دنیا بھر کی توجه کا مرکز قرویین یونیورسٹی

0

کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ مسلمانوں نے 8 و یں سے 13 ویں صدی تک حصول علم پر خصوصی توجہ دی جبکہ کئی اور لوگوں کا ماننا ہے کہ 15 ویں صدی تک توجہ دی۔ اس کے بعد بھی کئی ملکوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور رہی مگر علم کی ترسیل پر وہ اس طرح توجہ نہیں دے سکے جیسے انہیں دینی چاہیے تھی جبکہ 12 ویں صدی کے بعد یوروپی ملکوں میں ترسیل علم پر توجہ دی جانے لگی تھی اور یوروپی حکمرانوں سے بھی مسلم حکمراں تعلیمی مراکز قائم کرنے کی اہمیت سمجھ سکتے تھے۔ اگر وہ سمجھ لیتے تو مسلمانوں کے شاید وہ حالات نہیں ہوتے جوآج ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ایک مسلم خاتون، فاطمہ الفہری اور ان کی بہن مریم نے 857 میں ہی جامع مسجد قرویین کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہ صرف مسجد نہ تھی، یہ تعلیمی مرکز بھی تھا یعنی مدرسہ بھی تھا، وہی مدرسہ جو آج کئی لوگوںکے نشانے پر رہتا ہے۔ قرویین کو کئی لوگ یونیورسٹی اس لیے بھی مانتے ہیں کہ یہ اپنے دور میں تعلیم کا بڑا مرکز تھا اور یہاں علم کے حصول کے لیے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے۔ بحیرۂ روم کے اطراف کے علاقوں میں تعلیم کی ترسیل کا یہ سب سے بڑا مرکز تھا۔ یوروپی ملکوں کے لوگ بھی اس مرکز میں حصول علم کی غرض سے آتے تھے اور دوردراز کے علاقوں کے عرب بھی۔ اس ادارے کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں سب کو تعلیم کے حصول کی آزادی تھی۔ اس تعلیمی مرکز سے علم حاصل کرنے والوں میں یہودی بھی تھے اور عیسائی بھی۔ یوروپ کے لوگوں کو صفر اور باقی عربی اعداد سے واقف کرانے کا کریڈٹ پاپائے روم پوپ سلوسٹر ثانی کو دیا جاتا ہے اور انہوں نے بھی فاطمہ الفہری کی قائم کی ہوئی اسی مسجد اور مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے علاوہ اپنے وقت کے مشہور فلسفی موسیٰ بن میمون نے یہیں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مشہور و معروف مسلم مورخ، فقیہ اور فلسفی ابن خلدون کی وابستگی بھی اس تعلیمی مرکز سے رہی۔ اگر آج کے دور کی بات کی جائے تو مراقش کے مقبول اسلامی اسکالر، سیاست داں، رائٹر اور شاعر بھی قرویین یونیورسٹی سے فارغ ہیں۔ قرویین یونیورسٹی میں آج کتنے لوگوںکا اسٹاف ہے اور کتنے طلبا اس سے وابستہ ہیں، یہ اعداد تو حاصل نہیں ہوسکے، البتہ 2012 تک اس میں 1,025 لوگوں کا اسٹاف تھا، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تعداد 708 تو 8,120 طلبا کی اس سے وابستگی تھی۔ مراقش کے شہر فاس میں قائم قرویین یونیورسٹی کا شمار آج بھی دنیا کی اہم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قرویین یونیورسٹی کا تذکرہ کیے بغیر یونیورسٹی کی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز قرویین یونیورسٹی 1963 سے اسٹیٹ یونیورسٹی ہے۔ یہ یونیورسٹی یہ احساس دلاتی ہے کہ مسلم خواتین تعلیم حاصل کریں اور علم کی ترسیل کے لیے فاطمہ الفہری کی طرح بڑے تعلیمی ادارے قائم کریں، کیونکہ آج کی مسلم خواتین کو اپنی علمی کارکردگی اور علمی خدمات کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS