صدارتی انتخاب :اپوزیشن اتحاد کیلئے لٹمس ٹسٹ

0

محمد فاروق اعظمی

عام انتخاب2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو روکنا اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے۔ اس کی تکمیل کیلئے ہر پارٹی اپنی اپنی سطح سے کوشش ضرور کررہی ہے لیکن بات جب متحد ہ کوشش کی آتی ہے تو سبھی جماعتیں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتی ہیں۔ بی جے پی کے خلاف کئی بار اپوزیشن اتحاد کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا ہوا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔اب صدارتی انتخاب سے قبل ایک بار پھر یہ کوشش شروع ہوگئی ہے۔صدارتی انتخاب کیلئے ووٹنگ 18 جولائی 2022کو ہونی ہے جس کیلئے حزب اختلاف میں گہماگہمی تیز ہوگئی ہے۔ خاص کرمغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی اس صدارتی انتخاب میں اپوزیشن اتحاد کیلئے کافی سرگرم ہیں۔ویسے بھی ممتابنرجی سال 2021 میں بنگال اسمبلی انتخابات میں تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد سے قومی سیاست میں جگہ بنانے کی مشق میں مسلسل لگی ہوئی ہیں۔ اس بار انہوں نے صدارتی انتخاب کے حوالے سے اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے 15 جون کو دہلی میں میٹنگ بلانے کا اعلان کیا ہے۔ ممتا بنرجی نے تقریباً 22 اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو میٹنگ کے حوالے سے ایک خط بھی لکھا ہے۔جن میں کانگریس صدر سونیا گاندھی، دہلی کے وزیراعلیٰ اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے کنوینر اروند کجریوال، کیرالہ کے وزیراعلیٰ اور بائیں بازو کے رہنما پنارائی وجین، اوڈیشہ کے وزیراعلیٰ اور بی جے ڈی کے سربراہ نوین پٹنائک اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے و دیگر شامل ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ممتا بنرجی نے تلنگانہ میں اپنے ہم منصب کے چندر شیکھر راؤ، تمل ناڈو میں ایم کے اسٹالن، جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ کہاجارہاہے کہ ممتابنرجی کی جانب سے بلائی گئی یہ میٹنگ 15جون کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہو گی لیکن اس میں اپوزیشن کے کتنے لیڈران شامل ہوں گے، اس پر کوئی یقینی بات نہیںکہی جارہی ہے۔اسی دوران مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی جانب سے یہ اعلا ن بھی آگیا ہے کہ وہ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔
دیکھاجائے تو صدارتی انتخاب2024کے عام انتخاب سے قبل اپوزیشن اتحاد کا لٹمس ٹسٹ ثابت ہونے والا ہے۔ صدارتی انتخاب میں اپوزیشن اگر مشترکہ امیدوار دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اگلے عام انتخاب میں بھی اپوزیشن کے اتحاد کی امید کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ اگلے ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی کو اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے جتنے ووٹوں کی ضرورت ہے، اس میں وہ کافی پیچھے ہے جب کہ اس بار حزب اختلاف کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے 217 ارکان ہیں۔ اترپردیش اسمبلی میں بھی اس بار سماج وادی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھی ہے، دوسری ریاستوں میں بھی اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی ایک معقول تعداد ہے۔ اپوزیشن کیلئے یہ سنہرا موقع ہے کہ وہ متحد ہوکر بی جے پی امیدوار کے خلاف کوئی مشترکہ امیدوار دے۔
لیکن اپوزیشن اتحاد کی اب تک کی جو تاریخ رہی ہے، اس میں یہ کافی دشوار نظر آرہا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ کانگریس جیسی قومی پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن کی تمام پارٹیاں متحد ہوتیں جس کا چند دنوں قبل عندیہ دیتے ہوئے کانگریس صدرسونیا گاندھی نے صدارتی انتخاب کیلئے مشترکہ امیدوار کی ضرورت کا اظہار کیاتھااور ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن، این سی پی سربراہ شرد پوار، سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری اور دیگر سے بات بھی کی تھی۔لیکن کانگریس کی ان کوششوں کو نظرانداز کرکے ترنمول کانگریس نے اپنی الگ راہ بنا نے کا فیصلہ کرلیا جواتحاد سے قبل ہی انتشار کی علامت ہے۔ویسے بھی ہندوستان میں کانگریس کو نظر انداز کرکے کوئی بھی اپوزیشن اتحاد ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میںیہ تجربہ پہلے بھی کئی بار کیاجاچکا ہے۔
اس سے پہلے بھی اس سال کے آغاز میں ہی بڑے ہی طمطراق کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کا ڈ ول ڈالاگیا تھا۔کانگریس کو نظرانداز کرکے حزب اختلاف کے سرکردہ لیڈروں کی کئی میٹنگیں ہوئیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پا ت رہا ہے۔ 2021 میں مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں تاریخی کامیابی کے بعدقومی سیاست میں اپنی سرگرم حصہ داری کیلئے ممتابنرجی نے اسی سال مارچ کے مہینہ میں اپوزیشن اتحاد کی کوشش کا پھر نئے سرے سے آغازکیاتھا اور اپوزیشن کے کئی سربرآوردہ لیڈروں سے ملاقات بھی کی تھی۔کہا جارہا ہے کہ کئی علاقائی جماعتوں نے اپنی اپنی نیک نیتی کا یقین بھی دلایا۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ اور تلنگانہ راشٹر سمیتی کے سربراہ کے چندر شیکھر رائو، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے، این سی پی کے سربراہ شرد پوار، جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین، جنتادل(سیکولر) کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی دیوے گوڑا، عام آدمی پارٹی کے سپریمو اروند کجریوال اور بیجوجنتادل کے سربراہ نوین پٹنائک اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو جیسے رہنما ئوں نے تو باقاعدہ یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ممتابنرجی ہی ایسی سیاسی لیڈر ہیں جو بھارتیہ جنتاپارٹی کو ٹکر دے سکتی ہیں۔لیکن یہ میٹنگ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی اور ممتابنرجی کی امیدوں پر اوس پڑگئی۔ 2019 عام انتخاب کے قبل سے ہی ممتابنرجی اپوزیشن اتحاد کی بات کرتی رہی ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے کئی بار خط لکھا ہے، اپیل کی ہے اور میٹنگیں بھی بلائی ہیں۔لیکن بات نہیں بن سکی۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ قیاد ت سے کم پر کوئی بھی پارٹی سمجھوتہ کیلئے تیار نہیں ہے۔ہر پارٹی کو یہ غلط فہمی ہے کہ اتحاد کی قیادت وہی بہتر طریقے سے کرسکتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن اتحاد اب تک ایک خواب بنا ہوا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ 15جون کی میٹنگ میں اپوزیشن اتحاد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔اگر صدارتی انتخاب کے معاملے میں اپوزیشن متحد نہیں ہوپایااور مشترکہ امیدوار دینے میں ناکام رہا تو پھر اگلے دو برسوں بعد 2024میں ہونے والے عام انتخاب میں بھی اس کے اتحاد کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔صدارتی انتخاب2022 ایک طرح سے اپوزیشن اتحاد کیلئے لٹمس ٹسٹ ہے جس پر پورا اترنا جمہوریت کی بقا اور تسلسل کیلئے ضروری ہوگیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS