قرآنی کافور-ایک سائنسی جائزہ

0

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
آخری قسط
زیر نظر مضمون کی پہلی قسط 23اکتوبر 2022میں شائع ہوئی تھی۔
اب قابل غور وفکر بات یہ ہے کہ قرآنی لفظ کافور منبع سنسکرت لفظ کرپور ہے جیسا کہ اکثر علماکا خیال ہے یا پھر قرآنی کافور کی بنیاد عبرانی اوریونانی زبان کے الفاظ کافیر اور کوفراس ہیں۔ راقم الحروف کی ناچیز رائے میں تاریخی اور سائنسی دلائل اس بات کو بہت واضح کردیتے ہیں کہ قرآن کریم کا بیان کردہ کافور ہندوستانی کرپور یا کپور نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا اس لفظ کی بنیاد عبرانی اور یونانی زبان کے وہ الفاظ ہیں جن کے معنیٰ حنا یعنی مہندی کے ہیں۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ عربی اور عبرانی زبانوں کامنبع اور بنیاد قدیم سامی زبان ہے اسی لئے نہ جانے کتنے عربی الفاظ عبرانی الفاظ سے ملتے جلتے اور ہم وزن ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یونانی اوردوسری عجمی زبانوں کے الفاظ بھی عربی میں مستعمل ہوگئے اورعربی زبان کاحصہ بن گئے اور قرآن پاک میں جگہ پاگئے۔ حافظ سیوطی اور دوسرے بہت سے علما نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ نباتات کے ناموں کے اعتبار سے یہ نظریہ اور بھی واضح ہوجاتاہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوئے کئی نباتات کے نام ان عبرانی ناموں کے ہم وزن ہیں، جن کا ذکر مقدس انجیل اورتوریت میں ہواہے۔ ذیل کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
اب اگر غور کیا جائے کہ قرآن مجید اور مقدس بائبل کے یہ سارے الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی اور ہم وزن ہیں تو کیا ممکن نہیں ہے کہ حنا (مہندی) کے لئے بائبل کا لفظ کافیر(یونانی کوفراس) اور قرآن پاک کا لفظ کافور ایک ہی ہو۔کچھ بعید نہیں کہ ’’کافور‘‘ عربی میں مہندی کے لئے حنا کے ساتھ زمانہ قدیم میںاستعمال ہوتا رہا ہو اورجب موجودہ کافور، جواصل میں فارسی لفظ ہے اور سنسکرت لفظ کرپور کادوسرا روپ ہے۔ ساتویں یا آٹھویں یا نویں صدی میںعرب میںعام طور پر پہنچایا جانے لگا توعربی لفظ کافور بہ معنی حنا فارسی لفظ کافور بہ معنی Camphor سے منسلک ہوگیا ہو اور مہندی کے لئے صرف حنا رہ گیا ہو۔ اسٹائن گاس کی شہرت یافتہ ڈکشنری میںکافور کو فارسی لفظ ہی بتایا گیا ہے۔ نباتات اور نباتاتی اشیاکے ناموں میں ایسی تبدیلیاں دنیا کی ساری زبانوں میں ہوتی رہی ہیں ساتویں صدی میں ایران اورعراق پر اسلامی اقتدارکے بعد عربی اور فارسی زبانوں کا اثر ایک دوسرے پر کافی پڑنے لگاتھا۔ بہت سے فارسی الفاظ عربی میں اورعربی الفاظ فارسی میں مستعمل ہوگئے۔ آٹھویں صدی میں عربوں کے توسط سے طبی سائنس کوزبردست فروغ حاصل ہوا اور فارسی لفظ کافور بہت عام ہوگیا۔ یہ وہی دور ہے جب قرآن کریم کے تراجم فارسی میں کئے جانے لگے اور تفاسیر کا مفید سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے قبل عربی میں قرآن پاک پر جتنا بھی لکھاگیا ہوگا اس میں کافور کے لفظ کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہوگی۔
مندرجہ بالا دی گئی تاریخی اور سائنسی حقائق کی بنیاد پر اب اگر قرآنی کافورکو حنا (مہندی) تسلیم کر لیا جائے تو بات بالکل صاف اور واضح ہوجاتی ہے، حناء یعنی iinermis Lawsonia عرب علاقوں کا معروف پودہ ہے جو کسی زمانہ میں اپنی پتیوں اور خوشبودار پھولوں کی بنا پر وہاں کے سماج میں بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ پھولوں سے عطر حنا حاصل کیاجاتا تھا جو اپنی خوشبو اوردل ودماغ کو فرحت پہنچانے میں بے مثل سمجھا جاتا تھا شادی بیاہ، مذہبی رسومات اوردعوتوں میں عطر حناء کا استعمال ضروری سمجھا جاتا تھا۔ امراء اور روساء کے شاہی غسل خانوں میں وہ پانی فراہم ہوتا تھا جس میں حنا کے پھول ملے ہوتے تھے،مصر میں جنازہ کو محفوظ کرنے کے لئے لوبان وغیرہ لگاتے اور خوشبو کے لئے عطر حنا چھڑکتے تھے۔ حنا کی پتیوں سے خضاب بنا اورعورتوں کے ہاتھ پیر اور چہرے کو حنائی رنگ سے سجانا عربوں میں بہت عام تھا۔ عطر حنا کی تاثیر سرد ہوتی ہے لہٰذا خوشبو اور ٹھنڈک کے اعتبار سے اس کی آمیزش اورملاوٹ پانی اور شراب کو فرحت وسرور کا مزید ذریعہ بنادیتی ہے۔
کافور کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے لیکن کسی بھی حدیث میں اس کی نہ تو تاثیر بیان ہوئی اورنہ ہی اس کوایک دوا بتایا گیا ہے۔ اسی طرح طب نبوی کے ضمن میں کافور کو نہیں شامل کیا گیا ہے۔ گویا کہ احادیث کی روشنی میں بھی یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جس کافور کا ذکر رسول خدانے فرمایا ہے وہ آج کا کافور (Camphor) ہوگا۔ کئی احادیث کے بموجب رسول اللہ نے جنازہ کو غسل دینے کے بعد کافور لگانے کی ہدایت فرمائی۔ ایک موقع پر آپ نے خود ہی ایک جنازہ پر غسل ہوجانے کے فوراً بعد ’’کافور‘‘ لگایا۔ ظاہر ہے کہ حضور کے زمانے میں حجاز اور نجد میں کافور بہ معنی Camphor کا عام طور سے اس قدر دستیاب ہونا کہ اسے تجہیز وتکفین میںاستعمال کیا جائے نہ تو قرین قیاس لگتا ہے اور نہ ہی سائنس کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے۔ برخلاف اس کے کافور بمعنی عطر حنا کا عام طور سے ملنا اور مختلف مواقع پر بہ آسانی میسر ہونا قرین قیاس ہی نہیں بلکہ یقینی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ مصر وغیرہ میں اسلام سے قبل بھی جنازہ پر عطر حنا لگایا جاتا تھا۔ اس موقع پر یہ بات پھر دہرائی جاسکتی ہے کہ تیرہویں صدی تک جاواکے کافور کی قیمت سونے کے برابر تھی چنانچہ ایسی قیمتی چیز کا ساتویں صدی میں، خاص طور سے عرب میں، عام طور سے استعمال ممکن نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی طب کے فروغ کے نتیجہ میں کافور صرف قیمتی دوائوں میںاستعمال ہوتا رہا، حتیٰ کہ تیرہویں صدی کے بعد جب چینی کافور ہندوستان اورعرب کے بازاروں میںدستیاب ہونے لگا تو یہ کافی ارزاں ہوگیا اور مختلف دوائوں میںاس کا استعمال شروع ہوگیا۔
آج کل تو کافور بہت ہی سستا ہوگیا کیونکہ یہ تارپین کے تیل سے بنایا جانے لگا ہے اور پلاسٹک کی صنعت میں اس کی کافی کھپت ہو گئی ہے۔
جارج واٹ نے کافور پر اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھا ہے کہ یونان، مصر اورعرب کی جتنی بھی تصنیفات اسلام سے قبل کی ملتی ہیںان میں کافور کا ذکر نہیں ملتا ہے صرف ایک حوالہ اس لفظ کا ملتا ہے اور وہ ہے عربی کے مشہور شاعر امرؤالقیس کا ایک شعر۔ اس شعر میں لفظ ’’کافور‘‘ دیا گیا ہے۔ جارج واٹ نے مذکورہ شعر نہیں تحریر کیا ہے اور نہ ہی اس کے معنی دئے ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ امرئوالقیس کی شاعری میں لفظ ’’کافور‘‘ کاہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کا اشارہ Camphor کی جانب ہو-ہوسکتا ہے کہ کافور کے نام سے عطر حنا کی بات کی گئی ہو۔
لسان العرب اور العجاج (762ء )کے چند اشعار حوالے کے طور پر دئے گئے ہیں جن میں کافور لفظ ملتا ہے۔ ان شعراء کا دور امرئوالقیس کے تقریباً دوسو سال بعد کا ہے جبکہ اسلام کی سائنسی ترقی بالعموم اور طبی ترقی بالخصوص کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی لہٰذا اس وقت ہوسکتا ہے کہ کافور (Camphor) کا علم مفکروں اور عالموں اور شاعروں کو ہوچکا ہو یاپھر اس زمانے کے شعراء نے بھی کافور بہ معنی حنا کے ہی لئے ہوں۔ ویسے بھی عربی اور فارسی شاعری میں خوشبو اور لطافت ورنگینی کے لئے حنا کا ذکر کیاجاتا رہا ہے۔موجودہ علم کے پس منظر میں ایک اورامر قابل توجہ ہے وہ یہ کہ انگریزی زبان کی سبھی اہم لغات انیسویں صدی کے اواخر میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوئی ہیں ان میں Camphor کے معنی جہاںملایا اور چین کے کافور کے دئے ہیں وہاں ایک معنی حنا کے بھی دئے ہیں۔ اسی طرح بائبل سے متعلق جتنی لغات اور تحقیقات کی کتابیں ہیں سب میں کافور (کافیر) کے معنی حناء کے ہی دئے گئے ہیں۔اسی طرح بائبل سے متعلق جتنی لغات اور تحقیقات کی کتابیں ہیں سب میں کافور (کافیر ) کے معنی حنا کے دیے گئے ہیں۔
فرانس سے شائع ہونے والی (1871ء) کتاب
La Botaniqu dela Bibleمیں کافور کو فرانسیسی میں HENNI کہا گیا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے مفسرین قرآن کی نظر سے یوروپین زبانوں کی ڈکشنریاں اوربائبل پر تحقیقاتی کتابیں کیسے رہ گئیں۔ بہر حال راقم سطور کی ناچیز رائے میں سورۃالدہر کی آیت میں بیان شدہ لفظ ’’کافور‘‘ کے معنی حناء(حنا) ہوسکتے ہیں۔ لیکن حتمی طور سے یہ طے کرنا کہ قرآنی کافور موجودہ Camphor ہے یا عطر حنا ان دانشوروں اور مفکروں کاکام ہے جو عربی زبان پر قدرت رکھتے ہیں اور مذہب اسلام اوراس کی تاریخ کے مستند عالم ہیں۔
واضح رہے کہ بعض قرآنی الفاظ کے معنی تومختلف اخذ کئے جاسکتے ہیںاور ایسا کیا بھی گیا ہے لیکن الفاظ کے اختلافی مفہوم سے قرآنِ کریم کے پیغام میں ذرّہ برابر بھی فرق نہیں آتا ہے۔ چنانچہ ’’مِزَاجْھَاکَافورًا‘‘ کامفہوم ٹھنڈک بخشنے والا جام بھی ہوسکتا ہے، صاف وشفاف پانی کا چشمہ بھی کہاجاسکتاہے اورحنا کی خوشبو والا شربت بھی لیکن ان میں سے کوئی بھی مطلب ومعنی اس پیغام میں فرق نہیںلاتا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے جنت میں بہترین مشروبات فراہم کرنے کاوعدہ فرمایا ہے۔
ارشادات رسول بسلسلۂ حنا اورکافور
1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا وآخرت میں خوشیوں کی سردار حنا کی کلی (فاغیہ) ہے۔ (سیدالریاحین فی الدنیاوالآخرۃ الفاغیہ) (راوی، حضرت عبداللہ بن بریدہ، شعب الایمان)
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ خوشبو حنا کی کلی (فاغیہ) تھی۔ (حضرت انس بن مالک، شعب الایمان)
3- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے نزدیک درختوں میںنہایت پیارہ پودہ مہندی (حنا) کاہے۔ (بخاری)
4- جب کبھی نبی کریم کو زخم ہوتا یا کانٹا چبھتا تو آپ اس پر حناکا لیپ فرماتے۔ (راوی، حضرت ام سلمیٰ، ترمذی، مسند احمد)
5- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی نے درد پا کی شکایت کی تو حنا لگانے کی بات کی (کہا)۔ (راوی حضرت ام سلمیٰ، ابودائود)
6- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حنا موجود ہے۔ یہ تمہارے سروں کوپرنورکرتی ہے۔ (حضرت واثلہ، ابن عساکر)
7- رسول اللہ نے ایک خاتون سے فرمایا ’’(پہچان کے لئے) تم کم از کم اپنے ناخن حناء سے رنگ لیتیں‘‘۔ (راوی، حضرت عائشہ،ابودائود)
8- رسول اللہ نے فرمایا ’’یہ (حنا) جوانی کو بڑھاتی ہے اورحسن میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ (راوی حضرت انس بن مالک، ابو نعیم)
9- ناک میں قسط الہندی ڈالنا۔ یہ دریائی ہوتی ہے۔ اسے کست بھی کہتے ہیں۔ جیسے کافوراور قافور۔ (باب۔کتاب الطب، بخاری)
10۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کاانتقال ہوا تو آپ باہر آئے اور فرمایا کہ ’’تین یاپانچ یا اس سے زیادہ بار اسے نہلائو۔پانی اور سدر سے او ر آخر میں کافور (قافور) چھڑکو (لگائو)۔ (راویہ ،حضرت ام عطیہ، کتاب الجنائز، بخاری)
نوٹ۔ واضح ہو کہ ان احادیث میں حنا بنام مہندی کے پتی کے ہیں جو رنگ کا ذریعہ ہوتی ہیں نہ کہ خوشبو کا
ارشادات بائبل بہ سلسلۂ حنا (بائبل-کوفیر-Kopher)
1- کتاب غز الغزلات۔ باب1۔ آیت14۔ ’’میرامحبوب میرے لئے عین جدی کے انگورستان سے مہندی (بائبل- Kopher)کے پھولوں کا گچھا ہے‘‘۔
2 کتاب غز الغزلات-باب4-آیت13۔’تیرے باغ کے پودے لذیذ میوہ دار انار ہیںمہندی (بائبل-Kopher) اور سنبل بھی‘‘۔
حالیہ تحقیقات بسلسلۂ کافور
جب عرب مدائین 637 میں داخل ہوئے تو انہیں بہت سا کافور ملا، جسے انہوں نے نمک سمجھ کر غذا میں استعمال کیا۔تو اس کی کڑواہٹ دریافت کی (طبری، اول، ص 2445، الفخری از ابن تقطقہ)۔اسکے بہت بعد ہی کافور کی طبی خصوسیات اسلامی دور میں دریافت ہوئیں۔ ہندوستان اور ایران میں کافور ایک نایاب، قیمتی شہ تھی جسے ھندوستان کے راجہ ایران کے خسرو بادشاہوں کو تحفہ کے طور پر بھیجتے تھے جواب میںایرانی بادشاہ ہندوستانی راجائوں کو سونے کے زیورات بھیجتے۔ (البیرونی کا تاریخی بیان)عین ممکن ہے کہ کافور یعنیCamphor کا استعمال اسلامی طریقہ غسل میت ساسانی l l (Gusl Mayyetel) طریقہ میت سے متاثر ہوا ہو۔ کافور دراصل ہندوستان کی پیداوار نہیں تھی حالانکہ یہ غلط فہمی اسلامی دور کی پہلی کئی صدیوں تک برقرار رہی۔(انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا)
کافور کے استعمال کا حوالہ دینے والے پہلے عرب جابر بن حیان (پیدائش 722ء ) ’یہ زہر کی کتاب ‘ جہاں اس نے اس کی ممکنہ نقصانات خصوصیات کی فہرست بنائی (کافور کا تاریخی جغرافیہ از آز اے ) تھے جنہوں نے اپنی تصنیف۔Book of Poison”کتاب السم ،میں کافور سمیت مختلف زہریلی اشیا کی ممکنہ نقصان دہ خصوصیات کی فہرست بنائی۔ (کافور کا تاریخی جغرافیہ از ار اے ڈونکن – 1996)
19ویں صدی کے آخر تک بائبل میں کافیرر کو “camphor ر کا ایک جھرمٹ” کہا جاتا رہا۔ پھر “حناکے پھولوں کے جھرمٹ” کے ساتھ ترجمہ ہوا (جان فلپس)
سورہ الانسان میں(76:5) کافو ر کو آسمانی مشروب میں شامل ہونیکی بات کہی گئی ہے۔انگریزی اصطلاح میں کافور سے
ماخوذ – Camphor کا ذائقہ خوفناک ہے۔ غلطی کہاں ہوئی ہے؟ قرآنی عبارت ضرور پڑھی جائے۔آرامی روایات کی روشنی میں، ایک حقیقت کو جرمن ماہرِ فلسفہ کرائسٹ نے بھی واضح کیاہے کہ آرامی لفظ کفرہ (حنا) دنیا کا سب سے عمدہ عطر قراردیا جا تا رہا ہے اس کو بہ معنی کافور کو آسمانی خوشبو کی بات کرنا کتنا صحیح لگتا ہے۔ قرآنی متن اس کی تصدیق کرتا ہے۔(ایڈورڈگیلیزا۔Toulouse کا سمپوزیم، 22 اکتوبر7 (200

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS