لپٹوں پر پانی ڈالنے سے آگ نہیں بجھے گی

0

انجینئر خالد رشید علیگ

ملک میں نفرت کی چنگاریاں ہر روز نئی آگ بھڑکا رہی ہیں اور یہ آگ ہر دن کسی نہ کسی بستی کو نگل جانے کی کوشش میں رہتی ہے، لیکن سیاسی پارٹیاں اور گودی میڈیا مل کر اس آگ میں اور تیل ڈال دیتی ہیں بنا اس بات کی پرواہ کیے کہ یہ آگ ملک کی سالمیت، بھائی چارہ گنگا جنمی تہذیب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو جلا کر راکھ کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر رہی ہے۔ بابری مسجد تنارع کے وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مسئلہ حل ہو جانے کے ساتھ نفرت کی وہ آگ بجھ جائے گی جس نے پورے ملک کو کئی دہائیوں سے لپیٹے میں لے رکھا تھا۔ ملک کے سیکولر لوگوں کی ایک بڑی جماعت جس میں ہندؤں کی کثیر تعداد شامل تھی، آئین کا حوالہ دے کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی اور انہیں یقین دلایا کہ ملک میں آئین کی بالا د ستی ہے اور رہے گی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ غنڈے جو 6 دسمبر کو بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھ گئے تھے۔ یہ در حقیقت ملک کے آئین کے سینے پر چڑھے ہیں جن کو ان کے کیے کی سزا یقینا قانون دے گا۔ ان کو سزا تو کیا ملتی بلکہ وہ لوگ جو اس غیرآئینی جرم میں ملوث تھے وہ ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئے۔ بہر حال وہ ایک الگ داستان ہے جس سے ملک واقف ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اس وقت ملک کے خوش فہم سیکولر حضرات کہا کرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جن کو ملک کے آئین میں بھروسہ نہیں ہے جلد ہی ان کو اپنے کئے کی سزا قانون دے گا لیکن یہ مٹھی بھر غیر آئینی ذہنیت رکھنے والے لوگ ملک کو اپنا پیغام دینے میں بالکل اسی طرح کامیاب ہو گئے جیسے 1949 میں باپو کے سینے میں بندوق کی گولیاں اتار دیا تھا۔ ان کا پیغام واضح تھا اور وہ یہ کہنے میں کامیاب ہو چکے تھے کہ ملک میں سیکولر نظام ان کو کسی صورت منظور نہیں لیکن ملک کے سیکولر حضرات اس وقت بھی خاموش تماشائی بنے رہے اور بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھی تماشائی ہی ثابت ہوئے اور جو دوچار آوازیں اٹھیں وہ بھی فرقہ پرستی کے شور میں گم ہو گئیں۔ مسلمانوں کی ملی تنظیمیں اور نام نہاد قیادت بھی یہ سوچ کر خاموش ہو گئی کہ عدالت ان کے زخموں پہ مرحم لگا دے گی اور ملک میں دستور کی بالا دستی قائم ہو جائے گی۔ پھر نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی ایک بنچ نے فیصلہ سنایا۔ مسلمان فیصلہ سے متفق نہ ہونے کے باوجود خاموش ہو گئے کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ اب ملک کی فضاؤں میں پھر سے یکجہتی کے گلاب مہکنے لگیں گے پھر سے گنگا جمنا میں فرقہ وارانہ آلودہ پانی کی جگہ ہندو مسلم اتحاد کا شہد بہنے لگے گا، لیکن اس کے بعد تو جیسے غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکتوں کا سیلاب آگیا۔ CAA، تین طلاق، NRC، موب لنچنگ، لو جہاد، حلال اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں، یکساں سول کودڈ، اذان وغیرہ وغیرہ اور آج بھی سیکولر لوگ ملک کو یہی سمجھانے میں لگے ہیں کہ یہ مٹھی بھر لوگوں کا ایک جھنڈ ہے جو ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، لیکن فرقہ پرستوں کا یہ سفر ہر روز کامیابی کے نئے سنگ میل عبور کرتا جارہا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ یہ سب سیاسی پینترے ہیں جن کا مقصد الیکشن جیتنے تک محدود ہے کسی کے خیال میں حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے حالانکہ ان لوگوں کا اصل مقصد کیا ہے اور یہ لوگ ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس کا بھی اندازہ لگانا بہت مشکل کام نہیں ہے اور موجودہ اذان تنازع سے لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی بابری مسجد کے زخم بھرے نہیں تھے کہ کاشی متھرا یاد آنے لگے کیا اس بات کی گارنٹی کسی کے پاس ہے کہ کاشی پہنچنے کے بعد یہ آگ بجھ جائے گی اگر آگ کو بجھانا ہے تو پہلے تو آگ لگانے والوں کے اصل مقصد کا پتہ لگانا ہوگا اس کے بعد ہی اسے بجھانے کی کوئی تدبیر ممکن ہے۔ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کے اس طوفان کو انتخاب جیتنے یا دوسرے مدعوں سے توجہ ہٹا نے تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے اصل مقصد کی نشان دہی کرکے کوئی مستقل لائحہ عمل بنایا جائے۔ملک کے سب خیر خواہوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کوڑے کو قالین کے نیچے چھپا دینا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا یہ سوچ لینا کہ مسائل پیدا کرنے والے یہ لوگ چند گمراہ شہری ہیں جو بنا کسی خاص مقصد کے گلی گلی تلواریں لہراتے گھوم رہے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کے لیے دھرم سنسدوں کا انعقاد کر رہے ہیں، کاشی متھرا کے بعد تاج محل اور قطب مینار کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شہروں اور شاہراہوں کے نام تبدیل کرنے کی مانگ کر رہے ہیں، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لہرا رہے ہیں، شہرشہربلڈوزر گھما رہے ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس غلط فہمی میں مبتلا رہنا کہ یہ کچھ غیر قانونی عناصر کا ایک گروہ ہے ایک سنگین غلطی کے مترادف ہوگا۔یہ تمام سنگ میل اسی سفر کے ہیں جس کی منزل مقصود وہ اندھیری سرنگ ہے جو ملک کو بربادی کے غارمیں لے جا رہی ہے اگر یہ سب کچھ شر پسند لوگ بنا حکومت کی شہ اور رضامندی کے انجام دے رہے ہیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان شرپسندوں کے عزائم کا پتہ لگا کر ان کے ارادوںکو ناکام کرے اور اگر یہ سب کسی منصوبہ کے تحت کیا جا رہا ہے تو ملک کی جمہوریت پسند عوام کو ان غیر جمہوری آئین مخالف طاقتوںکے خلاف ایک متحدہ محاظ بنا کر آنے والے خطرہ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان عناصر کو مٹھی بھر شرپسند کہہ کر نظر انداز کر دینا اور زبانی مذمت کر کے یہ سوچ لینا کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا ایسا ہی ہوگا جیسے آگ بجھانے کی لئے اس کی لپٹوں پہ پانی ڈالنا ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS