یروشلم پر مسلمانوں کی دعویداری اور صہیونیت

0

عالم اسلام اپنے انتہائی مقدس اور مذہبی اہمیت کے حامل یروشلم میں اسرائیل کی نئی نسل پرست حکومت فلسطینیوں کوپریشان کرنے کے لیے نت نئے طریقہ استعمال کررہی ہے۔ کسی بھی پہراسرائیلی افسران اور اہلکار ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاکران کے سپرد پروانہ کرتے ہیں اورچند دنوں میں وہ بے سروسامانی کی صورت میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ملتے ہیں ۔ یروشلم کی تین منزلہ عمارت میں ایساہی ہوا، پورا خاندان جو کہ تقریباً ایک درجن نفوس پرمشتمل تھا، گھڑی کی چوتھائی میں اس کا قدیمی طرز کا مکان زمین بوس ہوگیا۔ قومی سیکورٹی کے وزیر ایتمار گوئرنے 29جنوری کو ایک فلسطینی کے ذریعہ اسرائیلیوںکی ہلاکتوں کی واردات کے بعد نہ صرف اس کے خاندان کے گھر کو مسمار کردیا بلکہ ایسے اقدامات کا اعلان کیا جو کہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ ایک شخص کے گناہوں کی سزا پورے خاندان کو دینا اور بغیرکسی قانون پرعمل آوری کے جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے یروشلم اورقرب وجوار کے گھروں کو مسمار کیا جارہاہے اور بلڈوزر ان قدیمی مکانات کو ایک آن میںیہ کہتے ہوئے زمین دوز کردیتے ہیں کہ یہ غیرقانونی طورسے بنے ہوئے ہیں جبکہ ان مکانات کی عمر ’ریاست اسرائیل‘ سے زیادہ ہے۔
1967کی جنگ میں قبضہ کرنے کے بعد اس تاریخی شہر کو اسرائیل اپنے آزاد اورخودمختار ملک کی راجدھانی بنانا چاہتا ہے۔ مشرقی یروشلم کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے،حال ہی میں اسرائیل 39مکانات منہدم کرچکا ہے اس انہدامی کارروائی کا شکار نہ صرف رہائشی علاقے ہو رہے ہیں بلکہ تجارتی ادارے اوردکانیں بھی ہورہی ہیں۔ مشرقی یروشلم میں مکانوں کی تعمیر اور مرمت کی اجازت لینا انتہائی مشکل کام ہے۔
خوداقوام متحدہ کا کہناہے کہ تعمیر کی اجازت لینا ناممکن کام ہے۔ میونسپل ادارے مشکل سے مکان بنانے کے لیے فلسطینیوں کو زمین دیتے ہیں جبکہ یہودیوں کودور دراز ممالک سے لالاکر بسایاجارہاہے۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنی زمین اور اپنی مملکت میں 1967سے ہی ملایاتھا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی نظرمیںمیں یہ غیرقانونی حرکت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگران مکانات کے رہنے والے اپنے گھروں کو خود منہدم نہیں کرتے ہیں تواسرائیل حکام منہدم کرکے اس انہدامی کارروائی کا ہرجانہ اخراجات اورمحنتانہ وصول کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 1967سے اب تک اسرائیل نے اس تاریخی شہر میں 58000گھروں کو تعمیر کیا ہے جبکہ صرف 600فلسطینیوں کو گھر بنانے کی اجازت ملی ہے۔ ستم یہ ہے کہ یروشلم کو ہرابھرابنانے کے لیے فلسطینیوں کے مکانات اداروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے اوران کی زمین کے مکان گراکران پر پودے لگاکر سرسبزوشاداب بنانے کا منصوبہ ہے۔ گرین بیلٹ کے لیے فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرنے کا نوٹس جاری کیا جارہاہے۔
خیال رہے کہ یروشلم میں رہنے والے فلسطینیوں جن کی تعداد لگاتار کم ہوتی جارہی ہے، مغربی کنارے میں رہنے والوں سے زیادہ مراعات حاصل ہیں وہ اسرائیل کے دیگر علاقوں میں آزادی کے ساتھ آمد ورفت کرسکتے ہیں مگر اہل یروشلم مکمل طورپر اسرائیلی حکام کے رحم وکرم پر ہیں۔ اگر وہ میونسپل قوانین کی زد میں آجاتے ہیں تو ان کے لیے یہاں قیام ناممکن ہے۔ دراصل میونسپل قوانین کا سارا زور شہر سے فلسطینیوں کی تعداد کو کم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں اس شہر کو اسرائیل کی ایک قانونی اور عالمی برادری کے ذریعہ’ منظور‘کرانے میں مشکلات کا سامنا نہ کرناپڑے۔ اگرچہ فلسطینیوں کے حق میں کام کرنے والے رضاکار اداروں کا کہناہے کہ یروشلم میں فلسطینیوں کی آبادی، بازآبادکاری یا قیام کے پرمٹ کے بارے میں کوئی ٹھوس اعدادوشمار نہیں ہیں اور اس بابت سرکاری طورپر کوئی مصدقہ اطلاع یاڈاٹا فراہم نہیں کیاجاتاہے۔ 2019میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو مکانات تعمیر کرنے کے لیے دی گئیں21000درخواستیں رد کردی ہیں۔ اس پالیسی کی وجہ سے آج یروشلم میں فلسطینیوں کی آبادی90سے گھٹ کر صرف40فیصد رہ گئی ہے۔ یروشلم کے ڈپٹی میئر ایری کنگ کا کہناہے کہ انہدام کے ذریعہ فلسطینی آبادی کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے اوراس علاقے پر ہمارا اقتداراعلیٰ ہے ان علاقوں پرہم اپنی ہی حکمت عملی اپنائیں گے۔n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS