پوتن کا ہندوستان دورہ

0

بین الاقوامی منظرنامہ میں ہر لمحہ ہوتی تبدیلیوں کے باوجود ہندوستان اور روس کے رشتوں میں کوئی کمی یا تلخی نہیں آئی ہے۔اس کے برخلاف دونوں ملکوں کے مابین رشتوں میں استحکام ہی آتا رہا ہے۔اس کی تازہ مثال روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دورۂ ہندوستان ہے۔پوتن نے کووڈ19- وباکے دوران روس سے باہر زیادہ سفر نہیں کیا ہے۔گزشتہ سال کووڈ19-کی وجہ سے روسی صدر کا ہندوستان دورہ ٹل گیاتھا لیکن اس سال پوتن کا یہ دورہ ہندوستان کیلئے سب سے زیادہ اہم ترین ہوگیا ہے اور انہوں نے دہلی کا یہ دورہ بھی ایسے وقت میں کیا ہے جب ان کے ملک میں وبائی بیماری ابھی تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے قبل وہ صرف امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ سربراہی ملاقات کیلئے جنیوا گئے تھے۔رواں سال2021میں روس سے باہر یہ ان کا دوسرا دورہ ہے۔پرانی دوستی کو بدلتے نئے بین الاقوامی منظر نامہ میں ایک نیارنگ اور وسیع شکل دینے کی امیدوں کے درمیان صدر ولادیمیر پوتن کاہندوستان دورہ ہوا۔اس دورہ میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور روس کے صدرولادیمیرپوتن نے ہندوستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی صورتحال اورمزید بہتر امکانات کا جائزہ لیابلکہ دونوں ملکوں کے درمیان حکمت عملی اورشراکت داری کو مستحکم بنانے کے طریقوں پر بھی غور و خوض ہوا۔
روسی صدر کا ہندوستان دورہ بھلے ہی چند گھنٹوں کیلئے تھا لیکن اس پر پوری دنیا کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں اور جیسا کہ خیال کیاجارہاتھا اس مختصر دورہ میں ہی دونوں ملکوں کے درمیان دفاع کے شعبہ میں کئی غیر معمولی معاہدے ہوئے۔ جن میں دفاع کے شعبہ میں آپسی تعاون اور شراکت داری کو مضبوط بنانے کیلئے 4 معاہدوںسمیت ہندوستانی فوج کیلئے 6لاکھ اے کے 203 اسالٹ رائفلوں کی خریداری کا سودا بھی شامل ہے۔اس معاہدہ سے ہندوستان اور روس کے درمیان 7 دہائیوں سے چلے آرہے اعتماد اور دوستی کے رشتہ کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے۔پیر کو ہونے والے اس معاہدہ سے کچھ دنوں پہلے ہی مرکزی حکومت نے دفاعی پیداوار میں ہندوستان کو خود کفیل بنانے اور خود انحصاری کو بڑھاوا دینے کیلئے ہند-روس مشترکہ دفاعی کارخانہ میں اے کے 203رائفلوں کی پیداوار کی منظوری دی تھی۔
ہندوستان نے طویل مدتی دفاعی ضروریات کیلئے اکتوبر 2019 میں ہندوستان- روس سربراہی کانفرنس میں سطح سے ہوا میں مارکرنے والے میزائل سسٹم کی خریداری کیلئے بھی روس کے ساتھ5.43ارب امریکی ڈالر کے معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔جس کے بعد سے ہی ہندوستان پر امریکہ کی پابندیوں کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان نے روس کے ساتھ معاہدہ کرکے یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک وسیع نکتہ نظر رکھتا ہے۔ و ہ کسی خیمہ تک محدود نہ رہ کر ایک کھلے نظریہ کے ساتھ دنیاسے رشتہ قائم رکھتا ہے۔تازہ معاہدہ بھی ہندوستان کی اسی آزاد خارجہ پالیسی کا اظہار ہے۔ روس کے ساتھ ہندوستان کا دفاعی معاہدہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ہندوستان اور چین کے مابین رشتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخی اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ سال لداخ میں ہند-چین سرحد پر ہوئی فوجی جھڑپ کے بعد سے ہی دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجی طاقت پر زیادہ توجہ دینی شروع کردی ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کیلئے روس سے ایس400-میزال ڈیفنس سسٹم لینا ضروری بن گیاہے۔پوتن- مودی ملاقات کے بعد اب اس میزائل کی سپلائی بھی ہندوستان کو اسی مہینہ سے شروع ہونے والی ہے۔
ہندوستان یوں تو فرانس اور اسرائیل سمیت کئی دوسرے ملکوں سے بھی دفاعی ضروریات کے سامان اور جنگی آلات خریدتا ہے لیکن روس اور ہندوستان کے مابین دفاعی سودا ملکی ضروریات کے لحاظ سے زیادہ اہم ہے۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی کل برآمدات میں رو س کا حصہ 65فیصد ہے جب کہ امریکہ 15 فیصد پر اور اسرائیل 11 فیصد تک محدود ہے۔گزشتہ پانچ برسوں میں ہندوستان اور روس کے مابین کئی اہم دفاعی معاہدے ہوئے جن میں روس سے ملنے والے ایس400-میزائل ہندوستان کی دفاع کیلئے انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ میزائل سسٹم چین کی جارحیت کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک پاکستان اور افغانستان سے ہورہی ہندوستان میں دہشت گردی سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور روس اس سے اچھی طرح واقف بھی ہے کہ ہندوستان کو اپنے پڑوسیوں کی وجہ سے دہائیوں سے دہشت گردی جھیلنی پڑرہی ہے، ایسے میں ہندوستان کو روس سے ہر طرح کی حمایت ملنا دونوں ملکوں کے رشتہ کو مزید مستحکم کرے گا۔ دیکھاجائے تو روس کے صدر کا یہ دورہ چھوٹا ضرور رہا لیکن کئی معنوں میں اہم ترین رہا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS