غلطی کا ادراک اور اصلاح احوال کا موقع

0

کوئی تسلیم کرے نہ کرے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ غلط بات زمین سے مریخ تک غلط ہی ہوتی ہے۔زماں و مکاں کے بڑھتے فاصلے کی وجہ سے غلط بات کو درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلطی کو ’صحیح قدم‘ قرار دیاجاسکتا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے، لغزشوں سے ماوراکوئی بھی نہیں، نہ عدلیہ، نہ مقننہ اور نہ ہی انتظامیہ۔ ان حالات میں احسن طریقہ یہ ہوتا ہے کہ غلطی کا ادراک ہوتے ہی اس کی اصلاح کرلی جائے۔اگرخود غلطی کا ادراک نہ ہو اور کوئی دوسرا اس جانب توجہ دلائے تو اصلاح احوال میں انا، ضد اور ہٹ دھرمی کو حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
عدلیہ اور بعدازاں مقننہ کی ایسی ہی چند ایک غلطیوں کی جانب وزارت امور داخلہ کی قائمہ کمیٹی نے گزشتہ دنوں توجہ دلائی ہے اور اصلاح احوال کا مشورہ دیا ہے۔مقننہ کی اس قائمہ کمیٹی نے تعزیرات ہند 1860، ضابطہ فوجداری 1898 اور قانون شواہد 1872 کی جگہ پیش کیے جانے والے تین مجوزہ فوجداری قوانین ’بھارتیہ نیا ئے سنہتا بل 2023‘، ’بھارتیہ شہری تحفظ سنہتا بل 2023‘اور’بھارتیہ ساکشیہ بل 2023‘کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں زنا کے قانون کو واپس لانے کی پرزور سفارش کی ہے کہ شادی شدہ خواتین و مرد کے کسی اور کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو پھر سے صیغہ ’ جرم ‘ میں شامل کیاجائے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج لال کی سربراہی میں اس پارلیمانی کمیٹی نے قانون میں صنفی غیرجانبدارانہ دفعات کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں، عورتوں یا تیسری جنس کے درمیان جنسی تعلقات کو جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے۔صنفی غیر جانبدارانہ سے پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے مرد اور عورت دونوںمرادلیا ہے اور دونوں کو ہی اس معاملہ میں یکساں طور پر قابل تعزیر ٹھہرانے کی متمنی ہے۔یادرہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں جو تینوں فوجداری قوانین کے بل پیش کیے ہیں، ان میں کہاگیا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کے شوہر کی رضامندی کے بغیر جنسی تعلق رکھتا ہے تو قصوروار ثابت ہونے پر اسے پانچ سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ عورت کو سزا نہیں دی جائے گی۔
کمیٹی کی رپورٹ میں آئی پی سی کی دفعہ 377 کو واپس لانا (جسے سپریم کورٹ نے 2018 میں جزوی طور پر ختم کر دیا تھا) اور زنا کی دفعات کو برقرار رکھنا شامل ہے۔یہ تجاویز دفعہ 497 کے تحت شامل کی گئی ہیں اورا سے صنفی غیر جانبدار بنا دیا گیاہے۔ کمیٹی کاکہنا ہے کہ شادی کا ادارہ مقدس ہے جس کا محفوظ ہونا ضروری ہے۔نئے مسودہ قانون میں منظم جرائم کا کوئی ذکر نہیں تھا جسے کمیٹی نے پھر سے شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔نیز کئی جرائم کو ’سنگین‘ بھی قرار دیا ہے اور اس کیلئے سزائے موت کی تجویز پیش کی ہے۔ان سنگین جرائم میں نابالغوں کی اجتماعی عصمت دری کے مجرموں کو سزائے موت دیاجانا بھی شامل ہے۔ کمیٹی نے غفلت کے باعث موت کے واقعات میں سزا کو موجودہ چھ ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ قانون شہادت کے معاملے میں بھی اہم تبدیلی کی کمیٹی نے سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ عدالتی کارروائی وسماعتمکمل ہوجائے تو عدالت کو ایک ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کی ضرورت ہے۔
2018 میں ہم جنس پرستی سے متعلق دفعہ 377 پر سماعت کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کی ایک آئینی بنچ نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے ہٹا دیا تھا۔اس وقت پانچ نفری بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ زنا جرم نہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہیے۔بعدازاںعدالت کی دکھائی ہوئی راہ پر تیزگامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیرداخلہ سماج و معاشرہ کے مسلمہ اخلاقیات، اقدار و نظریات کو کچلتے ہوئے کچھ اور دور نکل گئے۔گزرنے والے مانسون اجلاس کے دوران یہ تینوں مسودہ قانون ایوان میں متعارف کراتے ہوئے وزیرداخلہ امت شاہ نے اسے انقلابی اور تاریخی قدم قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ وہ ہندوستان کے فوجداری انصاف کے نظام کو تبدیل کریں گے۔یہ تبدیلیاں تیز رفتار انصاف فراہم کرنے اور ایک ایسا قانونی نظام بنانے کیلئے کی جارہی ہیں جو عصری ضروریات اور لوگوں کی امنگوں پر پوری اتریں گی۔
زنا اور ہم جنسی پرستی ابتدائے آفرینش سے ہی جرم قبیح کے درجہ میں شامل ہیں۔دنیا کے ہر الہامی و آسمانی مذہب میں ان جرائم کو سنگین قرارد یتے ہوئے خاطیوں کو نشان عبرت بنانے کاقانون دیا گیا ہے۔ہندوستان کے ’5ہزار سالہ ‘پرانے معاشرہ میں بھی ’زنا اور ہم جنسی پرستی ‘کو قابل نفرین جرم سمجھاجاتارہاہے۔اس کے بالمقابل ہر مذہب اور مہذب معاشرہ میںشادی کے ادارہ کو مقدس قراردے کر تحفظ انسانی کا سامان کیا گیا ہے۔
بدلتے زمانے اور عصری ضروریات کی دہائی دیتے ہوئے بقائے انسانی کی اس بنیادکو نہ تو بچوں کا کھیل بنایاجانا چاہیے اور نہ ہی بدکاری کو فروغ دیاجانا چاہیے۔زنا اور ہم جنس پرستی کے معاملے میں قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو قانون کا حصہ بنایاجانا ہی ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور معاشرہ کے تحفظ کا ضامن ہے۔ غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اصلاح احوال کی راہ میںانا، ضد اور ہٹ دھرمی آڑے نہیں آنی چاہیے۔
[email protected]

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS