کسانوںکی حالت زار

0

ملک میںکسانوںبالخصوص پیاز کی کاشت کرنے والے کسانوںکے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ملک میں کم و بیش40فیصد پیاز کی پیداوار کرنے والی ریاست مہاراشٹر میں سرکارکی تبدیلی میں8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، تاہم اس عرصہ کے دوران کسانوں کے حالات میں کوئی بہتری رونما نہیں ہوئی ہے، جو مسائل پہلے تھے، وہی اب بھی ہیں، بلکہ پیاز کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کے سبب مسائل پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوگئے ہیں۔ ریاستی حکومت کے حالیہ پیش کردہ بجٹ میں کسانوںکے لیے کچھ مراعات کا اعلان ضرور کیا گیا ہے، لیکن ان مراعات کا حال بھی وعدہ فردا کا سا ہے، جس سے سردست کوئی سبیل نکلتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال اور فصلوںکی نامناسب قیمتوںکے سبب4برس کے بعد ایک بار پھر ناسک اور اس کے اطراف سے کسانوںکا ایک قافلہ17 نکاتی مطالبات کے ساتھ پیدل ملک کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی کی طرف بڑھا چلا جارہا ہے۔ ہاتھوں میں سرخ پرچم اٹھائے ان کسانوںکی تعداد ہزاروں میں ہے۔ لہلہاتے کھلیانوں کے امین کسان ایک بار پھر کھیتوںکے بجائے شاہراہوں پر آبلہ پائی کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
مہاراشٹر میں پیاز کی کاشت کرنے والے کسانوںکے مسائل ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی نگاہ میں اس وقت آئے جب سولا پور ضلع کے کاشت کار راجیش تکارام چوان کو سولا پور اے پی ایم سی میں512کلو پیاز فروخت کرنے پر محض 2روپے کا ایک پوسٹ ڈیٹیڈ چیک موصول ہوا تھا، یعنی کسان وہ2روپے بھی فوری طور پر نہیں بلکہ15دنوںکے بعدحاصل کرسکتا ہے۔ خبروںکے مطابق512کلو پیاز سولا پور اے پی ایم سی تک پہنچانے کیلئے کاشت کار کو70کلو میٹر کا فیصلہ طے کرنا پڑا تھا، جہاں اس سے ایک روپے فی کلو کے نرخ سے512کلو پیازخریدی گئی تھی۔ اس پیازکو بازار تک پہنچانے کیلئے کسان نے510روپے خرچ کیے تھے، جس کے بعد اسے صرف2روپے کا چیک ادا کیا گیا تھا۔ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور کہ کسان کو2روپے نقد دینے کے بجائے چیک دینے کی وجہ ڈجیٹلائزیشن بتائی گئی تھی۔ اس واقعہ کی میڈیا کے ساتھ مہاراشٹر اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں بھی گونج ہوئی تھی،شاید یہی وجہ تھی کہ ریاستی حکومت نے5 لاکھ کروڑ سے زائد کے بجٹ میں کسانوںکیلئے مختلف مراعات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس میںفوری راحت کی کمی تھی جس کے بعد فی کوئنٹل پیاز کی پیداوار پر کسانوںکو 300روپے کا ایکس گریشیا دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم سوال اب بھی موجود ہے۔ کیا مرکزی اور ریاستی حکومت کی جانب سے سالانہ 6-6ہزار روپے کی امداد اور فی کوئنٹل پیاز کی پیداوار پر300روپے کے ایکس گریشیا کو کسانوں کے مسائل کا مستقل حل تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ شاید اس کا جواب نہیں میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ میں مراعات اور ایکس گریشیا کے اعلان کے باوجود10ہزار سے زائد کسان ناسک-ممبئی شاہراہ پر ممبئی کی جانب بڑھے چلے آرہے ہیں۔وہ پیاز کی برآمد پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ فی کوئنٹل قیمت میں اضافے کامطالبہ کررہے ہیں۔ وہ بے موسم بارش اور قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کیلئے خیرات نہیں بلکہ باعزت معاوضہ کی ادائیگی کے متقاضی ہیں۔ وہ قرض کی مکمل معافی، بقایہ بجلی بلوںکی معافی اور12گھنٹے بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ان مطالبات کے جواب میں ریاستی حکومت انہیں سالانہ6 ہزار روپے کی امداد اور فی کوئنٹل پیاز کی پیداوار پر300روپے ادا کرنے کا اعلان کررہی ہے۔
کسانوںکے مطالبات میںبرآمدکی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ اہم ہے۔برآمد پالیسی میں سدھار کے ساتھ کسانوں خاص طور پر پیاز کی کاشت کرنے والے کسانوں کے مسائل میں بڑی حدتک کمی لائی جاسکتی ہے۔جس روز سولاپور اے پی ایم سی میں راجیش تکارام چوان سے 512کلو پیاز محض 512 روپے میں خریدی گئی تھی، اس روز ملک کے قومی دارالحکومت میں فی کلو پیاز کی ریٹیل قیمت 40 سے45روپے کے آس پاس تھی۔ مزید حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ اس روز پڑوسی ملک پاکستان میں فی کلو پیاز220سے250 روپے میںفروخت ہورہی تھی جو ہندوستانی کرنسی کے مطابق64 سے75روپے کے درمیان بنتے ہیں۔ کاشتکاروں کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کی غیر موثر برآمد پالیسی اور ضرورت سے زیادہ پیداوار کے سبب پیاز کی قیمتوں میںگراوٹ درج کی گئی ہے۔ گئے وقتوں میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کیلئے پیاز کا سب سے بڑا سپلائر تھا، لیکن پالیسیوںمیں تبدیلی اور سرحدوں پر کشیدگی کے سبب پاکستان اور بنگلہ دیش نے ایران سے پیاز خریدنے کو ترجیح دینا پسند کیا تھا۔ کیا برآمد پالیسی میں تبدیلیوں کے اور پڑوسیوں سے بہتر تجارتی تعلقات اختیار کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو ارباب حل و ا قتدار ہی دے سکتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS