کسی اپیل کے بغیر یہ ملک گیر احتجاج کیسے ہو گیا

0

عبیداللّٰہ ناصر

ملک کے ممتاز صحافی اور حق و انصاف کی ایک بلند آواز اجیت انجم نے آج اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا ہے جس میں سہارن پور کے ایک تھانہ کی حوالات میں بند تقریباً بیس پچیس قیدیوں کو دو پولیس والے بڑی بے دردی سے لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں،یہ لوگ چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں اور ان کی ہر چیخ کے ساتھ پولیس والوں کی لاٹھی اور زور سے ان کے جسم پر پڑتی ہے۔ اس ویڈیو سے منسلک بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی شلبھ منی ترپاٹھی کا ٹوئٹ بھی ہے جس میں وہ ان پولیس والوں کی اس بربریت کی تعریف کرتے ہوئے پٹنے والوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں، یہ احتجاج کا ریٹرن گفٹ ہے۔ اجیت انجم نے یہ ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کیا ہے جس پر بہت سے لوگوں نے افسوس اور ناراضگی بھی ظاہر کی ہے لیکن ایک شخص نے اسے پسند بھی کیا ہے اور اس پسند پر اسے تادم تحریر نو سو سے زائد لائک مل چکی ہے۔شلبھ منی ترپاٹھی جو کبھی لکھنؤ کے بڑے صحافیوں میں شمار ہوتے تھے پھر بی جے پی کے ترجمان بنے اور حالیہ الیکشن میں دیوریا سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، ان کی ذہنیت اور900لائک والی اس ذہنیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا ماحول مسلمانوں کو لے کر کتنا زہر آلود ہوچکا ہے، مسلمانوں کے جسم پر پڑنے والی ہر لاٹھی سے اس ذہنیت کے لوگوں کی بانچھیں کھل جاتی ہیں اور بی جے پی کا ووٹ بینک مضبوط ہوتا ہے اور جب تک اس لاقانونیت، غیر انسانی رویہ، ظلم بر بریت سے بی جے پی کو ووٹ ملتے رہیں گے، موجودہ حکمرانوں اور حکمراں پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس سے اندرون اور بیرون ملک ہندوستان کی ساکھ پر کیا اثر پڑے گا، اس کا کیا ا نجام ہو سکتا ہے اور ملک کس گہری کھائی میں گر سکتا ہے۔
سہارن پور کے اس تھانہ میں جو کچھ ہوا وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، نہ یہ پہلی واردات ہے اور نہ ہی آخری، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ صرف بی جے پی دور حکومت میں ہوا ہو، ہم ہاشم پورہ، ملیانہ، بھاگلپور، مرادآباد،گجرات اور دہلی جیسے ہزاروں بلکہ آزادی کے بعد سے شاید لاکھوں ایسے واقعات پڑھ اور دیکھ چکے ہیں لیکن دو باتیں اہم ہیں جن کو ذہن نشیں رکھنا ہوگا، اول ان تمام مظالم کے پیچھے ذہنیت وہی کام کررہی ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں رہی ہے، دوسرے 2014سے پہلے سرکاری اور عدالتی سطح پر انصاف کے دروازہ ایک دم مقفل نہیں کر دیے گئے تھے۔ پولیس کے سب تو نہیں لیکن زیادہ تر اعلیٰ افسروں میں کچھ غیرت اور قانون کا پاس و لحاظ باقی تھا، سیاسی سطح پر بھی کھلے عام جانب داری نہیں ہوتی تھی، عوام کا ذہن بھی اتنا زہر آلود اور غیر انسانی نہیں ہوگیا تھا مگر2014کے بعد کا ہندوستان تو یکسر بدلا ہوا ہے۔ مسلمانوں کیلئے انصاف اور انسانیت کے سارے دروازے قریب قریب بند ہو چکے ہیں۔ دہلی کا فساد ہو یا شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اترپردیش میں ہوا احتجاج یا کسانوں کی تحریک، ہر جگہ حکومت، حکمراں جماعت اور پولیس انتظامیہ نے اپنا بربر ظالم ماورا قانون چہرہ دکھایا اور سماج کے ایک بڑے طبقہ سے حمایت ہی نہیں بلکہ داد و تحسین بھی حاصل کی، ووٹوں کی جو بارش ہوئی وہ الگ۔ ظاہر ہے کہ جب ظلم و بربریت اور لاقانونیت کامیابی کا دروازہ کھولے تو کون اس سے مختلف راہ اختیار کرے گا۔ یہ حالات آج ہی کے نہیں ہیں، مستقبل قریب میں ان کے تبدیل ہونے کے بھی کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے کیونکہ تبدیلی کی کوئی مہم کہیں سے چلتی ہوئی دکھائی نہیں پڑ رہی ہے۔
ملک کے یہ حالات، یہ سماجی ماحول، یہ سیاسی کھیل کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے اور نہ ہی اسے سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کا علم درکار ہے، ان حالات میں مسلمانوں کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے دل اور ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ شان رسالتؐ میں توہین کے خلاف گزشتہ جمعہ کو ان کا ملک گیر احتجاج حق بجانب تھا؟ کیا یہ بد ترین نا عاقبت اندیشی فہم و فراست کا بدترین فقدان اور آ بیل مجھے مار جیسی احمقانہ حرکت نہیں تھی -بیشک تمام شہریوں کی طرح مسلمانوں کو بھی احتجاج کرنے کا قانونی اور آئینی حق ہے لیکن یہ حق کیسے استعمال کرنا ہے، اس کا فیصلہ ملک کے سیاسی اور سماجی ماحول کو دیکھ کر ہی کیا جانا چاہیے تھا۔نوپور شرما کے بدبختانہ بیان کے فوری بعد ملک میں جگہ جگہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے اعلیٰ پولیس افسروں کو درخواستیں دی گئیں، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب ایف آئی آر نہیں درج ہو رہی تھی تو عدالت میں استغاثہ دائر کرکے یہ رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی جاتی۔ اسی دوران یہ خبر آگئی کہ نوپور کے خلاف ممبئی پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی ہے اور اسے22جون کو حاضر ہونے کے لیے سمن بھیجا جا چکا ہے۔ ممبئی پولیس کی کارروائی کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی دوران نوپور کی بدزبانی کے خلاف عالمی رد عمل سامنے آنے لگا، شاید پہلی بار سعودی عرب سے لے کر انڈونیشیا تک نے سرکاری سطح پر حکومت ہند سے احتجاج درج کرایا اور اپنے ملکوں میں تعینات ہندوستانی سفیروں کو طلب کر کے ناراضگی ظاہر کی۔ صرف مودی کے دور حکومت میں ہی نہیں بلکہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں عالمی سطح پر ہندوستان کی ایسی کرکری کبھی نہیں ہوئی تھی، مجبوری میں نوپور اور نوین جندل کے خلاف کارروائی کرتے ہوے ان کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا پھر گزشتہ جمعہ کو کانپور میں احتجاج ہوا جس میں پتھراؤ ہوا اور پھر یوگی سرکار کو وہ سب کرنے کا موقع مل گیا جس کا ’نیوتہ‘خود مسلمانوں نے ہی دیا تھا۔ درجنوں بے گناہ جیلوں میں ٹھونسے گئے، ان پر سخت ترین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے جلد ضمانت کے امکان معدوم کر دیے گئے اور بہتوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا گیا یعنی اگر اس گھر کا ایک فرد بھی احتجاج میں شامل تھا تو پورا گھر بزرگ، بچے، عورتیں بے گھر کر دی گئیں، انصاف کا یہ ایک نیا نظام مسلمانوں کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
اور پھر آیا دوسرا جمعہ اور پورے ہندوستان میں جیسے نماز جمعہ کے بعد کسی نے صور پھونک دیا ہو، مسجد سے نکل کر سڑک پر احتجاج شروع ہوا، پتھراؤ ہوا، جھارکھنڈ میں پولیس کے ایک سپاہی نے سیدھے گولی چلا کر دو نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بنگال میں بھی زبردست احتجاج ہوا اور پھر یوگی جی کے اشارے پر اتر پردیش پولیس نے وہ سب کچھ کیا جس سے سنگھیوں کے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے اور جس کا ایک نمونہ اجیت انجم نے اپنے یو ٹیوب چینل میں دکھایا ہے۔ اترپردیش میں اب تک ایک ہزار سے زیادہ گرفتاریاں ہو چکی ہیں، سب پر این ایس اے لگانے کا یوگی جی نے حکم دے دیا ہے۔ گرفتار شدگان کے مکانوں کے کاغذات جانچے جا رہے ہیں، بلڈوزر تیار ہیں، کاغذ میں کوئی بھی کمی ملی اور مکان زمین دوز ہو جائے گا۔ کانپور میں یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔
یہاں یہ ایک بڑا سوال اٹھتا ہے کہ ملک میں کون ایسی بااثر مسلم تنظیم یا تیس مار خاں مسلم لیڈر ہے جس کی ایک اپیل پر ایسا ملک گیراحتجاج ہو جائے۔ کسی تنظیم،کسی لیڈر نے بظاہر ایسی کوئی اپیل بھی نہیں کی تھی۔جامع مسجد دہلی کے امام سید احمد بخاری نے بتایا کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ نماز کے بعد احتجاج ہوگا ۔ایسے ہی جن مساجد کے باہر احتجاج ہوا، ان کے پیش اماموں نے بھی احتجاج کی کوئی بات ہی نہیں کہی تھی، اپیل کرنا تو دور کی بات۔ پھر یہ کیسے ہوا؟ اس کی جانچ سب سے پہلے ہونی چاہیے، لیکن ہوگی نہیں کیونکہ اسے پوشیدہ رکھنا ہی مصلحت نہیں ضرورت ہے۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاج میں ہمارے جیسے ہزاروں لوگ ان کی عیاری، سازش اور حکمت عملی دیکھ چکے ہیں۔جس مظاہرہ میں شرکت کے لیے جگہ جگہ تلاشی دے کر ہی آگے بڑھا جا سکتا تھا، چپہ چپہ پر پولیس تعینات رہی ہو، شاید ایک کنکری لے کر بھی چلنا نا ممکن ہو اور جو مظاہرہ صبح سے شام تک پر امن چل رہا ہو، وہاں اچانک بھیڑ میں ڈھیروں پتھر کہاں سے آ گئے اور جب پتھراؤ کر رہی ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدف جعفر نام کی خاتون اور کانگریس کی کارکن نے وہاں موجود پولیس والے سے اس کو پکڑنے کو کہا تو وہ پتھر باز تو بھا گ نکلا، صدف جعفر کو مہینوں جیل میں گزارنے پڑے۔یہ اشارہ کافی ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ جمعہ کے اس مظاہرہ کو کیسے پر تشد د بنا کے اپنا مقصدپورا کیا گیا۔ جس بات کو لے کر عالمی برادری مودی حکومت کے خلاف ہوگئی تھی، اندرون ملک بھی اس کا رد عمل پارٹی کے لیے نقصان دہ تھا، اسے چشم زدن میں کیا سے کیا کر دیا گیا۔
مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا دشمن بہت شاطر اور عیار تو ہے ہی، اس کے پاس جان لینے اور جان دینے کا جذبہ رکھنے والے کارکن ہیں، بے انتہا وسائل بہترین منصوبہ بندی کرنے والے دماغ ہیں، ان کی عیاری کے سامنے جنگ آزادی سے تپ کر نکلنے اور ملک پر ساٹھ ستر برس تک حکومت کرنے والی کانگریس پانی مانگ رہی ہے، اپنا وجود بچانے کی لڑائی لڑ رہی ہے پھر آ پ کی کیا اوقات؟ آپ کے پاس تو محض جذبات کے سوا کچھ بھی نہیں اور مضبوط قیادت کا فقدان ہے، آپ ان سے کیسے پار پائیںگے ؟آئیے طے کیجیے کہ اب کوئی احتجاج سڑک پر نہیں کریں گے، عدالتوں سے نا امیدی کے باوجود اپنی لڑائی عدالتوں میں ہی لڑیں گے جو گرفتار ہوئے ہیں، ان کو بھر پور قانونی مدد پہنچائی جائے جیسا کہ ہمارے نوجوان وکیلوں نے شہریت ترمیمی قانون کے احتجاج میں گرفتار لوگوں کے لیے کیا تھا۔ سب سے بڑی بات بلڈوزر انصاف کے طریقے کو روکنے کے لیے کوئی راستہ نکا لا جائے جو سپریم کورٹ سے ہی ممکن ہے۔ جذباتی سیاست کی بہت بڑی قیمت ہم ادا کر چکے ہیں، اب اس سے گریز کریں۔ مشتعل جذبات پر قابورکھیں اور فہم وفراست، تدبر، دوراندیشی کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ سب سے بڑی اور ضروری بات کہ جس سیاست نے ہمیں یوں خانماں برباد کیا ہے، اس سیاست کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی عقل، اپنی فہم اور اپنے وسائل لگائیں۔ہمیں اپنا مسیحا الگاؤ نہیں اتحاد میں ہی ملے گا۔ تقسیم وطن اور اس سے پہلے کی سیاست ہمیں تقسیم جیسے زخم ہی دے گی۔تھوڑا لکھا بہت سمجھنا:
تیرے مہرے پٹ رہے ہیں تیری مات ہو رہی ہے
ذرا رخ بدل دے ناداں تیرے ہاتھ میں ہے بازی
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS