منقسم سماج، منقسم انصاف

0

ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار دینے کے سوال پر دہلی ہائی کورٹ کے منقسم فیصلے نے شادی میں جسمانی رشتوں کے لئے رضامندی کی خلاف ورزی کو قانونی تحفظ دینے سے جڑے تنازع کو نئے سرے سے ہوا دے دی ہے۔ تنازع کے ایک فریق کی بنیاد عصمت دری جیسے سنگین جرم کو رشتوں کی ’دیوار‘ کھڑی کئے بغیر ہر قیمت پر سزا دینا ہے، تو دوسرے فریق کی دلیل شادی جیسے نازک رشتے کو کسی بھی ممکنہ استحصال سے حتی الامکان تحفظ فراہم کرنا ہے۔
گزشتہ بدھ کو آئے فیصلے میںبنچ کی قیادت کرنے والے جسٹس راجیو شک دھر نے تنازع کی جڑ سمجھی جانے والی آئی پی سی کی دفعہ 375کے استثنیٰ کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ 18سال یا اس سے زیادہ عمر کے آدمی کے ذریعہ اپنی بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق بنانا عصمت دری نہیں ہے، بھلے ہی یہ اس کی مرضی کے بغیر ہو۔ دوسری طرف بنچ کے دوسرے رکن جسٹس سی ہری شنکر نے موجودہ قانون میں کسی بھی تبدیلی کو مقننہ کا اختیار اور اس کے لئے سماجی، ثقافتی اور قانونی پہلوئوں پر غور کی ضرورت بتاتے ہوئے ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار دینے کی عرضی خارج کردی۔ غیر متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے بھی عدالت نے عرضی گزاروں کے انصاف کے حق کو محفوظ رکھتے ہوئے اوپری عدالت میں جانے کی آزادی پر روک نہیں لگائی ہے۔ ایسے میں اب اس معاملے کی سماعت یا تو ہائی کورٹ کی بڑی بنچ کرے گی یا پھر معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ اس معاملے میں دونوں عزت مآب ججزدر اصل بڑے پیمانے پر ایک منقسم ہندوستانی سماج کی ہی نمائندگی کررہے ہیں۔ ازدواجی عصمت دری کو جرم کے زمرے میں لانے والی رائے رضامندی کے فقدان کو عصمت دری ہونے کی اہم بنیاد مانتی ہے۔ اس کے مطابق جس کی قانون میں عصمت دری کی صورت میں تعریف کی گئی ہے، اسے اسی صورت میں قبول کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شادی کے اندر ہو یا باہر۔ دفعہ کے استثنیٰ کا التزام نہ صرف قانون کے سامنے برابری کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے، بلکہ خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر بنائے گئے جسمانی رشتے کے خلاف آواز اٹھانے کے حق سے بھی محروم کرتا ہے۔ میاں بیوی کو امور خانہ داری کے دو پہیے بتانے والے ہندوستانی تصور میں بھی یہ فٹ نہیں بیٹھتا۔
دوسری رائے میں پورا زور ہی اس ازدواجی رشتے کو تحفظ فراہم کرنے پر ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قانون کی مخالفت کرتا ہے ، جس سے اس رشتے میں مداخلت کا اندیشہ ہو۔ ہندوستانی تناظر میں شادی کو 7جنموں کے ایسے پاک رشتے کا درجہ حاصل ہے، جس میں شامل ہونے کے بعد بیوی اپنا سب کچھ شوہر کو سونپ دیتی ہے۔ شادی دونوں فریقو ںکے لئے سماجی- اقتصادی حقوق اور ذمہ داریوں کی ایک لمبی- چوڑی فہرست لے کر آتی ہے۔ میاں بیوی کے بیچ جسمانی تعلق کے لئے رضامندی اس فہرست میں خود بخودمضمر مانی جاتی ہے۔ اجنبیوں کے بیچ جسمانی رشتہ جہاں ایک خاتون کی مرضی کی خلاف ورزی ہوتا ہے اور ایک شادی شدہ جوڑے کے بیچ جسمانی رشتہ کا موازنہ یکساں پیمانے پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی مخصوص قانون ایک خاتون کو یہ الزام لگانے کا موقع دیتا ہے کہ اس کے شوہر کے ذریعہ اس کی واضح رضامندی کے بغیر جسمانی رشتے بنائے گئے ہیں تو یہ ایک ایسا دروازہ کھول دیتا ہے جہاں شادی کا نازک رشتہ استحصال کے نظریے سے غیر محفوظ ہوجاتا ہے، ایکسپوز ہوجاتا ہے۔ ایک دلیل یہ بھی جڑتی ہے کہ اگر شادی میں کسی بھی صورت میں تشدد یا ٹارچر، ذہنی، جسمانی، جنسی، اقتصادی یا جذباتی استحصال شامل ہے تو متاثرہ فریق کے پاس پہلے سے ہی قانونی مدد لینے اور قانون کے تحت علاج حاصل کرنے کا متبادل ہے۔ گھریلو تشددایکٹ (2005)جنسی استحصال کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ایسے میں کسی نئے یا مخصوص قانون کی کیا ضرورت ہے؟ اگست 2017میں دہلی ہائی کورٹ کے سامنے داخل ایک حلف نامے میں مرکزی حکومت نے بھی کہا تھا کہ ازدواجی عصمت دری کو آئی پی سی کے تحت جرم کے طور پر نہیں جوڑا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ شادی کے رشتہ کو غیر مستحکم اور شوہروں کو بے وجہ پریشان کرنے کا آسان ذریعہ بن سکتا ہے۔ جس ملک میں آج بھی کروا چوتھ کو شادی شدہ خواتین اور داماد کی مہمان نوازی کو بیٹی کے کنبے کی خوش قسمتی کی شکل میں تسلیم کیاجاتا ہے، وہاں سرکار کی اس دلیل کو ’پسماندہ سوچ‘ بتاکر خارج کئے جانے کے خطرے بھی کم نہیں ہیں۔ پتی ورتا، ستی-ساوتری، ’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک خاتون‘ جیسے تصورات نہ صرف ہمارے سماجی – مذہبی- ثقافتی اقدارمیں پیوست ہیں، بلکہ کئی جگہ پر تو خود خواتین ہی اسے سگرو چرترسرٹیفکیٹ کی طرح پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس مسئلے پر عدالت سے لے کر سرکار اور عام لوگوں کے ابہام کی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے- 5کے نتائج سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ سروے میں شامل ہر 5میں سے ایک خاتون کو لگتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کو جسمانی رشتہ بنانے سے منع کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح 34فیصد یعنی ہر 3میں سے ایک مرد کو یہ ناگوار گزرتا ہے کہ تھکے ہونے کے باوجود اس کی بیوی جسمانی رشتہ بنانے کی اس کی پہل کو مسترد کردے۔ بات اتنی ہی نہیں ہے۔ سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ہر تیسری ہندوستانی خاتون نے شادی میں جسمانی یا جنسی تشد دکا تجربہ کیا ہے۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ان میں سے 77فیصد نے کبھی مدد نہیں مانگی اور نہ ہی کسی کو اس کے بارے میں بتایا۔ اس خاموشی کی وجہ تلاش کرنا کوئی دور کی کوڑی نہیں ہے۔ ایسا تشدد اور اس کی حمایت ہمارے سماج اور کنبے کی تشکیل میں مضمر ہے۔ 30فیصد سے زیادہ خواتین نے اپنے پارٹنر کی پٹائی کو صحیح ٹھہرایا۔ شوہر کے تشدد کو معقول بتانے والی خواتین کی یہ چونکا دینے والی تعداد پدرانہ حاکمیت کی گہری جڑوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ صرف مٹھی بھر خواتین اس کی مخالفت میں کھڑی ہوپاتی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر کو ایسے معاملوں میں ان کی مدد کرنے کے لئے قائم اداروں کی بے حسی جھیلنی پڑتی ہے۔ عام طو رپر ایسے حالات میں سب سے پہلے خواتین مدد کے لئے پولیس کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں، لیکن وہاں بھی 10میں سے صرف ایک خاتون کی شنوائی ہوپاتی ہے۔ دہلی میں 2012میں ہوئے بے رحمانہ نربھیا عصمت دری معاملے کے بعد بنی جسٹس ورما کمیٹی نے بھی آئی پی سی کی دفعہ 375کے تحت ازدواجی عصمت دری کو ملی چھوٹ کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن 10سال بعد ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایسے معاملوں پر قانونی آراء میں کتنا تضاد ہے۔ وسیع سماجی بدلائو کی امید اور خواتین تحفظ اور خود اختیاری کو لے کر بڑے بڑے وعدے کرتے ہوئے سرکاریں بدل گئیں، لیکن خواتین کے تحفظ کی تصویر نہیں بدلی۔ یہی وجہ ہے کہ وقت وقت پر ہم ایک عصمت دری متاثرہ بیوی کو عدالت میں کھڑی دیکھتے ہیں، جہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ عصمت دری قانون میں استثنیٰ کو اس سے پوچھے جانے بغیر اس کی رضامندی مان لیا گیا ہے اور اس طرح اس کے شوہر کو عصمت دری کے مقدمے سے چھوٹ مل جاتی ہے۔ ان دلیلوں کے بیچ خواتین کو ہمارے آئین سے ملے بنیادی حقوق کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ شادی کے بعد جسمانی رشتوں میں کلائمکس سے لے کر اس کے حاملہ ہونے یا زچگی کے حق کون طے کرتا ہے؟
شادی کے سبب خواتین سے جسمانی رشتوں میں برابری اور اپنے جسم کو لے کر آزادی کا حق کیوں چھن جاتا ہے؟ ایسے تمام سوالوں پر ایک رائے نہیں بن پانے کے سبب ہی ہندوستان ابھی بھی دنیا کے ان ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک میں جگہ نہیں بنا پایا ہے جہاں ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ اس ایشو پر اخلاقی رخ کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن بات یہ ہے کہ جب ہم میاں او ربیوی کے بیچ ایک شادی کے اندر مبینہ جبری جسمانی رشتہ کی مثالوں کے لئے ایک مخصوص قانون کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہ اتنا آسان نہیں رہ جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جنسی تشدد کی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے اور شادی کے رشتہ کا بھی اس سے استثنیٰ نہیں ہے، لیکن ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار دینے کے لئے قانونی راستہ کتنا مناسب ہے یہ غور طلب ہوسکتا ہے۔ ’یترناریستو پوجینتے، رمنتے تتر دیوتا‘ والی سوچ رکھنے والے ملک میں اگر اس سوال کا جواب سماج سے بھی نکل کر آئے تو اس کی قبولیت اور زیادہ مستحکم اور زیادہ مؤثر ہوگی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS