امتحانات میں پیپر لیک کے داغ سے نجات ضروری: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ذریعہ سرکاری نوکریوں کے امتحان صاف و شفاف ماحول میں کرانے کے دعوے اُس وقت کھوکھلے ہوجاتے ہیں،جب پیپر لیک اور بے ضابطگیوں کے معاملے ایک چیلنج کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ایسے میں نہ توامتحان مافیا اپنی حرکتوں سے باز آ رہے ہیں اور نہ ہی پیپر لیک کے معاملوں پر قدغن لگ پا رہا ہے۔پرچہ لیک ہونے سے جہاںنتائج دیر سے آتے ہیں، و ہیں تعلیمی نظام اور اداروں کی بدنامی کے ساتھ سرکار کو بھی فضیحت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ریویو آفیسر( آر او) اور اسسٹنٹ ریویو آفیسر(اے آر او) ابتدائی امتحان-2023 میں بے قاعدگی اور پیپر لیک کا معاملہ ابھی سرد بھی نہیںہوا تھا کہ پولیس بھرتی امتحان میں پرچہ لیک ہونے کی بنا پر امتحان تو منسوخ کردیا گیا، لیکن اُترپردیش پبلک سروس کمیشن(UPPSC) کی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان پرچہ لیک ہونے کی سیاہی سے داغدار ہو گیا۔
اُترپردیش میں ریویو آفیسراور اسسٹنٹ ریویوآفیسر کی 411آسامیوں کے لیے یو پی پی ایس سی کے امتحان کے لیے10,76,004اُمیدواروں نے درخواستیں دیں،جو ایک ریکارڈ ہے۔ 11فروری2024کو ہونے والے امتحان کے لیے58اضلاع میں اب تک کے سب سے زیادہ2387مراکز بنائے گئے۔ امتحان میں 64فیصد اُمیدوار شریک ہوئے۔ کمیشن نے امتحان میں بے قاعدگیاں روکنے کے لیے کئی اقدام کیے۔ پہلی مرتبہ 50فیصد سے زیادہ بیرونی نگرانوں کو تعینات کیا گیا۔ کمیشن نے راجستھان کی طرز پر دوران امتحان انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی تجویز بھیجی تھی، لیکن حکومت نے عام لوگوں کی پریشانی کے مدنظر اجازت نہیں دی۔کمیشن کی تمام تر محنت اور کارروائی اُس وقت رائیگاں ہوگئی،جب امتحان شروع ہونے سے ڈیڑھ -دوگھنٹے قبل پیپر وہاٹس ایپ پر وائرل ہوگیا۔ شروعات میں کمیشن پیپر لیک کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ کچھ دنوں بعد پولیس بھرتی امتحان میں بھی پرچہ لیک ہوگیا۔ صوبائی حکومت نے سخت قدم اُٹھاتے ہوئے امتحان منسوخ کردیا۔اس کے بعد ریویو آفیسر اور اسسٹنٹ ریویوآفیسر ابتدائی امتحان کے اُمیدواروں نے بھی امتحان منسوخ کے مطالبے کو لے کر احتجاج و مظاہرے کیے اور بے میعادی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ مظاہروں کی شدت اور اُمیدواروں کے دھرنے کی بنا پر حکومت کو مداخلت پر مجبور ہونا پڑا۔کمیشن نے ثبوت مہیا کرانے کی تاریخ 2مارچ طے کی تھی۔ اُمیدواروں نے کمیشن کے ساتھ حکومت کو بھی پیپر لیک کے ثبوت فراہم کرائے۔ابھی کمیشن داخلی کمیٹی سے تحقیقات کرا ہی رہا تھا کہ حکومت نے بھی تحقیقات شروع کردی۔اس سے پہلے کہ ثبوت مہیا کرنے کی میعاد پوری ہوتی اور تحقیق آگے بڑھتی، یوگی سرکار نے2مارچ کو امتحان منسوخی کا اعلان کرکے معاملے کی تفتیش ایس ٹی ایف کو سونپ دی۔ حکومت نے3مارچ کو آراو-اے آراو ابتدائی پرچہ لیک معاملے میں بے ضابطگیوں کے بعد اُترپردیش پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کنٹرولر اجے کمار تیواری کو ہٹا دیا۔17اور18فروری2024کو اُترپردیش کے سبھی 75اضلاع میں 60,266 آسامیوں کے لیے ہونے والے پولیس بھرتی امتحانات میں تقریباً 48لاکھ اُمیدوار شامل ہوئے۔ امتحان کے دوران 244سالور اور بے ضابطگیاں والے افرادپکڑے گئے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے امتحانات منسوخ کرتے ہوئے بے ضابطگیوں کی تفتیش ایس ٹی ایف کو سونپ دی۔ ڈی ایس پی دیپک سنگھ کے مطابق ایس ٹی ایف نے یکم مارچ کو پریاگ راج میں پھول پور کے رہائشی اجے سنگھ چوہان اور سونے سنگھ یادو کو گومتی نگر کے کسان بازارسے گرفتار کر لیا۔ ملزمان کے پاس سے کئی اُمیدواروں کے ’ایڈمیشن کارڈ‘ اور ڈیلنگ کے ثبوت ملے۔انہوں نے امتحانات میں ’سالور‘ بٹھانے کی بات قبول کی۔ پہلے اُمیدوار کو جال میں پھنسایا جاتا ہے، پھر موٹی رقم وصول کرکے امتحان میں اُن کی جگہ ’سالور‘ بٹھاکر امتحان دلوایا جاتا ہے۔ایس ٹی ایف کو پیپر لیک سے متعلق وہاٹس ایپ چیٹ اور درجن بھر سے زیادہ مشتبہ موبائل فون ملے۔ڈی ایس پی دیپک سنگھ کے مطابق تفتیش میں گروہ کے ذریعہ اُمیدوار سے پیپر کے عوض میں7-8لاکھ روپے تک وصول کرنے کی جانکاری ملی ہے۔جن کو پیپر ملا،اُن میں سے ہی کچھ لوگوں نے ٹیلی گرام ایپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پرچہ ڈال دیا۔
مقابلہ جاتی امتحانات میں پیپر لیک ہونے کے معاملے رُک نہیں رہے ہیں۔ گزشتہ 5برسوں میں سب سے زیادہ معاملے راجستھان،مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں ہوئے۔ سرکاری نوکری پانے کا خواب ہر اُمیدوار دیکھتا ہے۔اس کے لیے وہ برسوں کی تیاری اور روزانہ گھنٹوں پڑھائی کرنے کے بعد اس اُمید پر امتحان میں بیٹھتا ہے کہ اُسے دوسرے اُمیدواروں کے مقابلے بہتر مظاہرہ کرکے کامیاب ہونا ہے، لیکن پرچہ لیک کی وارداتیں ایسے محنتی اُمیدواروں کے حوصلے پست کر دیتی ہیں۔ کئی مرتبہ پیپر لیک، نقدی اور بدعنوانی کی بدولت نااہل افراد نوکری پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس غیر قانونی گورکھ دھندے اور پیپرآؤٹ کے ذریعہ نقل پر لگام کے مقصد سے اسی سال پارلیمنٹ میں پیپر لیک کے خلاف بل پیش کیا گیا۔اس کے تحت مجرم پائے گئے شخص پر3سے5لاکھ روپے تک جرمانہ اور ایک سے 10برس تک کی سزا رکھی گئی۔مرکزی وزراء کونسل نے حال ہی میں اس بل کو منظوری دی تھی۔ مجوزہ بل میں طلبا کو نشانہ بنانے کے بجائے منظم جرائم مافیا اور ملی بھگت میںملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ5برسوں میں ہندوستان کے 15صوبوں میں پیپر لیک ہونے کے معاملے سامنے آئے۔ تقریباً41نوکری بھرتی امتحانات میں امتحانات سے قبل پیپر لیک ہوئے۔ سب سے زیادہ راجستھان کے 7 معاملوں میں، اَسامیاں پُر کرنے کے لیے 38لاکھ 41ہزار اُمیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔ تلنگانہ میں5امتحانات کے پرچے لیک ہوئے۔ ان میں 3,770عہدوں کے لیے 6,74,000اُمیدواروں نے، مدھیہ پردیش میں5امتحانات کے لیے 3,690 عہدوں کے لیے 1,64,000اُمیدوار،اُتراکھنڈ کے 4 معاملوں میں1,800اَسامیوں کے لیے 2,37,000 اُمیدوار، بہار میں ایسے ہی 3 معاملوں میں 24,380 عہدوں کے لیے22,87,000اُمیدوار، گجرات میں 3مرتبہ کے پیپر لیک معاملوں میں 5,260اَسامیوں کے لیے16,41,000،جموں اور کشمیر میں 3امتحانات میں 2,330 عہدوں کے لیے2,49,000، ہریانہ کے2 امتحانات کے6,980 اَسامیوں کے لیے 8,41,000 اُمیدوار، مہاراشٹر کے2 پیپر لیک معاملوں میں 6,560 عہدوں کے لیے 11,25,000 اُمیدوار، کرناٹک کے2معاملوں میں1,660سیٹوں کے لیے 3,34,000 اُمیدوار،اُترپردیش کے ایک معاملے میں 3,330اَسامیوں کے لیے 19,00,000 اُمیدوار، جھارکھنڈ کے ایک معاملے میں2,010عہدوں کے لیے6,50,000اُمیدوار،اوڈیشہ کے ایک معاملے میں 1000سیٹوں کے لیے5000اُمیدوار،آسام کے ایک معاملے میں590اَسامیوں کے لیے 66,000 اُمیدوار اور اروناچل پردیش کے ایک معاملے میں 30سیٹوں کے لیے4,000اُمیدواروں نے درخواستیں دی تھیں۔گزشتہ برس وکرم سارابھائی خلائی مرکز نے تکنیکی اسٹاف کے لیے ’اسرو‘ بھرتی امتحان2023-کیرالہ میں ترووننت پورم کے کئی مراکز پر20 اگست 2023 کو منعقد کیا گیا تھا۔امتحان کے دوران دو اُمیدوار وں کے نقل کرتے پکڑے جانے کے بعد امتحان منسوخ کردیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے ’وشو گرو‘ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے،اُس میں سرکاری نوکریاں دینے کے لیے امتحانات کرانا ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ اس مدعے پر کئی مرتبہ سنجیدگی سے غوروخوض کیا گیا۔نئے نئے اقدام بھی کیے گئے،لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکل سکا۔ معاشرے میں اس کا غلط پیغام جاتا ہے۔یہ بات سولہ آنے صحیح ہے کہ پیپر لیک جیسے شرمناک معاملوں کو سیاست کی عینک سے دیکھنا، مرکزی اور صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا اور کسی خاص جماعت کو اس کے لیے موردالزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔پیپر لیک معاملہ نوجوانوں کے مستقبل سے جڑا ہے۔اس بدنما داغ سے نجات کے لیے اس کا مستقل حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS