قرآن سوزی اور زلزلے: اہل مغرب کی عصبیت بے نقاب

0

شاہنواز احمد صدیقی

پچھلے دنوںدوسانحات رونماہوئے، ایک سویڈن ونیدرلینڈ میں قرآن سوزی کی شرم ناک حرکت دوسرا سانحہ ترکیہ اورشام و اردگرد کے علاقوں کا زلزلہ —اس قدرتی آفت میں مرنے والوں کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ان دونوں سانحات کو فرقہ وارانہ اورنسل پرستانہ نقطہ نظر سے دیکھاگیا۔ سویڈن اوراس کے ہم نوا ممالک جو ناٹو میں شمولیت کے خواہش مند ہیں، ترکیہ سے ناراض ہیں۔فن لینڈ اورسویڈن دہشت گردی میں ملوث افراد کو ترکیہ کے حوالے کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور یہی دونوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ ہے۔ترکیہ کا کہناہے کہ یہ دونوں ممالک اس کی سرزمین پر دہشت گردانہ واقعات میں ملوث افراد کو پناہ دے رہے ہیں۔یہ دونوں ممالک اورامریکہ بھی کردوں کو زیادہ اختیارات دینے کے حق میں ہیں اور امریکہ اوراس کے دیگر ہم نوا ممالک مغربی ایشیا میں کردوں کو ایک آزاد مملکت کے قیام کے حامی ہیں اوراس پورے خطے میں مغرب اورامریکہ کردوں کو ہرقسم کی مددفراہم کررہاہے۔ ترکیہ کا کہناہے کہ کردباغی مغربی طاقتوں کا آلہ کار بن گئے ہیں۔ترکیہ اپنی سرزمین پرتخریبی اور تختہ پلٹنے کی کوششوں کے لیے امریکہ پر براہ راست الزام تراشی کرتارہاہے۔ بہرکیف ترکیہ کے علاوہ فن لینڈاورسویڈن کی مخالفت کرنے والا اکیلاناٹو ممبرنہیں ہے۔ ہنگری بھی ان دونوں ممالک کی 30ممالک پرمشتمل فوجی اتحاد ناٹو میں شمولیت کی مخالفت کررہاہے۔ ہنگری کے حکمراں روس کی صدر ویلادیمیر پوتن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بیلاروس کی طرح یوروپین یونین اور ناٹو میں روس کے تئیں قدرے نرم پالیسی رکھتے ہیں۔ بیلاروس تو کھلم کھلا روس کی مدد کرہاہے اور روس وہاں اپنی دفاعی موبائل تنصیبات نصب کرنے سے بھی تامل نہیں کررہاہے۔ مگرسارا غبار ترکیہ پراتارا جارہا ہے اورنہ صرف ترکیہ بلکہ اس بہانے اسلام، قرآن اوراسلامی تعلیمات کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ترکیہ کے ارباب اقتدار نے اس بابت سخت موقف اختیار کیا ہے۔ سویڈن نے کہاہے کہ وہ اظہارخیال کی آزادی کا حامی ہے اور اس کے خلاف مظاہروں پرپابندی عائد نہیں کرسکتاہے، یعنی وہ قرآن کی بے حرمتی اورقرآن سوزی کو اظہارخیال کی آزادی کا حصہ قراردیتاہے۔مسلمانوں کے ایشوز کے تئیں اہل مغرب کے قول وعمل میں زبردست تضاد ہے۔ ایک طرف یوروپ میں Anti-semiticقوانین پر سختی سے عمل کیاجاتاہے اور اسرائیلی حکومت کی بربریت آمیز کارروائیوں پرنکتہ چینی کو Anti-semiticقرار دیاجاتا ہے۔تودوسری طرف مسلم اور اسلام جو کہ دوسرسے مذاہب کی شخصیات پراعتراض اورتوہین آمیز کلمات کی ادائیگی کے حق میں نہیں ہیں اوربہت کم لوگ اس طرح کی قابل اعتراض روش اختیارکرتے ہیں اور جو بھی ایسا کرتے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔
اسلام کی واضح تعلیمات میں قرآن پاک میں صاف صاف اور صراحت کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے افراد کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال نہ کریں۔ مگرہمارے مہذب سمجھے جانے والے طبقات اورممالک نے اظہارخیال کی آزادی کے نام پرجو قابل اعتراض خلاف قانون وطیرہ اختیارکیاہے، وہ ان کے قول وعمل ان کے سنگین تضادات کو طشت ازبام کرنے والا ہے۔ اسی طرح ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ زلزلہ میں ڈنمارک کی بدنام زمانہ میگزین ’چارلی ہیبدو‘ جس نے پیغمبراسلام رحمۃ للعالمینؐ کی انتہائی قابل اعتراض کارٹون شائع کیے تھے، جس پر فرانس میں پرتشدد اوردہشت گردانہ واقعات ہوئے، ان دہشت گردانہ واقعات کو کسی طورپر درست قرار نہیں دیاجاسکتا اور پرتشدد واقعات اتنے ہی قابل مذمت ہیں جتنے پیغمبرؐاسلام کے خلاف توہین آمیز کارٹون، چندروز قبل اسی ’چارلی ہیبدو‘ میں ترکیہ کے زلزلے میں اتنے بڑے پیمانے پر جانی ومالی اتلاف پراظہار خیال کی آزادی کے بنیادی حق کا استعمال کرتے ہوئے ایک بیان میں کہاگیا کہ اس سطح کی تباہی کے لیے ٹینکوں کی ضرورت نہیں ہے۔یعنی کارٹونسٹ کہناچاہ رہاہے کہ ترکی میںتباہی کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت نہیں، زلزلے نے وہ تباہی مچائی ہے۔ اس وقت جب کہ پوری دنیا ان ممالک کو ہرطرح کی انسانی امداد بھیجنے کے لیے تیار ہے اور دنیا بھر کے ماہرین ادارے اوررضاکاراپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، ایسے وقت میں چارلی ہیبدو کا یہ قابل اعتراض کارٹون اظہارخیال کی آزادی کے موقف کے کھوکھلے پن پرتوجہ دلانے والاہے۔n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS