حضرت عائشہ ؓ کے نکاح کی عمر اور موجودہ صورتحال

0

پروفیسر اخترالواسع

ان دنوں ملک کی حکمراں پارٹی کے ایک بد زبان ترجمان کے انتہائی بد بختانہ اور نازیبا تبصرہ نے دنیائے انسانیت کی عظیم ترین شخصیت کے ماننے والوں کے جذبات کو مجروح کر دیا ہے، اوراس کے نتیجہ میں ایک طرف بے چینی دیکھی جا رہی ہے تو دوسری طرف خود اس مسئلہ پر علمی گفتگو بھی چھڑی ہوئی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر نبی ؐ سے نکاح کے وقت کیا تھی اور اس کے اسباب ووجوہات کیا تھے؟ آئیے اس مسئلہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس مسئلہ کی موجودہ صورت حال ہمیں کئی نکات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
1- حضرت محمد مصطفیؐ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں اور تمام انسانوں کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں اور ساتھ ہی آپ کی ذات اقدس سارے جہان کے لئے رحمت اور پیغام محبت ہے۔ یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ تاریخ انسانی کی عظیم شخصیات میں صرف محمد عربیؐ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جن کی زندگی کی تمام چھوٹی بڑی تفصیلات نہ صرف موجود ہیں بلکہ انھیں تحقیق کے اعلیٰ معیاروں پر جانچ اور پرکھ کر تحریر میں لایا گیا ہے اور سیرت نبوی کے موضوع پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں ہر دور اور ہر زمانہ میں، اور دنیا کی ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ کسی بھی شخص کی تفصیلی بایوگرافی کے باب میں حضرت محمد ؐکی طرح کسی مذہب کی اور کسی قوم ونسل کی کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کی زندگی کی اتنی تفصیل اتنے اہتمام سے لکھی گئی ہو۔ حیرت تو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں جب تاریخ کی روشنی جگمگا رہی ہے اور طباعت وترسیل کی بے انتہا سہولیات فراہم ہیں، آج بھی کسی رہنما اور لیڈر کی زندگی اس طرح نہیں محفوظ رکھی جا سکی ہے جیسی رسول اسلام حضرت محمدؐ کی زندگی ملتی ہے۔ اس نکتہ سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ نبی اسلامؐ کی زندگی کا کوئی بھی واقعہ بڑی آسانی کے ساتھ اور پوری تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
2-حضرت محمد مصطفیؐ کی پوری زندگی رول ماڈل اور نمونہ ہے۔ تو کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کے لئے پوری زندگی پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ کسی بھی شخص کی زندگی کا کوئی واقعہ اپنے سیاق وسباق سے جدا اور علاحدہ نہیں ہوتا ہے۔ تو ضروری ہے کہ ہم نبی کریمؐ کی زندگی کے کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کے لئے پوری زندگی کے منظر نامے کو پیش نظر رکھیں۔
3-یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ حضرت محمدؐ مکہ شہر کے ایک خوبرو، خوب سیرت، خوب صورت اور خوبیوں سے مالا مال نوجوان تھے، سب سے معزز قبیلہ کے ممتاز فرد تھے، عزت اور نیک نامی کا ہر طرف شہرہ تھا، سب کے محبوب اور سب کے پیارے تھے۔ ابھی آپ نبی بھی نہیں بنائے گئے تھے۔ پچیس برس کی عمر کا بانکپن تھا، اور ہر طرف سے نگاہ تحسین وآفرین آپ پر اٹھ رہی تھی۔ ایسے وقت میں حضرت محمدؐ کی پہلی شادی ایک ایسی خاتون سے ہوتی ہے، جو اگرچہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں، لیکن وہ دو بار کی بیوہ ‘ اور اس خوبرو نوجوان سے عمر میں پندرہ برس بڑی تھیں، اور ان کی اولاد بھی تھی۔ حضرت محمدؐ نے اس بیوہ خاتون حضرت خدیجہؓ سے پہلا نکاح کیا۔ بڑی محبت کی زندگی بسر کی۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹوں کی شکل میں اولاد ہوئی۔ اسی ازدواجی رفاقت کے زمانہ میں نبی بنائے گئے۔ دین کی دعوت کی راہ میں جو مشکلات آئیں دونوں نے مل جل کر ان کا سامنا کیا، اور اس بیوہ خاتون کی زندگی کے آخری لمحہ تک آپ ان کے ساتھ رہے۔ اور جب مخالفت کی شدت اپنے عروج پر تھی، اس وقت نبی ہونے کے دسویں سال میں ایسی غم گسار، وفا شعار اور محبوب ترین بیوی اماں خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔ نبوت کی ذمہ داری کاندھوں پر تھی۔ دعوت دین کی وجہ سے مخالفت کا سخت ترین بازار گرم تھا کہ لوگ آپ کے خون اور جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے اور وطن سے بے گھر کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ پھر چھوٹی چھوٹی بچیاں گھر میں تھیں، جن کی پرورش اور حفاظت ضروری تھی۔ ایسے غمگین اور فکر انگیز ماحول میں محمدؐ نے کچھ مخلصین کے مشورے پر ایک دوسری بیوہ خاتون حضرت سودہؓ سے نکاح فرمایا، تاکہ وہ بچوں کی پرورش اور آپ کی رفاقت انجام دے سکے۔
4-مکہ میں تیرہ برس کی زندگی کے بعد جب جان کی حفاظت بھی مشکل ہو گئی، تو اللہ کے حکم سے حضرت محمدؐ نے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے شہر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کے قریب ترین ساتھی حضرت ابو بکرؓ تھے، جنہوں نے اپنا سب کچھ آپ کی ذات پر اور دین اسلام پر نچھاور کر رکھا تھا۔ ان کی چھوٹی بیٹی حضرت عائشہ کا رشتہ مکہ میں ایک دوسرے نوجوان سے لگ چکا تھا، لیکن دین اسلام کی مخالفت میں لڑکے کے والد نے رشتہ سے منع کر دیا۔ ادھر حضرت محمدؐ کو اللہ نے خواب میں یہ اشارہ دیا کہ وہ حضرت ابو بکرؓ کی بیٹی عائشہؓ سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ آپؐ نے نکاح کا رشتہ دیا، نکاح ہوا ، لیکن رخصتی اس وقت نہ ہوئی۔ وطن کے حالات نا گفتہ بہ تھے، اور لوگ اپنے دین وایمان اور جان کو بچا کر مکہ سے مدینہ چھپ چھپا کر نکل رہے تھے۔ حضرت محمدؐ اور حضرت ابو بکرؓ بھی مدینہ ہجرت کر گئے۔ بعد میں گھر کے دوسرے افراد بھی مدینہ بلا لئے گئے اور یہاں مدینہ میں کچھ اطمینان کی صورت ہونے کے بعدحضرت عائشہ ؓ کی رخصتی انجام پائی۔
5-حدیث کی کتابوں میں مستند طریقہ پر یہ تحریر ہے اور عائشہ صدیقہؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ؐ سے میرا نکاح چھ برس کی عمر میں ہوا، اور نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔ سیرت کی بعض کتابوں میں نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ اور انیس برس عمر ہونے کی روایت ملتی ہے، لیکن زیادہ مستند حدیث کی روایت ہی ہے۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حضرت عائشہؓ سے نبی اکرمؐ کا نکاح جس وقت ہوا، وہ پہلے سے لگے ایک رشتہ کے ٹوٹ جانے کے بعد‘ اور اللہ کے حکم سے ہوا۔
6-یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ عرب کے لوگوں نے اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی ہر طرح مخالفت کی ۔ جان ومال کو نقصان پہنچایا۔ پتھر برسا کر لہو لہان کر دیا۔ جان لینے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ جادوگر، شاعر، مجنون اور کاہن جیسے جھوٹے الزامات لگائے۔ لیکن ایسے بدترین دشمنوں نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ محمد ؐ نے اپنے بڑھاپے میں ایک کمسن بچی سے شادی کا جرم کیا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ شادی عربوں کے لئے کوئی اجنبیت کی بات نہ تھی، کیونکہ ان کے یہاں بچیاں گرم علاقے میں نو سال کی عمر میں بالغ ہوجایا کرتی تھیں اور اس عمر کی شادیاں سب کے لئے قابل قبول تھیں۔
7-حضرت عائشہؓ سے شادی کے بعد حضرت محمدؐ نے اور بھی کئی شادیاں کیں، اور وہ سب کے سب یا تو طلاق یافتہ تھیں یا بیوہ خاتون۔ اور اس وقت آپؐ کی عمر چون (54) برس سے زیادہ تھی۔ یہ ساری بیویاں آپ کے پاس خوش خوش رہیں۔ سب نے آپ کے اخلاق اور حسن کردار کی تعریفیں کیں۔ سب بیویوں نے دین کی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن سب سے زیادہ دین اور علم کی اشاعت کا کام حضرت عائشہؓ نے انجام دیا، کیونکہ وہ بے انتہاء ذہین اور سمجھدار تھیں۔ان کا حافظہ بڑا مضبوط تھا۔ وہ دینی کاموں میں بہت سرگرم تھیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حضرت محمدؐ نے ساری بیویوں کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک رکھا۔ لیکن سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہؓ ہی سے تھی۔ آپؐ ان کی نوجوانی کی دلچسپیوں کا بھی بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی سہیلیوں کو کھیلنے بھیجتے تھے، ان کی گڑیوں کے حال احوال پوچھتے تھے، ان سے قصے کہانیاں سنتے اور سناتے تھے، ان کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے اچھے کھیل تماشے دکھاتے تھے، ان کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے تھے، اور کھانے پینے میں ان سے بے انتہاء محبت کا اظہار کرتے تھے اور یہ ساری محبتیں حضرت عائشہؓ کی طرف سے بھی اپنے محبوب شوہر حضرت محمدؐ کے لئے رہتی تھیں۔
8-اوپر کی یہ ساری تفصیل اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ نبی اکرمؐ کا نکاح حضرت عائشہؓ کے ساتھ عرب کے رواج کے مطابق ہوا۔ دوست دشمن سب کے لئے وہ معمول کے مطابق تھا۔ آپ نے اس ایک نکاح کے علاوہ سارے نکاح بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین سے کیا، اور حضرت عائشہؓ سے یہ نکاح بھی دو بیوہ خاتون سے نکاح کرنے کے بعد کیا۔ اور جس مصلحت کی خاطر اللہ نے اس نکاح کا اشارہ دیا تھاوہ مصلحت تاریخ اسلام کا سنہرا باب ہے کہ آج دینی مسائل کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہی سے موجود ہے۔ بڑے بڑے صحابہ کرام نے ان سے دین کو سیکھا، اور نبی کریمؐ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ میرے گھر کے اندر اور باہر کی تمام باتیں لوگوں کو بتاؤ، کیونکہ میری پوری زندگی لوگوں کے لئے نمونہ ہے۔ تو اس کام کو حضرت عائشہؓ نے ہی بڑے پیمانہ پر انجام دیا، کیونکہ وہ نوجوان تھیں اور علمی صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔ تو کیا ایسی شخصیت کے لئے کوئی نازیبا بات کہی جا سکتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس واقعہ میں بھی حضرت محمدؐ سب کے لئے نمونہ اور اسوہ ہیں اور حضرت عائشہؓ کی زندگی بھی امت کی بیٹیوں اور ماؤں کے لئے نمونہ ہے۔ r
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleچین سے ہوشیار رہنے کی ضرورت!
Next articleشرائط کے ساتھ مصالحت کی پیشکش بے معنی
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh