نفرت سے محبت-ایک عالمی تشویش

0

زین شمسی

اقوام متحدہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف قراردار منظور کرنے کی ایک تجویز رکھی ہے۔ ترقی پسند ممالک کے ہوش مندوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے انتونیو گوئترس کے بیان پر لبیک کہا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف پیدا کی گئی ناپسندیدگی، تعصب اور نفرت کی تشہیر کو روکنے پر سنجیدگی کا اظہار کیا ہے۔ روس،امریکہ، انگلینڈ اور چین نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا گیا اور اس سے بے قصور مسلمانوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی والے ہندوستان کے سفیر نے اس مہم کے خلاف اپنی رائے دی ہے۔ چونکہ بھارت وشو گرو بننے کی تیاری میں ہے، اس لیے اسے نہیں لگتا کہ مسلمانوں کو معصوم اور کمزور سمجھا جائے، سو اس نے اس مہم سے خود کو الگ کر لیا۔ویسے ہندوستان کے اس قدم کی ستائش کرنی چاہیے۔ ہندوستان کے بعد امریکہ اور انگلینڈ کی جانب سے ہی مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ ٹوئٹ کیا جاتا ہے وہاں مسلمانوں سے نفرت روکنے کے لیے امریکہ اور انگلینڈ اپنے آپ کو چمپئن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھارت کم از کم اپنے اسی راشٹر واد پر قائم ہے کہ جہاں ہندو ہونا ہی دیش بھکتی کی علامت ہے۔
ویسے اقوام متحدہ کے ذریعے مختص عالمی دن کا کوئی مقصد یا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ انسداد شراب نوشی ہو یا خواتین کو مضبوط بنانے کی مہم ہو یا پھر بدعنوانی کے خلاف قرارداد۔ یہ سب صرف ایک دن کاپروگرام ہی ثابت ہوا ہے، مگر اسلاموفوبیا کے خلاف قرار داد نے اس بات کوضرور ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ذہن سازی پوری دنیا میں کی گئی۔ نیوزی لینڈ، فرانس، انگلینڈ اور امریکہ مسلسل مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم میں مصروف رہے ہیں۔ بھارت میں انگریزوں سے آزادی کے فوراًبعد تقسیم ہند اس بات کابین ثبوت ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت موجودہ سرکار کے دور سے نہیں بلکہ بہت پہلے کا مزاج رہا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس سرکار میں اس میں شدت محسوس کی جارہی ہے۔
درا صل قوم ابراہیمی یعنی یہود، عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان اپنے اپنے مذاہب کی برتری کے لیے رسہ کشی، لڑائی اور سبقت کی ایک پوری تاریخ رہی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کی جنگیں اور یہودیوں کی سازشیں تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ دنیا لاکھ ترقی کیوں نہ کر جائے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویہ جاری ہی رہے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہود، نصاری اور ہنود ہی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ مسلمان بھی مسلمان سے نفرت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس باہمی نفرت میں شدت کیوں پیدا ہوگئی ہے۔ جب مسلمان بھی مسلکی اور نسلی اعتبار سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو عیسائی، یہودی اور ہنود سے محبت کی آرزو کیوں؟ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں کا ورن نظام برہمنوں کا تسلط قائم کرنے کے لیے بنایا گیا اور اس میں شودروں پر غالب رہنے کا طریقہ اپنایا گیا اور جب جب ادنیٰ طبقہ اعلیٰ طبقہ سے اپنا حق مانے گا، اعلیٰ طبقہ اس لڑائی کو ذات پات سے ہٹا کر مذہب کی طرف موڑ دے گا تاکہ وہ لوگ جو اپنا حق مانگ رہے ہیں اور سماجی اعتبار سے عزت و احترام کے متلاشی ہیں وہ بھی دوسرے مذاہب سے فرضی جنگ میں اعلیٰ طبقہ کا ساتھ دینے لگیں گے۔ یہ بھارت کے حکمراںطبقہ کا پرانا آزمودہ حربہ ہے مگر امریکہ، انگلینڈ اسلامو فوبیا پر گھڑیالی آنسو بہائیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انتونیو گوئترس نے کہا تھاکہ دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب مسلمان آباد ہیں اور وہ اپنے تمام تنوع میں انسانیت کی عکاسی کرتے ہیںتاہم انہیں اکثر محض اپنے عقیدے کی وجہ سے تعصب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ مسلم خواتین کو بھی ان کی جنس، نسل اور عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں مسلمانوں کو ’’اسلامو فوبیا‘‘کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ان کے مطابق سبھی کا اسلامو فوبیا کے خلاف کھڑے ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے ہر کسی کو ’جنونی‘ سمجھنے کے بجائے ’فوبیا‘ کے خاتمے پر اصرار کیا۔ گوئترس نے کہا تھا کہ ’’یہ نسلی قوم پرستی، نونازی سفید فام بالادستی کے نظریات، اور مسلمانوں، یہودیوں، کچھ اقلیتی عیسائی برادریوں سمیت کمزور آبادیوں کو نشانہ بنانے والے تشدد کا ایک حصہ ہے۔ تعصب سبھی کو تباہ کردے گا۔ اس کے خلاف سینہ سپر ہونا سب پر فرض ہے، اس لیے تعصب کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے ایک پلان آف ایکشن پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے سماجی ہم آہنگی میں سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی سرمایہ کاری کو بڑھانے اور انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی نفرت سے نمٹنے کے لیے کام کرنے پر زور دیا۔
دراصل نئی دنیا کاروباری دنیا ہے۔کاروباری دنیا میں نفع و نقصان کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اسلام دنیاوی نفع و نقصان سے بے بہرہ ہے وہ آخرت کی فکر میں مبتلا ہے۔ سودی نظام اور حرام کاری کی فہرست میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صبر وقناعت اس کا شعار ہے۔ اللہ پاک کی مرضی اس کی سمجھ ہے۔ ایسے میں جب دنیا بھر کے لوگ صارف اور سہولت کی جنگ لڑ رہے ہیں، مسلمان آج بھی پرانے خیالات کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر رہے ہیں۔ وہ آج بھی کاروبار کو نئے طریقے سے چلانے کے مخالف ہیں۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک کا دار و مدار شیئر مارکٹس پر ہے، وہاں مسلمان ایل آئی سی کرانے کو بھی حرام نہیں تو کم از کم مکروہ ضرور سمجھتے ہیں۔ بینکوں کے نظام میں ان کی حصہ داری نہیں ہوتی، آج کی دنیا کے لیے وہ ایک آئوٹ ڈیٹیڈ صارف ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی اگر کسی قوم کو ضرورت ہے تو وہ صرف سیاست کے لیے اس کا استعمال۔ نائن الیون کے بعد یہ نسخہ تیر بہ ہدف ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں سماجی طور پر اس کمیونٹی کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا جو سب سے زیادہ دہشت میں ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS