی افکار کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی ان گنت مثالیں ملتی ہیں۔آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ انسانی حقوق کا ہے۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے کہ جو ممالک اور معاشرے انسانیت کے احترام اور حقوق کی بازیابی کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں مگر وہی معاشرے قتل و غارتگری اور خونریزی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اسی کے ساتھ آج اسلام کے نظام جہاد پر اعتراض کرکے اسلام کو دنیا کا سب سے مشکوک دین قرار دینے کی ناپاک جسارت کی جارہی ہے۔ اس سازش میں دنیا کی تمام باطل طاقتیں شامل ہیں۔ جو ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔ چنانچہ عالمی منظر نامے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نوع انسانی کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے باہمی اعتماد اور انسانی احترام کی۔ لہٰذا ہمیں ہر وہ عمل کرنا چاہیے جس سے انسانیت کو نفع پہنچے اور عزت نفس کو یقینی بنایا جائے۔ کسی کی توہین کرنا یا کسی کے مرنے کے بعد اس کی کردار کشی کرنا پست ذہنیت اور غیر سنجیدہ قوموں کا شعار ہے۔ ابھی حال میں وطن عزیز میں ایک صحافی کا انتقال ہوا، اس کے بعد ہمارے معاشرے کے کچھ افراد نے ان کی موت پر نا شائستہ کلمات ادا کیے جس سے قومی میڈیا کو مسلم کمیونٹی کے خلاف بولنے کا ایک اور موقع میسر آگیا۔ اسی طرح ڈاکٹر شہاب الدین کے انتقال کے بعد برادران وطن نے بھی جشن منایا، رقص و سرور کی محفلیں تیار کیں۔ یہاں بات سمجھنے کی یہ ہے کہ موت موت ہوتی ہے کسی کی بھی موت پر خوشی کا اظہار کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کے بھی افکار و نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس کی فکری عدم توازن اور فکری جمود وتعصب پر مناسب انداز میں تنقید کی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کے کردار و اعمال یا اس کے اخلاق و عادات کو نشانہ بنانا متمدن قوموں اور باشعور معاشروں کی علامت نہیں ہے۔ اس طرح کے عمل اور فعل سے جہاں دیگر کئی ملی نقصان ہوتے ہیں، وہیں اس سے زیادہ باہم معاشروں کے تہذیبی رویوں کی بھی پہچان ہوتی ہے۔ نیز سماج میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت و بیزاری اور عداوت کا ماحول بپا ہوتاہے۔ آ ج کا جو ماحول ہے اس میں بنیادی طور پر ان افکار سے بچنا ہے جن میں حکمت و دانشمندی سے زیادہ جذبات غالب ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جذباتی اور اشتعال انگیز باتیں آ ئے دن نشر ہوتی رہتی ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان افکار و نظریات کو فروغ دینے والے بھی ہر طبقہ، معاشرہ اور سماج میں موجود ہیں۔ روہت سردانا اور ڈاکٹر شہاب الدین کی موت پر جشن منانے والے در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اپنی ملت و قوم کے خیرخواہ ہیں اور نہ ہی اپنے دین و دھرم کے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے افراد سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہوتا ہے۔ ہاں اس سے لوگوں میں بد یقینی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ سب سے بڑی ضرورت اب اس بات کی ہے کہ صلح و آشتی اور باہمی اعتماد کو اپنے کردار وعمل کا حصہ بنایا جائے۔

مذہب اسلام میں جس قدر زور انسانیت کے احترام پر دیا گیا ہے، وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی کوئی ایسا عمل کیا جاتا ہے جس سے احترام نفس کا جذبہ سرد ہوجائے یا کسی بھی فرد کی ذات مخدوش ہوجائے تو پھر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب اس معاشرہ کی روحانیت و عرفانیت پوری طرح سلب کی جا چکی ہے۔

جو لوگ کسی بھی طرح کے منفی نظریہ یا سطحیت کا شکار ہوتے ہیں، وہی لوگ مکروہات کو انجام دینے کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح کی چیزوں سے یوں بھی بچنا ضروری ہے کہ اس وقت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے کسی بھی عمل کو پسند نہیں کرتا ہے حتیٰ کہ اس قدر دشمنی ہے کہ خیر میں بھی شر تلاش کرتا ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری نظام میں تو مین اسٹریم میڈیا نے گزشتہ کئی برسوں سے جانب و طرفداری کا وہ ننگا ناچ ناچا ہے جسے سن اور دیکھ کر جمہوریت کا روحانی چہرہ مسخ ہوجاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ جو لوگ سوشل میڈیا کے توسط سے کسی کی موت یا پھر اشتعال انگیز اشتہار نشر کرتے ہیں آ خر وہ کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اس کا جواب خود ان لوگوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ اس لیے اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کی حفاظت کے لیے بنیادی طورپر ان تمام چیزوں کو مسمار و خاکستر کرنا ہوگا جن سے کسی کی عزت و توقیر یا شخصیت مجروح ہوتی ہو۔ اس وقت نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ شعوری یا غیر شعوری طور پر بھی زیادہ تر جذباتی اشتہارات، بیانات اور اعلانات کو پسند کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن باتوں کا تعلق کسی بھی کمیونٹی کی ہتک و توہین یا تنقیص و خفت سے ہو، اسی طرح مذہبی رہنماؤں کی ان باتوں سے زیادہ متاثر ہوتا رہا ہے جو جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔ ان چیزوں یا اس طرح کی غیرضروری باتوں سے خود کو اور اپنے معاشرے کو بچانا نہایت ضروری ہے تاکہ سماج میں اعتماد و ارتباط کی باسعادت فضا ہموار ہوسکے۔ انسانی حقوق و احترام کے متعلق جو شواہد و ثبوت ہمارے یہاں ہیں وہ غیرمعمولی ہیں۔ حتیٰ کہ سیرت رسولؐ کی روشنی میں تو یہاں تک ملتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرنا، اگر انتقال ہوجائے تو تعزیت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
اسی طرح دیگر سماجی مسئلوں میں بھی پڑوسیوں، غیرمسلموں کی کافی رعایت رکھی ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اسلام فطرت کے عین مطابق ہے، اسلام کی کوئی بھی ہداہت یا نصیحت ایسی نہیں ہے جس سے سماج کے کسی فرد کو نقصان پہنچتا ہو۔ ان تمام شواہد کے تناظر میں صرف اتنا کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج جو لوگ بھی ہندوستانی معاشرے میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں، چاہے وہ کسی بھی طبقہ یا دین و دھرم سے وابستہ ہوں وہ اچھا کام نہیں کر رہے ہیں۔ سیکولر معاشروں اور جمہوری نظام کی اقدار کا تقاضا یہی ہے کہ متعدد افکار و نظریات اور ادیان و مذاہب ہوں۔ البتہ اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے تمام طبقات کے ادیان کا احترام کیا جائے۔ ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسلم کمیونٹی کی ہر دور میں ایک نمایاں تاریخ رہی ہے۔ بڑی بڑی حکومتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں لیکن تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملے گا کہ کسی بھی مسلم سربراہ نے کسی بھی برادری یا قوم کے ساتھ زیادتی و تعدی یا عدم مساوات کا معاملہ کیا ہو۔ عدل بین الناس، تقویٰ، خوف خدا اور پرہیزگاری ہماری تہذیب کا شاندار کردار ہیں۔ اسے نہ کبھی بھلایا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بھی صفحہ قرطاس سے حذف کیا جاسکتا ہے۔ اپنی تاریخی عظمت کو اسی وقت برقرار رکھا جاسکتا ہے جب کہ ہم اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتی باتوں سے گریز کریں۔ ہمیشہ انہیں قوموں نے تاریخ رقم کی ہیں جو جذباتیت سے نہیں بلکہ ہوش مندی سے کا م لیتی ہیں۔
آج مسلمانوں پر یہ بھی الزام ہے کہ سب سے زیادہ جذبات سے کھیلنے والی مسلم قوم ہی ہے۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس بات میں بہت حدتک صداقت بھی ہے۔ اس کے عملی شواہد بھی موجود ہیں۔ اس وقت ان چیزوں کا تذکرہ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اتنا تو بتا یا جاسکتا ہے مسلم قوم کا اب تک جتنی بھی سیاسی پارٹیوں یا رہنماؤں نے استعمال کیا ہے، انہوں نے صرف جذبات سے کھیل کر ہی اپنے دام تزویر میں پھنسا یا ہے۔ بات یہ بھی ہے کہ آ ج جو لوگ ملک اور عالمی طاقتوں کے مکر و فریب یا ان کی سازشوں کا شکار ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں اپنے جذبات پر قابو نہیں کرپاتے ہیں۔
آ خر میں اتنا عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ انسانیت کے احترام کو یقینی بنائیے، ایسا نہ ہو کہ ہم کسی جذباتی پوسٹ یا اشتعال انگیز بیان کی زد میں آکر انسانیت کے احترام سے محروم ہوجائیں۔ مذہب اسلام میں جس قدر زور انسانیت کے احترام پر دیا گیا ہے، وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی کوئی ایسا عمل کیا جاتا ہے جس سے احترام نفس کا جذبہ سرد ہوجائے یا کسی بھی فرد کی ذات مخدوش ہوجائے تو پھر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب اس معاشرہ کی روحانیت و عرفانیت پوری طرح سلب کی جا چکی ہے۔ چنانچہ احترام آ دمیت کو اپنا شعار بنائیں بلا کسی تفریق و امتیاز اور بھیدبھاؤ کے۔ تبھی ایک اچھے اور صحت مند معاشرہ کا وجود عمل میں آسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS