علمائے دین عصری علوم کے خلاف نہیں!

0
image:https://react.etvbharat.com

یہ بات علمائے دین سے وابستہ کی جاتی رہی ہے کہ وہ عصری علوم کے خلاف ہیں مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ علمائے دین اس علم کے خلاف ضرور رہے ہیں جو بندے کو اللہ سے دور کر دے مگر اس علم کے خلاف کبھی نہیں رہے جو اللہ سے بندے کو دور نہ کرے اور انسانوں کے لیے راحت افزا ہو۔ 19 ستمبر، 2022 کو مدارس کے سروے پر دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ ایک اہم میٹنگ میں ایک بار پھر علمائے دین کی طرف سے یہ بات واضح کی گئی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’ہم عصری تعلیم کے ہرگزہرگز خلاف نہیں ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کے بچے انجینئر، سائنس داں، قانون داں اور ڈاکٹر بنیں، بڑھ چڑھ کر مسابقتی امتحانات میں حصہ لیں اور کامیابی حاصل کریں لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارابچہ مذہب کے عقیدے کو سیکھ لے، اس لیے کہ جس طرح قوم کو ڈاکٹر، قانون داں، بیرسٹر اور انجینئر کی ضرورت ہے، اسی طرح ہماری قوم کو بہترسے بہتر مفتی اور بہترسے بہتر عالم دین کی ضرورت ہے جو مدارس سے ہی پوری ہو سکتی ہیں۔‘
ان کی یہ بات ہر مسلمان کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ عصری علوم دنیاوی ضرورتوں کے لیے اہم ہیں تومذہبی تعلیم دنیاوی اور دینی دونوں ضرورتوں کے لیے اہم ہیں۔ وہ آدمی جو مذہبی احکامات سے واقف ہوگا، وہ اگر سائنس داں ہوگا تو کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرتے وقت یہ خیال رکھے گا کہ مالک کائنات نے انسان کو سبھی جانداروں کی فلاح و بہود کے لیے پیدا کیا ہے، وہ اگر ڈاکٹر ہوگا تو یہ سوچے گا کہ اس کا کام صرف پیسہ کمانا نہیں، لوگوں کو مرض سے نجات دلانے کی جدوجد کرنا ہے تاکہ وہ آخرت میں اپنے پیشے کے حوالے سے شرمندہ نہ ہو، وہ اگر قانون داں ہوگا تو لوگوں کو غلط معاملوں میں پھنسانے کے لیے نہیں، جھوٹے الزامات سے انہیں بچانے کے لیے مقدمہ لڑے گا، وہ اگر انجینئر ہوگا تو اس کی نگرانی میں بنی عمارتوں میں اس کی ایمانداری کی جھلک نظر آئے گی۔ مولانا ارشد مدنی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’ہمیں مسجد کے امام اور مؤذن کی ضرورت ہے، حلال و حرام کی تمیز بتانے والے مذہبی لوگوںکی ضرورت ہے اور ایک ہم ہی کو نہیں، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مذہبی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام کو آگے بڑھاتے ہیں۔‘ ان ضرورتوں کا احساس اس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے جب نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی لوگ نہیں مل پاتے۔ وہ لوگ جو مدارس کے نظام میں نقص نکالتے ہیں،کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ مسلمان کم سے کم اس لائق کیوں نہیں بنتے کہ اپنی اولاد کا نکاح پڑھا سکیں؟ مولانا ارشد مدنی کا یہ مشورہ قابل غور ہے کہ مدارس کے ذمہ داران مدارس کے نظام کو درست کریں یعنی بیت الخلا، باورچی خانہ، احاطوں کی صفائی کے لیے مستقل ایک ملازم رکھیں، حساب وکتاب بالکل صاف وشفاف رکھیں۔ مدرسے جس زمین پر قائم ہیں، ارباب مدارس اس کے کاغذات مکمل کرکے رکھیں۔ مولانا ارشد مدنی نے یہ بات قابل فہم الفاظ میں کہی ہے کہ ’شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مسجد، مدرسہ کسی ایسی زمین پر تعمیرکی جائے جو متنازع ہو یا کسی دوسرے کی ہویا پھر وہ سرکاری زمین ہواگر کچھ مدرسے اس طرح کی زمینوں پر قائم ہیں توہم انہیں درست نہیں ٹھہراسکتے ۔‘n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS