چین سے ہوشیار رہنے کی ضرورت!

0

کسی ملک کی پہچان اس وقت آسانی سے ہونے لگتی ہے جب وہ بڑی حد تک ترقی کرچکا ہوتا ہے اور اس کے مزید ترقی حاصل کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ چین کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ اس نے بڑی حد تک ترقی کرلی ہے اور ترقی کی راہ پر مسلسل گامزن ہے مگر اس نے جیسے جیسے ترقی کی ہے، اس کی توسیع پسندی کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین میں برونئی، تائیوان، انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، ویتنام اور بحیرۂ شرقی چین میں جاپان اور جنوبی کوریا کے علاقوں پر چینی دعویٰ چین کی توسیع پسندی کا ہی ثبوت ہے۔ وہ اگر توسیع پسند نہیں ہوتا تو 1962 میں ہندوستانی جب ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگا رہے تھے تو ہندوستان پر حملہ نہیں کرتا، 2020 میں کوئی نیا تنازع پیدا ہی نہیں ہوتا، اس لیے چین کی طرف سے اطمینان کرنا ٹھیک نہیں۔ اسی 8 جون کو امریکہ کی فوج کے پیسیفک کمانڈنگ جنرل چارلس اے فلن نے کہا تھا کہ ’ہندوستان سے متصل سرحد پر چین نے جو انفرااسٹرکچر ڈیولپ کیا ہے، وہ کافی تشویش ناک ہے اور اس کی جس سطح کی فوجی سرگرمی جاری ہے، وہ آنکھیں کھولنے والی ہے۔‘ پاک فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کی سربراہی والے پاک فوجیوں کے وفد کے 9سے 12 جون تک کے چین دورے اور چینی فوجی قیادت کی طرف سے آنے والے بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
12جون کو چینی سربراہ شی جن پنگ کی سربراہی میں چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے نائب صدر جنرل ژانگ یوکسیا کی سربراہی میں چینی فوجی حکام کے ساتھ پاک فوجی وفد کی گفتگو ہوئی۔ چینی فوجی قیادت نے پاکستان کو اپنا ’خاص دوست‘بتاتے ہوئے یہ بات کہی کہ ’چینی فوج علاقے میں مشکل مسئلوں سے نمٹنے اور دونوں فورسوں کے مابین تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے پاک مسلح افواج کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔‘ژانگ نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’چین اور پاکستان ہر موسم میں ڈپلومیٹک معاون ہیں۔‘ چین اور پاکستان کے تعلقات جگ ظاہر ہیں تو پھر جواب طلب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے سلسلے میں چین کو اپنی قربت کا اظہار اس وقت کیوں کرنا پڑا، اس اظہار کا مطلب کیا ہے، وہ دنیا کو کیا بتانا چاہتا ہے؟ ابھی حال ہی میں یہ خبر آئی تھی کہ چین لداخ کی پینگونگ جھیل کے اپنے قبضے والے علاقے میں ایک پل کی تعمیر کر رہا ہے۔ یہ خبر تشویش ناک اس لیے تھی، کیونکہ چین اگر پل بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے اس کے لیے کافی آسانی ہو جائے گی۔ پل کے بن جانے سے وہاں تک چینی فوجیوں اور رسد کو پہنچانے کا ایک اور راستہ کھل جائے گا، اس سے وہاں تک زیادہ سے زیادہ چینی فوجیوں اور رسد کو کم وقت میں پہنچانا آسان ہوجائے گا۔ اس کی باضابطہ سیٹیلائٹ تصویر بھی آئی تھی۔ اس سے بھی چین کی نیت پر شبہ پیدا ہونا فطری ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ حکومت ہند ان حالات سے بے خبر ہے۔ چین سے تنازع کے سلسلے میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ اس نے اپنے دم پر اس سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے علاقے کے ملکوں میں اس کی ساکھ پہلے سے زیادہ بہتر ہوئی ہے، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے لیے ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت اور بڑھی ہے۔ دوسری طرف حکومت ہند دنیا کے بدلتے حالات کے تقاضوں سے بھی واقف ہے،چنانچہ ہندوستان کواڈ کا حصہ ہے جبکہ کواڈ میں شمولیت پر روسی وزیرخارجہ سرگئی لاؤروف نے اعتراض کیا تھا مگر جیسے ہندوستان نے یہ اشارہ دیا تھا کہ اس کی آزاد پالیسی ہے، اسی طرح یوکرین جنگ میں روس سے دوری نہ اختیار کرکے بھی اس نے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ ایک ملک کی دوستی کی خاطر دوسرے ملک یا گروپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔
پاکستان کو چین کی اس یقین دہانی سے، کہ ’علاقے مسئلے میں مدد کریں گے‘، یہی لگتا ہے کہ چین کچھ بڑا کرنے جا رہا ہے اور دوسرا محاذ اس کے لیے نہ کھلے، اس کے لیے وہ پاکستان کو تیار رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے اس نے مدد کا یقین دلایا ہے۔ یقینا تائیوان اپنی سرحدوں پر چوکسی بڑھانا چاہے گا، وطن عزیز ہندوستان کو بھی چین اور پاکستان کی سرحدوں پر زیادہ چوکسی بڑھا دینی چاہیے، چین سے متصل ان سرحدوں پر بھی چوکسی بڑھا دینی چاہیے جہاں کے علاقوں پر کوئی تنازع نہیں، کیونکہ چین کب کس علاقے پر دعویٰ کر دے اور اس علاقے پر قبضہ جمانا چاہے،یہ کہنا مشکل ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS