ناانصافی کی شکایات کا تدارک ضروری : عبدالغفار صدیقی

0

پوری کائنات کا نظام عدل پر قائم ہے ۔اسی لیے اس میں توازن ہے۔ جہاں کہیں انسان نے فطرت سے چھیڑ چھاڑ کرکے ندیوں ،دریائوں کا رخ موڑ دیا ہے یا پہاڑوں کو دھماکوں سے اڑاکر وہاں غیر فطری طور پر بستیاں بسالی ہیں۔ وہیں یہ نظام فطرت عدم توازن کا شکار ہواہے۔ اس کے باجود اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت چونکہ اس کے غضب پر حاوی ہے اس لیے کائنات کے نظام قدرت میں بڑی حد تک امن و سکون ہے ۔سورج وقت پر نکل رہا ہے ،موسم اپنے وقت پر کروٹ لے رہے ، دن کے بعد رات آتی ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب ہے کہ امن و سکون عدل اور توازن سے وابستہ ہے۔جب کسی سماج میں عدل متاثر ہوتا ہے تو بے چینی اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ روز اول سے قوموں کے عروج و زوال اور اقتدار کا آنا جانا اسی اصول سے وابستہ ہے ۔جب جب کسی نے عدل کا خون کیا ہے ،ظلم میں اضافہ کیا ہے تب تب اللہ تعالیٰ نے خود اس کا تختہ پلٹ دیا ہے،مگر انسان تاریخ سے سبق نہیں لیتا۔اس کو ذرا سی قوت ملتی ہے تو پھولے نہیں سماتا اور ظلم پر اتر آتا ہے۔ اس وقت بھی ساری دنیا میں جہاں جہاں بدامنی اور بے چینی ہے ،بیشتر مقامات پر حکمرانوں کی تاناشاہی اور ظلم و زیادتی کے سبب ہے۔ ظاہر ہے ہمارا ملک بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے ۔
گزشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔جس میں یاتری ایک کار میں بیٹھے ہوئے شخص کو بری طرح زدو کوب کررہے ہیں ۔اس شخص کے پاس ہلکی داڑھی ہے اور اس نے ٹوپی لگارکھی ہے۔اس پر الزام ہے کہ اس کی کار سے ایک عقیدت مند کو نقصان پہنچی ہے۔میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ کار چلاتے وقت ایسا ضرور ہوا ہوگا،لیکن کیا اس کا رد عمل یہ ہے کہ ہم کار کو توڑ پھوڑ دیں اور انسان پر لاٹھی ڈنڈے برسائیں۔کیا یہی خدا کے راستے میں نکلنے والوں کا پیغام ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ کار میں بیٹھا ہوا شخص حکمراں پارٹی کا ہی لیڈر تھا۔
ایک عرصہ سے ایک ہی مذہب کے لوگ ماب لنچنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کہیں گائے کی اسمگلنگ کرنے کا ایشو بناکر ماردیا جاتاہے،کسی کے ہاتھ میں گوشت نظر آجائے تو اس پر بلا تحقیق ہی مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔کہیں زبردستی نعرے لگوائے جاتے ہیں۔کہیں راستے میں نماز پڑھنے والوں پر مقدمات قائم ہوجاتے ہیں۔کہیں باحجاب لڑکیوں کو کالج سے نکال دیا جاتا ہے ۔کہیں لوجہاد کے نام پر جیلوں میں ٹھونس دیا دیا جاتا ہے ،لیکن معاملہ برعکس ہو یعنی کوئی مسلمان لڑکی غیر مسلم لڑکے ساتھ بھاگ کر شادی کرلیتی ہے تو اس کے سپورٹ میں بعض تنظیمیں کھڑی ہوجاتی ہیں ،اسے لو جہاد کا نام نہیں دیا جاتا،علی الاعلان مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی لڑکیوں سے شادی کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اوران کی پشت پناہی ہورہی ہے۔تمام سرکاری اسکیمیں جو اقلیتوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کو یا تو بند کردیا گیا ہے یا پھر ان کے فنڈ میں کمی کردی گئی ہے، اس پر بھی بجٹ کی مختص رقم جاری نہیں کی جاتی۔ مسلمانوں کا سروے ہوتا ہے، ان کی پسماندگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے ،لیکن ان کی ترقی کا کوئی منصوبہ بنانے کے بجائے ان کو مزید تاریکی اور پسماندگی کے غار میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ آخر کیا یہی سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے۔
یکساں سول کوڈ کے نام پر بھی صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے ، گزشتہ دنوں ہمارے وزیر داخلہ نے کچھ قبائلی تنظیموں اور عیسائی ذمہ داروں سے ملاقات کے بعد یہ عندیہ دیا تھا کہ عیسائیوں اور قبائیلیوں کو اس سے الگ رکھاجاسکتا ہے۔
اس وقت ہندوستان کا اقلیتی طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ہندوستان کی تعمیر میں مسلمانوں کی قربانیاں دوسری اقوام سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان مسلم حکمرانوں کو جنھوں نے اپنی زندگیاں ملک کی توسیع و ترقی میں لگادیں اور یہیں دفن ہوگئے ، ان کو مطعون کیاجارہا ہے۔ان کی نشانیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ان کی تاریخ کو نصاب سے ہٹایا جارہا ہے۔جبکہ آج بھی ان کی تعمیرات سے کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں۔کیا یہی انصاف ہے؟اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اس قدر پھیلایا جارہا ہے کہ بھائی چارہ میں کمی آتی جارہی ہے۔ اب پرتاپ سنگھ بھی اگر ٹوپی لگالے تو اس کے لیے جان بچانا مشکل ہورہا ہے۔
ہندوستانی مسلمان اس وقت صرف حکومت کے عتاب کا شکار ہی نہیں ہیں بلکہ خود اپنے رہنمائوں کی جفائوں کا بھی شکار ہیں۔ہمارے رہنما پس پردہ اغیار کے ساتھ دوستیاں نبھا رہے ہیں ۔
حکومت کا کام سماج میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کا حساب موجودہ عوام سے لینا ظلم کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کا کوئی نسلی اور نسبی تعلق ماضی کے مسلم حکمرانوں سے نہیں ہے ۔ان کے کسی عمل کے لیے نہ وہ ذمہ دار ہیں نہ جواب دہ ۔ پھر وقفہ وقفہ سے ان کے نام پر انھیں کیوں ستایا جارہا ہے ؟اگر کوئی شخص ہندوستان کے کسی سابق حکمران کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی چلاجائے تو میڈیا اس پر سوالوںکی بوچھار کردیتی ہے ،کیا دستور میں موجود مذہبی آزادی اسی کا نام ہے ؟
موجودہ حکومتیں عوام کی منتخب حکومتیں ہیں ،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں،ملک کی سالمیت ،اتحاد اور یکجہتی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اچھی غذا ، تعلیم ،روزگار کے مواقع اور احترام ہر شہری کا بنیادی حق ہے جو اسے ہر حال میں ملنا چاہئے۔مذہبی آزادی دستور کا حصہ ہے ، لیکن یہ آزادی کسی کونہیں ہے کہ وہ زبردستی اپنے مذہبی نظریات کو کسی پر تھوپنے کی کوشش کرے۔ مسلمان بحیثیت مجموعی امن پسند ہیں۔ان کا دین کسی کو تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا ،وہ دوسروں کے جذبات اور مذہبی شعائر کا احترام کرتے ہیں ،اس کے باوجودان کے ساتھ مستقل عداوت کا رشتہ رکھنا،ان کے شعائر کا مذاق اڑانا،ان کے ذرائع معاش کو مٹانے کی سازشیں کرنا،ان کے ساتھ تعصب اور ناانصافی کرناچاہے وہ حکومت کی سطح پر ہویا ملک کی اکثریت کی طرف سے۔اگرچہ گزشتہ9 سال کے عرصہ میں ملک میں کوئی بھیانک فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا،جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے،لیکن اکثریت کے ذریعہ انفرادی طور پرایک طبقہ کوجس طرح زدو کوب کیا جارہا ہے اور مسلم خواتین کو آزادی دینے کے نام پر جس طرح کے ضوابط بنائے جارہے ہیں، نیز مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے نقصانات بھی کسی بڑے فساد سے کم نہیںہیں ۔آج کی نئی نسل تک سوشل میڈیا کے ذریعہ سب کچھ پہنچ رہا ہے، جس سے اس کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے ۔نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں،ان کے اندر احساس محرومی یا غیریت کا احساس خود ملک کا بڑا نقصان ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS