شرائط کے ساتھ مصالحت کی پیشکش بے معنی

0

عدیل اختر

آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں سے کچھ مطالبات کئے ہیں جنہیں میڈیا نے ایک ایسے فارمولے کے طور پر پیش کیا ہے جو بھارت میں مسلمانوں کے لئے سکون سے رہنے کی آرایس ایس کی طرف سے ایک مشروط پیش کش ہے۔ میڈیا کے مطابق آر ایس ایس کی شرطیں یہ ہیں کہ نمبر ایک مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں، نمبر دو مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کریں، اور نمبر تین مسلمان جہاد کے نظرئے سے خودکو الگ کریں۔ آر ایس ایس لیڈر کی طرف سے یہ باتیں صاف صاف انداز میں ایک ایسے وقت میں کہی گئی ہیں جب آرایس ایس فکر سے ہم آہنگی رکھنے والے طبقے کے مقامی ، علاقائی اور مرکزی قائدین کی طرف سے مسلمانوں کو شدید دبائو محسوس ہورہا ہے، فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر ہے اور انتظامیہ و عدلیہ کے رویے سے مسلمان شاکی اور مایوس ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں اس مشروط پیش کش پر مسلمانوں کا نظریہ بروقت سامنے آنا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جس پر توجہ دی جانی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان امور پر اگر آر ایس ایس مذاکرات کی خواہاں ہے تو اس طرح کے مذاکرات سے مسلمانوں کو گریز نہیں ہے، لیکن مذاکرات کا بنیادی اصول یہ ہے، اور یہ ہماری حکومتوں کا بھی موقف رہا ہے، کہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول ضروری ہے۔ مذاکرات پرامن حالات میں اور دوستانہ انداز میں مفید ہوتے ہیں۔فی الحا ل ملک میں جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں اس طرح کی گفتگو مثبت کے بجائے منفی تاثر پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک آزادانہ مذاکرات کے بجائے دبائو اور جبر کے ماحول میں امن کی شرطوں کو تسلیم کرنے پر یک طرفہ اصرار کے مترادف ہے ، جس سے سود مندنتائج کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں مذاکرات کے لئے فریقین کے درمیان اعتماد کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ آر ایس ایس نے اعتماد کی بنیادوں کو محفوظ نہیں رکھا ہے اور کسی حلفیہ بیان پر بھی یقین نہ کرنے کی ٹھوس وجوہات مسلمانوں کے پاس ہیں۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کے انہدام سے پہلے آر ایس ایس کے تنظیمی کارکن، بی جے پی کی طرف سے ریاست کے وزیر اعلیٰ اور بابری مسجد گرائو آندولن کے ایک لیڈر کلیان سنگھ نے عوام یا عوام کے کسی طبقے سے نہیں بلکہ عدالت عالیہ سے یہ حلفیہ وعدہ کیا تھا کہ ’متنازع عمارت‘ کی حفاظت کی جائے گی اور کارسیوکوں کو اس عمارت سے دور رکھا جائے گا۔ لیکن نہ صرف یہ کہ اس وعدے کے برخلاف کام کئے گئے بلکہ بابری مسجد کے انہدام کو اپنا ایک فخریہ کارنامہ بتایا گیا اور سنگھ پریوار نے اسی’فخریہ کارنامے‘ پر انہیں اعزازات بخشے۔ اس کے علاوہ ، مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ بابری مسجدسے دست بردار ہوجائیں تو باقی مسجدوں کاسوال نہیں اٹھایا جائے گا۔بابری مسجد معاملے میں عدالت کے فیصلہ کو مسلمانوں نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا تو اسی امید پر کرلیا کہ شاید ہندئووں کے اندر پیدا کیا گیا اشتعال اب ٹھنڈا پڑجائے اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے جذبے سے وہ آئندہ اس طرح کی تحریکوں کا ساتھ نہ دیں۔لیکن یہ امیدیں بھی خاک میں مل گئیں اور مسلمان یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے کہ آرایس ایس نواز طبقہ کو امن و امان سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ ایک فتح کے بعد دوسری فتح کا جوش ان کے اندر لگاتار بڑھتا چلاجارہا ہے۔ چنانچہ آر ایس ایس کی کسی بھی مشروط پیش کش میں امن کی ضمانت کے طورپر اب آرایس ایس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے اپنے بنیادی عقائد اور تصورات کو ترک کردینے کاجو مطالبہ آج کیا جارہا ہے یہ اس وعدے ، اقراراور بھروسے کے خلاف ہے جو آزادی اور تقسیم کے بعد بھارت کی تشکیل نو کے وقت اس کے دستور کے لئے ہوئی بحثوں میں ہندو قائدین کی طرف سے بار بار دیا گیا تھا ۔ وہ یہ تھا کہ تمام لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد پر چلنے ، عمل میں اسے برتنے اور اس کی پرامن تبلیغ کی آزادی حاصل ہوگی۔اسی تصور پر دستور وضع کیا گیا اور ہر فرد و ہر قوم کے لئے عقیدے، نظرئے اور ضمیر کی آزادی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ چنانچہ یہ جو تین شرطیں رکھی گئی ہیں یہ اس بنیادی آزادی سے دست بردار ہونے کی شرطیں ہیں اور ان شرطوں کے ساتھ امن کو مشروط کرنا نہ صرف یہ کہ آج کی دنیا میں تسلیم شدہ تصورات اور بین الاقوامی قراردادوں و معاہدوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہندو فرقہ کی قیادت کے موقف میں بنیادی تبدیلی کااظہار ہے۔اکثریتی فرقے یا اس کی قیادت کے موقف میں اس طرح کی بنیادی تبدیلی سے فرقوں کے درمیان اتفاق رائے کی وہ گانٹھ کھل جائے گی جس کی وجہ سے مختلف فرقے ایک سیاسی قوم بنے ہوئے ہیں ۔پھر مذاکرات کی اسی میز پر واپس جانا سب کے لئے ضروری ہوجائے گا جہاں برابری کی بنیاد پر مل جل کر ساتھ ساتھ رہنے کا سمجھوتہ ہوا تھا۔اس لئے رام مادھو جی کا یہ مطالبہ اپنے اندر بڑے سنگین مضمرات رکھتا ہے۔
جہاں تک قرآن کی ان تین اصطلاحوں کا سوال ہے تو اس پر رام مادھو جی جیسے واقف کاروں کو کچھ سمجھانا تحصیل حاصل ہوگا۔ قرآن کی تفاسیر اور اسلامی لٹریچر ان اصطلاحوں کی وضاحت کے لئے موجود ہے اور مادھو جی جیسے لوگ یقینا ان سے واقف ہیں۔ تاہم عام لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے لئے ہر غیر مسلم ’کافر ‘ نہیں ہے۔ دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ تعاون کرنا اور دنیا میں ابتری، فساد اور برائی پھیلانے والی طاقتوں کی روک تھام کرنا اس جدوجہد کی بنیادی روح ہے۔ یہ انسانی معاشرے کی فلاح کے لئے ایک تعمیری اور مثبت عمل ہے لیکن اس کی غلط تشریح اسلام کے مخالفین کی طرف سے شرارتاً کی جاتی رہی ہے۔ چنانچہ ہمارا ماننا ہے کہ امن کے قیام کے لئے کوئی شرط اس کے سوا نہیں ہونی چاہئے کہ تمام لوگ اپنی اپنی حدود کو اور دوسروں کے حقوق کو پہچانیں۔ ملک کاموجودہ دستور اس موقف کے ساتھ سبھی فرقوں کو شانہ بہ شانہ رہنے کے لئے معقول اور کافی بندوبست فراہم کرتا ہے۔ r

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS