وزیراعظم مودی اور متوسط طبقہ

0

اس میں دو رائے نہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی 10 سالہ دور حکمرانی میں سیاست اور حکومت کے معروف معنی بدل ڈالے ہیں۔ اس بدلی ہوئی سیاست کا منظر نامہ پورے ہندوستان میں جابجا نظرآرہا ہے، کہیں فرقہ پرستی کی بنیاد پر سیاست ہورہی ہے تو کہیں سیاست کا ہالہ دولت کے گر د قائم ہے۔حمایت خریدے، بیچے جانے اور بلیک میلنگ کے ذریعہ حاصل کرنے کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ ’کم ازکم حکمرانی اور زیادہ سے زیادہ حکومت‘ کے نام پر کی جارہی حکمرانی کا تیور اور انداز بھی مسلمہ اصول اور فرائض حکمرانی سے کوئی لگّا نہیں کھارہا ہے۔ ہر کسی کی کامیابی کو اپنے نام کرنے اور اپنے ہی سر پر سہرا سجانے کی روایت، ناکامیوں کا ملبہ حزب اختلاف کے سر، ذمہ داریوں سے فرار، بدحا ل معیشت، روزگار اورمہنگائی کاسبب عالمی صورتحال کو قرار دینا تو معمول ہے ہی اب ببانگ دہل یہ اعلان بھی کیاجارہاہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ایسے انتظامات کیے جائیں گے کہ ہندوستانیوں خاص کر متوسط طبقہ کی زندگیوں میں حکومت کا کردار کم ہو جائے گا۔ یعنی متوسط طبقہ کو مطلوب معاش، روزگار، صحت، تعلیم وغیرہ جیسے بنیادی شعبوں میں خود ہی کنواں کھودنا اور پانی نکالنا ہوگا۔ نہ روزگار ملے گا نہ صحت کیلئے حکومت اسپتال بنائے گی اور نہ تعلیم کیلئے اسکول کی ذمہ داری اپنے سر لے گی۔ متوسط طبقہ کوا ن سبھی کیلئے حکومت کی طرف دیکھنا قابل مواخذہ ہوگا۔
یہ اعلان کسی اور نے نہیں بلکہ وزیراعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ وزیراعظم کاکہنا ہے کہ متوسط طبقہ اپنے کام خود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ حکومت گڑ کو گوبر میں بدلنے کی ماہرہے، اس کیلئے یہ کام حکومت کوبالکل نہیں کرنا چاہیے۔ وہ لوگوں کی زندگیوں سے حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں۔خاص طور پر متوسط طبقے کے خاندانوں کی زندگیوں میں حکومت کی مداخلت نہیں ہوگی۔ جب کہ حکومت غریبوں کی مدد کرے گی۔ہر قدم پر ہر روز حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہمیں ایسا معاشرہ بنانا چاہیے جہاں حکومتی مداخلت کم سے کم ہو۔ ہاں غریبوں کی مدد کی جائے گی اگر غریب پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پڑھایا جائے۔ اگر اسے اسپتال کی ضرورت ہے تو اسے دیا جائے۔ جمہوریت میں حکومت پر عوام کے تئیں عائد فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کو ’ٹانگ اڑانے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس کے خلاف دس برسوں سے لڑرہے ہیں اور آنے والے پانچ برسوں میں تو یہ لڑائی اور تیز ہوگی۔
2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم نریندر مودی ’کم ازکم حکمرانی اور زیادہ سے زیادہ حکومت‘ کے نعرے لگاتے آرہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل نجکاری پر ہونے والی تنقید کا یہ کہہ کر بھی جواب دیا تھا کہ حکومت کا کام کارخانے چلانا اور کاروبار کرنا نہیں ہے۔ لیکن 2024کے عام انتخاب سے عین پہلے اس خوش نمانعرے کی آڑ میں متوسط طبقہ کے سلسلے میں عائد ذمہ داریوں کے تعلق سے حکومت کا رویہ وزیراعظم نے واضح کردیا ہے۔ وزیراعظم کی وضاحت کے بعدیہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ملک میں متوسط طبقہ کا کردار ووٹ دینے اور حکومت کو یکطرفہ طور پر ٹیکس دینے والا رہے گا۔ قوم و ملک کی تعمیر کے نام پر حکومت ان سے انکم ٹیکس، جی ایس ٹی اور ہزاروں طرح کی مختلف فیس اور سیس وصولے گی لیکن انہیں بدلے میں حکومت کی جانب سے کچھ نہیں ملے گا۔
ہندوستان کی مجموعی آبادی میں متوسط طبقہ کا تناسب 55فیصد ہے اورملک کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)میں اس طبقہ کی شراکت60 فیصد ہے۔ملکی معیشت کا قابل لحاظ حصہ متوسط طبقہ کے گرد گھومتا ہے۔زراعت، بینکنگ، انشورنس، ٹرانسپورٹ، سیاحت، تعمیرات جیسی صنعتوں میں اس طبقہ کا فعال کردار ہے اور اسی کے تعاون سے معیشت کا پہیہ گردش کرتا ہے۔ملازمت پیشہ، چھوٹے تاجر وغیرہ متوسط طبقہ میں شامل ہیں جو اپنی کمائی کا خطیر حصہ بطور ٹیکس حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک متوسط ہندوستانی اپنی کل آمدنی کا 54.20 فیصد حصہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت کو بطور ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ٹیکس کی رقم چین اور امریکہ میں عوام سے وصولی جانے والی ٹیکس کی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔امریکہ اور چین میں ٹیکس دینے والے تمام شہریوں کیلئے سبسڈی والی تعلیم، صحت کی مفت دیکھ بھال کا معیاری انتظام ہے جس کا ہندوستان میں ٹیکس دینے والے عوام تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
روزگار اور مہنگائی کاذکر بھی ممنوع ہی ٹھہر چکا ہے،تعلیم اور صحت جو کسی جمہوری ریاست کی اولین ترجیح ہوتے ہیں، وہ بھی بی جے پی کی حکمرانی میں بری طرح نظر انداز کیے جارہے ہیں۔صحت اور تعلیم کا بجٹ ہر سال کم ہورہا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں تعلیم پر خرچ کرنے کا ہدف جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد رکھا گیاتھا۔لیکن گزشتہ تین برسوں میں اس پر کئی بار نظر ثانی کی گئی اور مختص مجموعی رقم گزشتہ برسوں کے مقابلہ ہر برس 7 فیصد کم ہوتی رہی ہے۔ان دونوں شعبوں کو مکمل طور پر تجارتی بناکر سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اب متوسط طبقہ کی زندگیوں سے حکومتی مداخلت کم کرنے کے نام پر جمہوری ریاست کے تمام دیگر فلاحی تصورات کو بھی ختم کیے جانے کا منصوبہ ہے اوراس کا پہلا شکار ملک کا متوسط طبقہ ہونے والا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS