صرف مغربی دنیا ہی نہیں عرب ممالک بھی ذمہ دار: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

فلسطین نام کی ریاست اب غزہ تک سمٹ کر رہ گئی ہے، مغربی کنارہ اصل فلسطین/غزہ سے کنارہ کش ہوچکاہے، غزہ در اصل کوئی ریاست بھی نہیں بچی ہے، حقیقت میں وہ برسوں سے ایک کھلی جیل تھی جو اب میدان جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں اسکول اور اسپتال کچھ بھی محفوظ نہیں ہیں، اسکولوں کا عالم یہ ہے کہ ایک ٹیچر کلاس روم میں جاکر خالی کرسیوں کو مخاطب کرتاہے اور اپنا چہرہ آنسوؤں سے بھگو کر کلاس ختم کردیتاہے کیونکہ اس اسکول میں پڑھنے والے سبھی بچے اسرائیل کی بربریت کا شکار ہوکر ابدی نیند سوچکے ہیں، اسپتالوں کا عالم یہ ہے کہ پری میچیور نوزائیدہ بچے انکیوبیٹر میں رکھنے کے بجائے کھلی جگہ میں رکھے گئے ہیں کیونکہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے کوئی مشین کام نہیں کر رہی ہے، اسرائیلی ٹینک اور فوجی ان اسپتالوں میں داخل ہوکر انسانیت کو منھ چڑھا رہے ہیں۔ مغربی اور خلیجی دنیا جہاں بسوں میں چڑھنے کے لیے معذوروں کی خاطر وہیل چیئر کا انتظام کرتی ہے تاکہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، وہ غزہ کے معصوم اور نوزائیدہ بچوں کو مرتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ یہاں ہر طرف خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں ہیں اور اسپتال قبرگاہ بن چکے ہیں، وہ اسرائیل جو اس پورے علاقے میں خود کو جمہوری اور انسانی اقدار کا حامل قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتا ہے، اس کا غیر انسانی چہرہ دنیاکے سامنے ہے۔
امریکہ سے لے کر فرانس اور برطانیہ تک ہونے والے مظاہرے وہاں کے عوامی افکار و نظریات کے غماز ہیں، انسانی دکھ درد کو عوام سمجھ رہے ہیں اور اسرائیلی بربریت کے خلاف وہ سڑکوں پر ہیں، مغرب کے عوام اسرائیلی بربریت کو نسل کشی سے تعبیر کر رہے ہیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر حکمرانوں کی آنکھیں بند ہیں، عوام نے جسے چند دنوں میں محسوس کرلیا، اسے یہ جمہوری حکومتیں نہیں محسوس کر پا رہی ہیں، کیونکہ ان کے دوہرے معیار ہیں، ایک طرف یہ انسانیت اور انسانی اقدار کی دہائی دیتی ہیں اور دوسری طرف غزہ میں ہو رہی نسل کشی کی تائید بھی کرتی ہیں جبکہ عوام سچ کو سمجھتے ہیں اور اپنے رد عمل کا اظہار بھی کرتے ہیں جسے ان مظاہروں اور ان میں لگنے والے نعروں سے بآسانی سمجھا جا سکتاہے۔
حکومتیں خواہ مغرب کی ہوں یا مشرق کی یا خاص طور پر عرب دنیا کی، سب کی سب اندھی اور بہری ہوتی ہیں، بہت کم ریاستیں ایسی ہیں جو واقعی زندہ ہوں اور جو اپنی زندگی کا ثبوت بھی دیتی ہوں۔
اسرائیل اور فلسطین کے مابین کشمکش میں مغربی دنیا کو ان کے دوہرے معیار کے لیے سب و شتم کیا جاسکتاہے، اسے اس کے لیے گھیرا جاسکتاہے، لیکن عرب دنیا بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ہے، فلسطینیوں کو تنہا مرنے کے لیے چھوڑنے میں عرب دنیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
عرب دنیا کے بادشاہوں اور یہاں کے کارپردازوں نے تھوڑے سے مفاد کے لیے ایسا سودا کیا ہے جس کی جانی و مالی قیمت فلسطینیوں کی نسلیں چکا رہی ہیں اور چکاتی رہیں گی، روحانی قیمت پوری دنیا کے مسلمان چکارہے ہیں، آج جس درد سے فلسطینی اور پوری دنیا کے مسلمان گزر رہے ہیں اس میں ایک بڑا حصہ عرب ممالک کا ہے، اگر ان ملکوں نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے مغربی دنیا اور اسرائیل سے ساز باز نہ کی ہوتی تو شاید یہ منظرنامہ نہ ہوتا۔ مگر سلام ہے فلسطینیوں کے عزم و ہمت کو کہ انہوں نے ابھی تک امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے، وہ ہر سال ’’یوم نکبہ‘‘ پر اپنے ان گھروں کی چابیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں جن کا آج وجود بھی نہیں ہے، جن گھروں کو مسمار کرکے ان کی جگہ اسرائیل نے نئی کالونیاں بسادی ہیں، مگر اس کے ان اصلی مکینوں کو امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس ہوں گے اور شادمانی کے نغمے گائیں گے، مگر ان کی امیدیں صرف امیدیں ہی ہیں کیونکہ عرب دنیا ان سے بالکل لا تعلق ہوتی جا رہی ہے۔
اسرائیل سے اپنے رشتے مضبوط کرنے کے ضمن میں عرب دنیا فلسطین کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہتی رہی ہے کہ اسرائیل اب فلسطینی زمین پر قبضہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے کسی حصہ کو اسرائیل میں ضم کرے گا کیونکہ اس نے اس بات پر اپنی رضامندی دے دی ہے حالانکہ وہ اس کے برعکس نہ صرف کرتا رہاہے بلکہ آج غزہ میں اس نے جو تباہی مچائی ہے، وہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اسرائیل دو طرفہ کھیل کھیل رہاہے، ایک طرف وہ عرب دنیا سے قریب ہو رہاہے اور دوسری جانب وہ فلسطین کے وجود کو بھی مٹا رہاہے، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ عرب کے شیوخ اس کا کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس خطے میں فلسطین کے بجائے ایران کو مسئلہ بنایا جائے، دوسری جانب اسرائیل سے متعلق عرب د نیا کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں عوام کو سڑکوں پر آنے سے روکا جائے جسے ہم سب دیکھ رہے ہیں، برسوں سے فلسطینی کاز کو ان عرب ممالک نے پس پشت ڈال دیا تھا اور یہ سب کے سب امریکہ کی قیادت میں اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات میں نہ صرف کوشاں تھے بلکہ منہمک تھے، مگر حماس کے جیالوں نے دنیا کو جگانے اور اسے اصل حقیقت سے روبرو کرانے کے لیے جو کیا، وہ بڑی بات تھی کیونکہ ان کو بھی نتیجہ معلوم تھا، اس کے باوجود یہ اقدام کیا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل روزانہ فلسطینیوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہا تھا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اقوام متحدہ کی وارننگ کے باوجود وہ ان علاقوں میں یہودی بستیاں بساتا رہاہے جو ابتدائی چارٹر کے مطابق اس کی نہیں تھیں، فلسطینی دیکھ رہے تھے کہ وہ ان زمینوں کو ہضم کرتا جا رہاہے جو فلسطینیوں سے زبردستی خالی کرائی گئی تھیں، دنیا میں اسرائیل واحد وہ ملک ہے جہاں بچوں کو سزائیں دی جاتی ہیں، فلسطینی علاقے میں واقع اسکولوں میں فوجی داخل ہوکر بچوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں اور جیلوں میں ڈال دیتے ہیں، دنیا کو سب کچھ معلوم ہے، مگر سب خاموش تھے، اس لیے فلسطینیوں کو ایسا کرنا پڑا تاکہ دنیا متوجہ ہو، انہوں نے بہت بڑی قیمت چکا کر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے مگر شاید نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا کیونکہ عرب ممالک اس وقت بھی خواب خرگوش میں مبتلا ہیں، ہنگامی اجلاس کے باوجود ان میں کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہے، وہ اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کے خاتمے پر تو اتحاد نہیں کرسکے۔ حالانکہ عرب دنیا اگر چاہتی تو اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے اپنے تیل کو ہتھیار بناسکتی تھی مگر وہ ایسا نہیں کرسکی کیونکہ اسے اس بات کا خوف ہے کہ پھر اسے مغربی دنیا کی جانب سے تحفظ نہیں ملے گا اور اس کا حال مصر کے منتخب صدر محمد مرسی جیسا ہوگا۔محمد مرسی کی طرح ان میں ہمت نہیں ہے کہ وہ حالات کا استقلال اور پامردی سے مقابلہ کرسکیں جس کی ایک سب سے بڑی وجہ نظریاتی کمزوری ہے، ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی ان کی بنیادیں مضبوط ہیں، اگر ان کی بنیادوں کو دیکھا جائے تو پوری عرب دنیا کے بادشاہوں کی خلعتیں خلافت عثمانیہ کی چاک دامانی کا نتیجہ ہیں، ان سب کو اسی کا صلہ ملا تھا۔ایسے میں یہ ان خلعتوں کے کسی بھی طرح سے چھین لیے جانے سے خوف زدہ ہیں۔
عرب ریاستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتا ہے، جس نے بنو قریظہ اور بنو قینقاع کی مدینہ سے جلاوطنی کو نہ صرف یاد رکھا ہے بلکہ اسے بھی اپنے آباء و اجداد کی زمینیں قرار دیتاہے، اس کی سرشت میں سازش اور ابن الوقتی ہے، وہ کسی بھی حد سے گزر سکتاہے اور اسے آج دنیا کی سپر پاور اور اس کے حواریوں/مغربی دنیا کا ساتھ ملا ہوا ہے جو ایک طرف اسرائیل کو حق دفاع دیتا ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسے ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا ہے، آج کی سیاست ابن الوقتی اور مفادات کی ہے جبکہ فلسطین اور القدس کا معاملہ حق پرستی، جمہوریت اور ایمان کا ہے اور حق و ایمان کا سودا کرنے والوں کے نام و نشان تک مٹ جاتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS