اردو زبان کے تحفظ اور ترویج کا مسئلہ: فیروز بخت احمد

0
Urdu

فیروز بخت احمد

اس عرضداشت کے ساتھ ایک عملی پروگرام منسلک ہے جو اردو زبان کے تحفظ، فروغ اور اس کے حقوق کی بحالی سے تعلق رکھتا ہے۔ اردو بولنے والے معاشرے کا ہر فرد اور فریق اپنے ذوق، احساس فرض، ضرورت اور وسائل کے مطابق اس پروگرام کو فی الواقع عملی بنانے کے عمل میں حصہ لے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ حصہ داری صرف انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور بیک وقت انفرادی و اجتماعی بھی۔ اس پروگرام کے پس پشت نقطۂ نظر اور اس کے مضمرات درج ذیل ہیں:
1۔ بات ہے صرف لکھنے پڑھنے کی:
علم لسانیات کے یہ نکات اب خاصے جانے پہچانے ہو گئے ہیں کہ زبان کی دو شکلیں ہوتی ہیں: بول چال کی زبان اور تحریری زبان۔ اصل زبان بول چال کی زبان ہے۔ اور تحریری زبان اساساً بول چال کی زبان ہی کی نمائندگی کرتی ہے۔ کسی زبان کو پوری طرح جاننے کا مطلب ہے۔ کہ آپ اس کی ان دونوں شکلوں کو جانتے اور انہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ اس لیے کسی زبان کو پوری طرح جاننے کے لیے اس کی تمام مہارتیں حاصل کرنا ضروری ہیں۔ زبان کی بنیادی مہارتیں چار ہیں: 1۔سن کر سمجھنا، 2۔بولنا، 3۔پڑھنا، 4۔ لکھنا۔
جہاں تک مادری زبان کا تعلق ہے۔ پہلی دو مہارتیں یعنی سن کر سمجھنا اور بولنا سیکھنا سب کے لیے یکساں طور پر آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں مہارتیں بچوں کو کم و بیش چار سال کی عمر تک اپنے ماحول میں خود بخود آ جاتی ہیں۔ البتہ باقی دو مہارتوں یعنی پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں میں کوشش کر کے سیکھنا پڑتا ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اردو چونکہ ہماری مادری زبان ہے۔ اس لیے ہم سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ اسے جانتے ہیں اور بلاتکلف بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ بھی اردو جاننے والوں میں ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بہت بڑی تعداد اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ اس میں غیر تعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ دونوں شامل ہیں اور اس وجہ سے ہم لوگ اردو کو اپنے بہت سے روزمرہ کے کاموں میں استعمال نہیں کر سکتے۔
ہمیں اس بات کو ایک بار پھر سمجھنا چاہیے کہ ہم لوگ اردو جانتے ہیں اور اسے بولنے کی حد تک استعمال کرتے ہیں جبکہ روزمرہ کے کاموں میں استعمال کے لیے اس کا لکھنا پڑھنا جاننا بھی ضروری ہے جو نہایت آسان ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ اردو نہ جاننے والوں کے لیے اردو زبان سیکھنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے ان کے لیے اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا نہایت آسان ہے۔ یاد رکھئے ہمیں اردو نہیں سیکھنا ہے اردو ہم جانتے ہیں۔ ہمیں تو صرف اس کا لکھنا پڑھنا سیکھنا ہے اردو کی الف بے تے لکھنے پڑھنے اور حروف کو ملا کر لکھنا پڑھنا سیکھنے سے یہ خوبی بہت تھوڑے وقت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ہم ایک ماہ تک ایک گھنٹہ روزانہ اردو کے حروف تہجی اور ان کا ملانا لکھنا پڑھنا سیکھیں تو کافی ہوگا اور اگر تین ماہ تک اس عمل کو جاری رکھا جائے تو اچھی خاصی مہارت حاصل ہو سکتی ہے۔
2۔ اردو کا رسم الخط:
اردو کا رسم الخط اس کا اپنا منفرد رسم الخط ہے اور دنیا کے حسین ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک طویل تاریخی عمل سے وجود میں آیا ہے ہم اسے صدیوں سے اسی شکل میں برتتے اور قبول کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارا رسم الخط ہماری زبان، ہماری شائستگی، ہمارے تلفظ اور ہمارے ادبی و ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس ضمن میں دوسری زبانوں کے حوالے غیر ضروری ہیں اور محض غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ اردو کے حروف تہجی سارے کے سارے اس کے اپنے ہیں اور ضروری ہیں۔ ہمارے حساب سے ان کی تعداد 58ہے۔ حالانکہ اردو میں استعمال ہونے والی اصوات کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے لیکن اس کے حروفِ تہجی اس فرق کو بخوبی نبھا لیتے ہیں۔ جتنی آوازیں (اصوات) اردو میں ہیں شاید دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے اردو والے دنیا کی کسی بھی زبان کو نسبتاً جلد سیکھ لیتے ہیں اور دوسروں کے مقابلے میں غیر زبان کا ان کا تلفظ بھی اہلِ زبان جیسا ہو جاتا ہے۔
3۔ زبان، کلچر اور تشخص کا تحفظ:
اس دور میں اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے ایک بہت ہی اہم مسئلہ اپنی زبان، ثقافت اور تشخص کے تحفظ کا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم جہاں اور جب مناسب سمجھیں تھوڑی سی دلچسپی سے اپنے بچوں کی پرائمری تعلیم کے پانچ سال میں ان مقاصد کے لیے کوشش کریں۔ پرائمری تعلیم کے بنیادی مقاصد میں زبان اور کلچر کا تحفظ اور نسل در نسل ان کی منتقلی، زبان کا لکھنا پڑھنا، ماحول کا ادراک اور مل جل کر رہنا سکھانا شامل ہے۔ پانچ سال بہت ہوتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنے پرائمری تعلیم کے پروگرام کے ساتھ سنجیدگی برتیں۔ اُسے منظّم، مربوط اور موثر بنائیں اور اس کی جدیدکاری پر توجہ دیں۔ اعلیٰ درجہ کا نصاب بنائیں اور ٹیچروں کو ٹریننگ کی سہولت فراہم کریں۔ پرائمری تعلیم کو جس حد تک ممکن ہو اپنے ہاتھوں میں رکھیں اور اس شعبہ میں بیشتر فعالیت خود کریں۔ دوسروں سے زیادہ امید نہ رکھیں۔ موجودہ حالات میں یہ سب بالکل قابل عمل معلوم ہوتا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ زبان اور کلچر کے تحفظ کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے اگر ہم اپنی زبان اور کلچر کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS