ایسی سیاسی تصویر بدلے تو کیسے: اودھیش کمار

0

اودھیش کمار

انتخابات ایسا موقع ہوتا ہے جب سیاست کے تمام منفی کردار ہمارے سامنے نمایاں طور پر ابھرتے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے پارٹیوں اور لیڈروں کے رویے اور بیانات پر عام لوگ اب حیرت کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ میڈیا اور سیاسی تجزیہ کار لیڈروں کے پالا بدل، کل تک کے سیاسی مخالفین کے ساتھ انتخابی اتحاد پر چاہے جتنے سوالات اٹھائیں یا اس کا کسی بھی نقطہ نظر سے تجزیہ کریں، اس سے زمینی سطح پر ٹھوس معیاری فرق آئے گا ایسا نہیں لگتا۔ایسا لگتا ہے کہ برسوں سے ہندوستان میں سیاسی اصلاحات یعنی سیاسی جماعتوں کے اندر نظریاتی، طرز عمل اور شخصیت کی تبدیلیوں کے حوالے سے جو بھی آواز اٹھائی گئی، اس کا انتہائی کم اثر ہوا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی طرف سے دہلی، ہریانہ اور گجرات میں کانگریس کے ساتھ اتحاد پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ آخر دہلی کے وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال جس پارٹی اور خاندان پر بدعنوانی کا الزام لگاکر اقتدار میں آئے اور ان کو سزا دلوانے کا وعدہ کرتے رہے، اس کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں تو اس سیاست پر سوال اٹھے گا۔ لیکن کیا اس کا اثر بھی ہوسکتا ہے؟ یا پھر اروند کجریوال یا عام آدمی پارٹی ایسا کرنے کے معاملہ میں ہندوستانی سیاست میں واحد مثال ہے؟
درحقیقت سیاست کا جب واحد مقصد کسی بھی طریقے سے اقتدار تک پہنچنا یا رہنا ہوجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ آئی این ڈی آئی اے کے تصور سے پہلے تک عام آدمی پارٹی کا علانیہ موقف یہ تھا کہ اس کا کسی بھی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ اتحاد کی سیاست پر تنقید کرتی تھی۔ انا ہزارے کی مہم کے دوران ہونے والی باتوں کو تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے کیوں کہ اسے کتنی بار یاد دلائیں گے، لیکن حال تک کے اپنے سیاسی-اسٹرٹیجک اسٹینڈ سے بھی پارٹی بدل جائے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔ جس شراب گھپلے اور ای ڈی کارروائی کی دہلی کی کانگریس پارٹی حمایت کررہی تھی وہ اچانک نہ صرف اس پر خاموش ہوگئی ہے بلکہ کئی ٹی وی ڈیبیٹ میں کارروائیوں کے لیے حکومت کی تنقید کرتی ہے۔ یہی حال بی جے پی اور این ڈی اے اپوزیشن پارٹیوں کا مغربی بنگال کے سندیش کھالی جیسے گھناؤنے اور بھیانک جرم کے معاملہ میں بھی ہے۔ اپوزیشن کی کسی پارٹی کے اہم لیڈر نے سندیش کھالی کے حوالہ سے ترنمول کانگریس، ممتابنرجی یا وہاں کی پولیس انتظامیہ کی تنقید نہیں کی۔ راہل گاندھی، اروند کجریوال، تیجسوی یادو، لالو یادو، راشٹریہ جنتا دل، شردپوار، این سی پی ادھوٹھاکرے وغیرہ کا ایک ٹوئٹ ہم نے نہیں دیکھا۔ مغربی بنگال میں جس طرح کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ منی پاور اور طاقت کا اثر بنگال میں کم ہونے کے بجائے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ جس طرح گرفتاری کے بعد سندیش کھالی کا اہم ملزم شیخ شاہجہاں چل رہا تھا، محسوس ہورہا تھا جیسے پولیس کسی وی آئی پی کو تحفظ دے کر لے جارہی ہو۔ 55دنوں بعد اس کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ جرائم، پیسے کی طاقت اور یک طرفہ مذموم فرقہ وارانہ طاقت کا گٹھ جوڑ مغربی بنگال کی سیاست کا مستقل کردار بن گیا ہو۔ 80کی دہائی سے ہندوستانی سیاست کا یہ سب سے بڑا ایشو رہا۔ مسلسل سیاسی اصلاحات کا مطالبہ اٹھتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آہستہ آہستہ جرائم، طاقت، پیسے کی طاقت اور ووٹ کے لیے فرقہ وارانہ جرائم کو نظر انداز کرنے کا سیاست سے خاتمہ ہورہا ہے۔ ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس بایاں محاذ کے دور حکومت میں مجرموں، مافیا اور فرقہ پرست عناصر کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرکے اقتدار میں آئی، لیکن ان کی حکمرانی اس سے بھی زیادہ ان تمام برائیوں کی سب سے بھیانک مثال بن گئی ہے۔
طاقت اور پیسے کی طاقت کے ساتھ واضح طور پر نظر آنے والا رشتہ اور بے اصول، بے مثال تبدیلیاں کئی ریاستوں میں سامنے آرہی ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاسی اور اقتداری کرپشن اینٹی کرپشن پارٹیز کا سب سے بڑا ایشو ہوتا تھا۔ یہ صورت حال مکمل طور پر پلٹ چکی ہے۔ آج کرپشن کے الزام کے خلاف سیاستدانوں اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے خلاف کارروائی اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا ایشو بن گیا ہے۔ اس صورتحال کا پہلے تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ پہلے منیش سسودیا، پھر سنجے سنگھ اور ہیمنت سورین اور ایسے چھوٹے بڑے لیڈروں کو جیل جانا پڑا، عدالت انہیں ضمانت بھی نہیں دے رہی ہے، لیکن اپوزیشن کی سیاست کا لہجہ ایسا ہے جیسے یہ سب لوگ صاف ستھرے ہوں۔ عدالت جب تک کسی کو سزا نہیں دیتی ہم انہیں قصوروار نہیں مانتے لیکن بغیر کسی بنیاد کے اتنی سخت کارروائی نہیں ہوتی اور ہوتی ہے تو پرامن طریقے سے عدالتی عمل کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ سچ کہوں تو ایک بیماری کے علاج کی جگہ اس سے بڑی بیماری نے ہماری سیاست کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔ یہ سیاسی اصلاحات کی مخالف سمت ہے۔ آنے والے وقت میں سیاست اور ٹاپ کرپشن کے خلاف کارروائی کتنی مشکل ہوگی، اس کا اندازہ آج کے حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک لیڈر کے خلاف کارروائی ہوئی نہیں کہ وکلا کی فوج انہیں بچانے کے لیے سپریم کورٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ بڑے بڑے لوگ حمایت میں کھڑے ہوئے جارہے ہیں۔ یہ سیاست کا ایسارجحان ہے جس کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی اصلاحات اس مرحلہ میں پہنچ جائے جہاں صرف ملک اور معاشرہ کی فکر کرنے والے باشعور، سمجھدار اور پرعزم افراد ہی انتخابی سیاست میں رہے۔ ایسی صورت حال سامنے نظر نہیں آرہی۔
سنگھ اور بی جے پی کی مخالفت سیاست میں ایک بڑا طبقہ پہلے بھی کرتا تھا۔ اس وقت یہ مخالفت نفرت کے اس مرحلہ میں پہنچ گئی ہے جہاں لگتا ہے کہ پارٹیوں اور لیڈروں کی سمجھداری اور بے راہ روی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ اس میں کوئی کتنا بھی بدعنوان ہو، طاقتور ہو یا فرقہ پرست ہو، اگر نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کے خلاف ہے تو وہ اپوزیشن کے بڑے گروپ کے لیے آسانی سے قابل قبول ہے۔ یہ اس وقت ہندوستانی سیاست کا سب سے بڑا اور پیچیدہ چیلنج ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال نے پارٹیوں کو اپنے طویل المدتی مستقبل کی فکر سے بھی الگ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر کانگریس کے عملی لیڈروں کو احساس ہے کہ دہلی، ہریانہ اور گجرات جیسی ریاستوں میں اگر عام آدمی پارٹی آگے بڑھی تو سب سے زیادہ نقصان ان ہی کا ہوگا۔اس کے باوجود وہ اتحاد کے لیے تیار ہیں تو کیوں؟ یہی صورتحال دوسری پارٹیوں کے ساتھ بھی ہے۔ کئی پارٹی بدلنے والوں کے لیے بی جے پی نے بھی اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ نتیش کمار جیسا غیر اصولی اور غیر مستحکم شخص جب چاہتا ہے بی جے پی چھوڑ دیتا ہے اور پھر واپس آجاتا ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ بھی رہتے ہیں۔ بی جے پی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس وقت اتنی مضبوط پوزیشن میں ہے جب وہ اصولوں اور ملزم لیڈروں سے اپنے آپ کو کافی حد تک بچا سکتی ہے۔ اس سے اس کی انتخابی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم جب تک کوئی لیڈر اپوزیشن گروپ میں ہوتا ہے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی۔ جیسے ہی وہ بی جے پی کے ساتھ آتا ہے، مخالفین شور مچانے لگتے ہیں کہ دیکھو دیکھو جس پر کرپشن کا الزام تھا، وہ ان کے ساتھ چلا گیا۔ اس لیے عوام ایسی تنقیدوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔
درحقیقت ایک بڑے طبقے کے لیے صورت حال اس قدرمایوس کن ہے کہ وہ ان پر تبصرہ کرنا بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستانی سیاست کی ستم ظریفی پر جتنا کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے کہ الگ سے کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جو کچھ بھی لکھا جائے گا، اس میں سیاق و سباق اور چہرے نئے ہوسکتے ہیں، لیکن ایشوز اور موضوعات پرانے ہی ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال بدلنی چاہیے۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کا بھی کردار ہے۔ عام لوگ بھی اگر ووٹ دیتے وقت غیراصولی ، پارٹی بدلنے والے اور منی پاور و طاقت کے ذریعہ سیاست کرنے والوں کا ساتھ اور انہیں عزت نہ دیں، ان کی حمایت میں ووٹ نہ دیں تو رجحان بدل سکتا ہے۔ بی جے پی اس وقت سب سے بڑی ہی نہیں، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک سب سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے والی پارٹی ہے۔ وہ اس صورتحال کو سیاسی اصلاحات کے لیے استعمال کرکے ایک مثال قائم کرے۔ جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہو،وہاں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی،پارٹی میں ایسے لوگوں کو لینے کی ممانعت اور دوسری پارٹی کے اقتدار میں ہونے پر ایسے عناصر کے خلاف سیاسی جدوجہد جیسے سہ سطحی رویے کی توقع اس سے کی جاتی ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی سمجھ لیں کہ عام لوگوں میں اس کے ایسے رویے سے عدم اطمینان میں اضافہ ہوتا ہے اور کئی پارٹیاں وقتاً فوقتاً اقتدار سے باہر ہوجاتی ہیں تو اس کے پیچھے غیراصولی اور سیاسی بدعنوانی کی وجہ سے داغدار امیج کا اہم کردار رہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS