کیامغربی ایشیا سے غیر ملکی افواج کا انخلاء ممکن ہے ؟

0

عراق کی سرزمین پر 20سال پہلے جو بموں کی بارش کی گئی تھی اس کے اثرات ابھی تک محسوس کیے جار ہے ہیں۔ یہ ملک اپنی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسی حملے اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ابھی بھی جھوجھ رہا ہے۔ صدام حسین کی مرے ہوئے مدت ہوگئی مگر ابھی تک عراق میں امریکہ کا مشن Operation Freedam شاید ختم نہیں ہوا ہے۔ جیسا کہ قارئین کو پتہ ہوگا کہ جب عراق پر حملہ کیا گیا تھا تو اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے فوجی گٹھ جوڑ نے اس فوجی کارروائی کو آپریشن فریڈم کہا تھا مگر 20سال کے گزرنے کے باوجود امریکہ نے جو خواب عراق اور قرب وجوار کے ممالک کو دکھایا تھا وہ اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ یہ ملک آج بھی فاقہ کشی ، خانہ جنگی اور برادر کشی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اگرچہ خوش آیند بات یہ ہے کہ عراق میں ایک نمائندہ صدق دلی کے ساتھ قیام میں مصروف ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان جہاں امریکہ پر دہشت گردانہ حملے کا مجرم روپوش تھا اور جو اس قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے براہ راست ذمہ دار تھا۔ آج اس ملک سے امریکی افواج اور اس کے فوجی حلیف بوریا بستر لپیٹ کر جا چکے ہیں مگر عراق نے ابھی تک امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عراق میں ابھی بھی ڈھائی ہزار فوجی بغداد اور شمالی علاقوں میں موجود ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر براک حسین اوبامہ نے قاہرہ یونیورسٹی میں اپنے ولولہ انگیز خطاب کے دوران امریکی فوجی کارروائیوں کی یہ کہہ کر حمایت کی تھی کہ ان کا مقصد اپنی خود کی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ذمہ دار افراد یعنی اسامہ بن لادن اور ان کے حواریوں کو کیفر کردار تک پہنچاناتھا۔
انہوںنے اپنے خطاب میں بہت واضح اندازمیں وضاحت کی تھی کہ ان کا ملک اسلام اور یا مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار نہیں ہے۔ براک حسین اسامہ جن کے لیے اہل اسلام بطور خاص مغربی ایشیا کے وغیرہ کے لوگ نرم گوشہ رکھتے تھے کسی حد تک براک ابامہ کے انداز گفتگو سے متاثر ہوئے تھے اور اب تک جو تہذیبی ٹکرائو کے فارمولے پیش کیے جار ہے تھے ان پر بحث ومباحثے موقف ہوئے۔ بہر کیف افغانستان کے جو فوجی کارروائیاں ہوئی تھیں اس کے لیے وہ کسی حد تک حق بنجانب تھے مگر یہ بات بھی اپنی درست ہے کہ ان کارروائیو ںکے دوران ناٹو ممالک کو حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وہ عام افغان شہری کو نشانہ نہ بناتے ۔ اندھا دھن فوجی کارروائیوں میں عام لوگوں کا جان مالی نقصان ہوا اور ملا عمر کی بدبختانہ پالیسیوں کے خلاف غصہ ہونے کی بجائے طالبان سے ہمدردی پیدا ہوئی اور آج افغانستان طالبان کی جاہلانہ پالیسیوں کا شکار ہوگیا ہے اور آج افغانستان میں طالبان اقتدار میں ہے۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدام حسین ایک مطلق العنان ظالم وجابر حکمراں تھے ان کی فوجی کارروائیوںنے کافی حد تک خطے کے امن امان کو متاثر کیا وہ اپنے آپ کو عالم اسلام کا ہیرو بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان کی یہ ذاتی خواہش اس ملک کو اس مقام لے کر آئی ہے اس کا اندازہ آج کی صورت حال سے لگا یا جاسکتا ہے۔ یہ ایک زمانے کا ترقی یافتہ ملک عراق آج بدترین بربادی کو جھیل رہاہے۔ عام آدمی کو کھانے کے لیے روٹی اور پینے کو پانی میسر نہیں ہے۔ غیر ملکی افواج اس خوشحال اور معدنی وسائل سے مالا مال ملک نے خیمہ زن ہے اور اس کو چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
آج یہ ملک غیر ملکی افواج دہشت گرد تنظیموں اور فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکہ جو کہ آج عراق میں خوشحالی اور ترقی کے خواب دکھا رہا ہے ان کی خود کی فوجیں مختلف مقامات پر تعینات ہیں۔ 20سال کے مدت گزرنے کے بعد آج بھی امریکہ عراق چھوڑنے پر تیار نہیںہے۔ اگرچہ عراق میں آج ایک جمہوری طورپر منتخب اور تمام فرقوں اور طبقات کی ایک نمائندہ حکومت ہے۔ مگر اس کے باوجود ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کرنا ممکن نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ تین لاکھ بڑی آبادی کا گزشتہ دو دہائیوں میں لقمہ اجل بن چکی ہیں۔
عراق کا پورانتظام نیست ونابود ہو گیا ہے۔ آبادی کی آبادی کا تناسب گھٹا ہے جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں ان کے لیے بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ وسائل توہیں مگران کو کس طریقے سے عوام کے فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیے جائیں اس کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے کہ عراق اور قرب وجوار کے خود عوام اس خانہ جنگی اور تباہی سے عاجز آچکے ہیں اورامن چاہتے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم الشیعہ السو سوڈانی کی قیادت والی حکومت کوشش کررہی ہے کہ خطے کے بااثر ممالک کے ساتھ ملک کر یہاں کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے اقدام کیے جائیں۔ اس سلسلہ میں یو این او کے سکریٹری کونسل کے ایک مستقل ممبر فرانس نے غیر معمولی دلچسپی دکھائی ہے۔ فرانس ، اردن اور مصر وغیرہ نے تعمیراتی پروجیکٹوں کو صحیح طور پر عملی جامہ پہنانے کے لیے صلاح ومشورہ کرنا شروع کردیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ ممالک دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس جنگ زدہ ملک کے عوام کو ایک مستحکم سیاسی اور فلاحی ریاست کا انتظام فراہم کر پائیں گے۔ اس طرح باہمی صلاح مشوروں امداد باہمی کی پالیسیوں کے ذریعہ عراق کی تعمیر نو کے پروجیکٹوں کو شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عراق پر کئی ممالک کی نظر ہے۔ عراق میں غیر معمولی وسائل ہیں۔ یہی وسائل دہشت پسند اور فرقہ پرست طاقتوں کی کشش اور توجہ کا مرکز ہے۔ ناپسندیدہ عناصر چاہتے ہیں کہ علاقے کے وسائل کو ہڑپ کر اپنے ناپاک منصوبوں ںکو خطے میں نافذ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ناپسندیدہ اور امن پسند اور صلح پسند عوام ، ممالک اور طاقتوں کے کان کھڑے کردینے والی ہے۔ مفاد پرست اور تشدد پسند عناصر کا وسائل پر قبضہ کرنانہ صرف یہ خطے کے امن وامان کو تباہ کر نے والا ہے بلکہ اس سے پورے دنیا کے استحکام پر بھی اثر پڑے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ امریکہ عراق کے اندر ایک جامع ، جوابدہ جمہوری نظام قائم کرے گا او راپنی فوجی واپس بلا لے گا اور یہاں کے منتخب سرکار کو اس بات کی آزادی دے گا کہ وہ اپنے ملک کی عام کے خواہشات اور ضروریات کے مطابق ایک مستحکم انتظام قائم کرنے کے لیے حالات اور مواقع فراہم کرے گا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS