دنیا کی قدیم یونیورسٹیوں میں جامعہ الازہر بھی شامل

0

مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی ریاستوں کے مسلمانوںنے تعلیم کی ترسیل کے لیے تعلیمی اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی ہے اور ایسی ہی توجہ شمالی ہند کے مسلمانوں کو بھی دینی چاہیے تاکہ علم کے لحاظ سے مسلمانوں کا وہ سنہرا دور پھر سے واپس آسکے جو کبھی تھا۔ اس سلسلے میں مسلم لیڈروں سے توقع رکھنے کے بجائے خود کام کرنا چاہیے، کیونکہ مسلم لیڈروں کے قول و عمل سے ایسا لگتا ہے کہ تعلیم کی ترسیل ان کے لیے اتنا اہم ایشو نہیں ہے جتنے اہم کچھ اور ایشوز ہیں۔ دنیا کی ٹاپ 10 یونیورسٹیوں میں ایک بھی وہ یونیورسٹی نہیں ہے جو مسلمانوں نے قائم کی اور اپنی تعلیمی خدمات کی وجہ سے وہ ایک سنہری تاریخ رکھتی ہے جبکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں کی بات کی جائے اور بات قبل مسیح کی نہ ہو تو اس کی ابتدا ہی قرویین یونیورسٹی سے ہوتی ہے جو فاطمہ الفہری نے قائم کی تھی۔ اس کے علاوہ جو 10دیگر قدیم یونیورسٹیاں ہیں، ان میں بھی مسلمانوں کی بنائی ہوئی یونیورسٹی، جامعہ الازہر شامل ہے۔ اسے 10 قدیم یونیورسٹیوں میں 10 ویں نمبر پر رکھا جاتا ہے۔ 1050 سال پہلے یہ یونیورسٹی مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں 972 میں قائم کی گئی تھی ۔ اس سے 4,000 سے زیادہ تعلیمی ادارے وابستہ ہیں یعنی راست اور بالواسطہ طور پر جامعہ الازہرسے ہزاروں طلبا و طالبات وابستہ ہیں۔ وہ لوگ جو قرویین یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی نہیں مانتے، اٹلی کے بڑے شہر بولونیا کی بولونیا یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی مانتے ہیں جبکہ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی، کیونکہ جامعہ الازہر 972 میںہی قائم کر دیا گیا تھا اور بولونیا یونیورسٹی کا قیام 1088میں ہوا تھا یعنی جامعہ الازہر کے قیام کے 116 سال بعد۔ بولونیا کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ماننے کی بظاہر سیدھی سی وجہ یوروپیوں کا احساس برتری ہی نظر آتا ہے، ورنہ وہ قرویین یونیورسٹی کو نہیں تو ازہر یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ضرور مانتے۔ یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ گفتگو کا موضوع قبل مسیح سے پہلے کے تعلیمی مراکز نہیں ہیں۔ اگر قبل مسیح سے پہلے کے تعلیمی مراکز بھی گفتگو کا حصہ بنالیے جائیں تو قرویین یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی کہنا ٹھیک نہیں ہوگا، کیونکہ تکشیلا میں 10 صدی قبل مسیح میں ہی یونیورسٹی قائم کر دی گئی تھی۔
قدیم یونیورسٹیاں آج بھی علم کی ترسیل میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں بولونیا یونیورسٹی کی مثال پیش کی جائے، آکسفورڈ یونیورسٹی کی یا کسی اور یونیورسٹی کی۔ بولونیا یونیورسٹی میں 2,917 اکیڈمک اسٹاف ہیں، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تعداد 2,965ہے جبکہ اس سے وابستہ طلبا کی تعداد 90,291 ہے۔ ان میں پوسٹ گریجویٹ طلبا 36,266 ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اکیڈمک اسٹاف 6,995 ہیں اور 2019 میں 24,515 طلبا تھے۔ ان میں پوسٹ گریجویٹ طلبا کی تعداد 12,010تھی۔ دنیا کی ایک اور قدیم یونیورسٹی، سالامانکا یونیورسٹی ہے۔ اس میں اکیڈمک اسٹاف 2,453، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف 1,252 اور طلبا 30,000ہیں۔ اسپین کے شہرسالامانکا میں 1218 میں یہ یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کی پیرس یونیورسٹی دنیا کی ایک اور قدیم یونیورسٹی ہے۔ یہ 1150 میں قائم کی گئی تھی۔ اس سے بھی بڑی تعداد میں طلبا وابستہ ہیں۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی 1209 میں قائم کی گئی تھی۔ اس میں 2020 تک 6,170 اکیڈمک اسٹاف اور 3,615 ایڈمنسٹریٹو اسٹاف تھے۔ 24,450 طلبا اس سے وابستہ تھے۔ اٹلی کے شہر پادووا کی پادووایونیورسٹی، اٹلی کے ایک اور شہرناپولی کی ناپولی فیڈریکو دوم یونیورسٹی اور اٹلی کے ہی شہر سئیناکی سئینا یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے بارے میں پڑھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یوروپی ملکوں میں تعلیم کی ترسیل پر سب سے زیادہ توجہ اٹلی میں ہی دی گئی تھی، اس کے بعد برطانیہ اور پھر فرانس، اسپین، پرتگال وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔ ذکر قدیم یونیورسٹیوں کا چل ہی رہا ہے تو یہ بتا دیں کہ پرتگال کے شہرکویمبراکی کویمبرا یونیورسٹی کا شمار بھی قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ بات اگر صرف علم کی ترسیل کی ہی ہے تو آج کے دور میں یہ زیادہ مشکل بھی ہوئی ہے اور زیادہ آسان بھی، کیونکہ500 سال پہلے کے مقابلے دنیا میں اقتصادی عدم مساوات بڑھا ہے۔ دنیا کے 59 فیصد لوگ روزانہ 5 ڈالر نہیں کما پاتے، 25 ہزار لوگ روزانہ بھوک سے مر جاتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ علم کیسے حاصل کریں، انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پسماندہ ملکوں کی حکومتیں تعلیمی مراکز کیسے قائم کریں جبکہ اقتصادی طور پر دنیا کے ٹاپ 25 ملکوں نے ہی عالمی اقتصادیات کی 83.3 فیصد دولت پر قبضہ جما رکھا ہے اور باقی کی 16.7 فیصد دولت ہی دنیا کے بقیہ سبھی ممالک کے پاس ہے۔ تعلیم کی ترسیل آسان اس طرح ہوئی ہے کہ بڑے تعلیمی ادارے کھولنے کے بجائے موبائل، ٹیب، لیپ ٹاپ کے توسط سے بھی بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنا ممکن ہوا ہے۔ اس کے لیے محلے کی سطح پر کام کیا جا سکتا ہے۔ بڑے ادارے قائم نہ کرنے سے یہ تو نہ ہوگا کہ ان اداروں کے ساتھ نام زندہ رہے مگر علم کی ترسیل کا اجر آخرت میں ضرور ملے گا اور یہ فیصلہ خود ہی کرنا ہے کہ 60-70 سال یا زیادہ سے زیادہ 100 سال کی زندگی میں ملنے والا نام اہم ہے یا اس زندگی میں ملنے والا اجر جس کا اختتام نہیں ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS