پاکستانی صحافی ارشد شریف کا قتل اور میڈیا کی آزادی

0

عبدالعزیز
ارشد شریف پاکستان کے ایک مشہور و معروف صحافی تھے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی ’تحریک انصاف‘ کی پُرزور حمایت کرتے تھے۔ ایک ماہ پہلے عمران خان نے اپنے اس حمایتی کو ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا تھا، اس کو یہ ڈر دکھایا کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے کسی طرح ارشد شریف کو دوبئی بھیجنے میں کامیاب ہوئے۔ دوبئی کی حکومت نے ارشد شریف کے ویزا کی جب توسیع نہیں کی تو وہ کینیا چلے گئے۔ کینیا کی راجدھانی نیروبی کے ایک دور دراز علاقے میں جب وہ ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے تو انھیں نامعلوم افراد نے گولیوں سے مار کر ہلاک کردیا۔
کینیا کی پولس اور وہاں کے اخبارات ارشد شریف کے قتل کے بارے میں مختلف وجوہات بتا رہے ہیں جس سے سچائی کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ پاکستان میں ارشد شریف کے قتل پر ٹی وی اور اخبارات میں کافی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیڈران اس قتل کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں اور ان کا اشارہ ہے کہ ارشد شریف کے قتل میں پاکستان کی وہ طاقت اور قوت ملوث ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کو چند مہینوں پہلے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کے قتل کے واقعے کی تحقیق و تفتیش کے لئے ایک جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کردی ہے اور کینیا کے صدر کو بھی فون کیا ہے کہ وہ بھی ایک جوڈیشیل کمیشن تشکیل دے کر واقعے کی صاف اور شفاف طریقے سے تحقیق کرے تاکہ قتل میں کس کا ہاتھ ہے وہ دنیا کو اور خاص طور پر پاکستانیوں کو معلوم ہوسکے۔ پاکستانی عوام اور خاص طور پر مقتول کے ورثاء بے حدغمزدہ ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں پر جبر و ظلم کے واقعات ہمیشہ ہوتے رہے ہیں۔ سیکڑوں صحافی اپنی سچائی کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔ ارشد شریف کے بارے میں بھی صحافیوں کا ایک بڑا حصہ یہی کہہ رہا ہے کہ وہ ایک سچے صحافی تھے اور تحقیقاتی صحافت کیا کرتے تھے۔ پاکستان کی سیاست اور تاریخ کا جو ان کا تجزیہ ہوتا تھا وہ یکطرفہ ہوتا تھا۔ وہ عمران خان کی سیاست کی جس طرح حمایت کرتے تھے اس میں بھی جارحیت اور بے جا حمایت کا پہلو موجود رہتا تھا۔ عمران خان کے خلاف چند مہینے پہلے نہ صرف پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ہوگئیں بلکہ عمران خان کی پارٹی کے کئی لیڈران بھی عمران خان کے طرز عمل کے مخالف ہوگئے۔ عمران خان کی حکومت میں جو اتحادی پارٹیاں شامل تھیں وہ بھی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ہوگئیں۔ جس دن تحریک عدم اعتماد کے لئے وہاں کی قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہونے والی تھی اسپیکر نے ملک کی سپریم کورٹ کے متعین وقت پر جب ووٹنگ نہیں کرائی تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی۔ ووٹنگ ہوئی اور عمران کی حکومت ہارگئی۔ حکومت کے ختم ہونے سے پہلے اور بعد میں عمران خان نے اپنی حکومت کے گرانے میں امریکی سازش کا پروپیگنڈہ شروع کیا۔ پاکستانی عوام میں امریکہ کی کافی مخالفت پائی جاتی ہے لیکن ہر حکومت کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی حکومت ایسی نہیں ہوتی جو امریکہ کے سہارے کے بغیر چل سکتی ہو۔ عمران خان کو انتخاب میں وہاں کی فوج کی مدد سے کامیابی ہوئی تھی۔ اس لئے اپوزیشن کی جماعتیں عمران کی حکومت کو الیکٹیڈ (Elected) کے بجائے سلیکٹیڈ (Selected) کہا کرتی تھی۔ اب عمران خان موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور اسے امپورٹیڈ حکومت کا لقب دے رہے ہیں۔ صحافی ارشد شریف عمران کی دل و جان سے حمایت کرتے تھے۔ پاکستان میں جو لوگ غیر جانبدارانہ سیاست یا صحافت کر رہے ہیں ان کا ایک سوال نہیں کئی سوال عمران خان سے کر رہے ہیں کہ پاکستان کی عمران خان کی تین صوبوں میں حکومت ہے، اس کے باوجود انھوں نے ارشد شریف کو سیکوریٹی فراہم کرنے کے بجائے کیوں باہر بھیجنے پر مجبور کیا؟ دوسرا سوال یہ کر رہے ہیں کہ اس قتل سے کس کو فائدہ پہنچا اور کون فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے؟ اس طرح کے سوالات کرنے والوں میں پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کے کچھ لیڈران بھی شامل ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی جس کی حمایت ارشد شریف کر رہے تھے اس کے کئی لیڈران یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ آج کل میں ارشد شریف کے قاتلوں کا نام بتا دیں گے۔ کچھ اس میں ایسے بھی ہیں جو حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ ان سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ قاتل کون ہے؟ جبکہ وہ قاتلوں کے نام جانتے ہیں۔ جو صحافی یا اینکر وہاں کے وزیر داخلہ ثناء اللہ سے سوال کر رہے ہیں کہ ارشد شریف کو حکومت تحفظ دینے سے کیوں قاصر رہی؟ وزیر داخلہ کا جواب ہے کہ ارشد شریف نے حکومت سے کبھی بھی نہ تحفظ کا مطالبہ کیا اور نہ درخواست دی۔ وزیر داخلہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت معلوم کرنا چاہتی ہے کہ عمران خان نے کیوں ارشد شریف کو موت کا ڈر دکھاکر ملک بدر کیا۔ اور وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے ارشد شریف کو دوبئی سے کینیا جانے پر مجبور کیا۔ پاکستان میں بدنظمی، بد امنی حد سے زیادہ ہے۔ عمران خان کی حکومت چار پونے چار سال رہی بدامنی اور نظمی میں کمی نہیں آئی۔ بے روزگاری اور مہنگائی بھی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ جب لوگ بیحد پریشان تھے اسی وقت عمران خان کی حکومت گرائی گئی۔ اس سے عمران کونقصان ہونے کے بجائے غیر معمولی فائدہ ہوا۔ عمران خان اپنے بیانیہ سے پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہوگئے۔ موجودہ حکومت میں جو پارٹیاں شامل ہیں ان میں سے اکثر بدنا م زمانہ ہیں۔ ان کے لیڈران بدعنوانی کے لئے مشہور ہیں۔ عمران خان نے اس کا بھی بہت بڑا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ کبھی بھی وہاں صاف اور شفاف انتخاب نہیں ہوا۔ دوسری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار وہاں کی فوج نے اپنے ہی ملک پر قبضہ کیا۔ مارشل لاء نافذ کیا اور انسانی حقوق سلب کیا جس کی وجہ سے بھی پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوسکیں۔ پاکستانی عوام کو وہ لیڈران جو فریب اور جھوٹ سے کام لیتے ہیں ان کو بہت آسانی سے اپنی پارٹی کا ہمنوا بنالیتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں جب تک انتخابات صاف ستھرے نہیں ہوں گے نہ اچھی حکومت وجود میں آئے گی اور نہ اچھے حکمراں ہوں گے۔ بر صغیر ہندو پاک میں آج بھی میڈیا کو جس طرح آزاد ہونا چاہئے آزاد نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں میڈیا کے بہت بڑے حصے کو ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں گودی میڈیا ضرور ہے مگر ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو حکومت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال سوال نہیں کرتے۔ وہاں کی میڈیا سے حکومت پریشان رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں پاکستانی حکومتیں وہاں کے صحافیوں پر جبر و ظلم کرتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS