خواتین ریزرویشن بل پھر خبروں میں

0

خواجہ عبدالمنتقم

پارلیمنٹ میں خواتین کو 33فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق بل، جسے راجیہ سبھا نے 9مارچ 2010 کو منظوری دے دی تھی، 1996سے 2023کا 27سالہ طویل سفر کرتے ہوئے ابھی بمشکل تمام راہ سفر کی پہلی منزل تک ہی پہنچا تھا کہ اس کی خراماں چال بھی رک گئی۔ابھی تو یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا جانا باقی ہے۔ اس بل کودونوںایوانوں میں پاس کرانا ضروری ہے اور وہ بھی اسی شکل میں کیونکہ ایسے معاملے میں جوائنٹ سیشن کی اجازت نہیں۔اس بل میں آئین کی دفعہ 330کے بعد330Aاور دفعہ 332کے بعد دفعہ 332Aشامل کرنے کی بات کہی گئی ہے تاکہ اول الذکر کے ذریعہ لوک سبھا میں خواتین کو 33فیصد ریزرویشن دیا جاسکے اور آخرالذکر کے ذریعہ ریاستی اسمبلیوں میںبھی ان کے لیے 33 فیصد نشستیں محفوظ کی جاسکیں۔ اگر کسی بھی ریاست یا یونین علاقے کے تعلق سے محفوظ نشست صرف ایک ہے تو 3لوک سبھا الیکشنوں کے ایک بلاک میں پہلے الیکشن میں یہ نشست درج فہرست ذاتوں/قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ریزرو ہوگی لیکن اس کے بعد 2الیکشنوں میں ان کے لیے کوئی سیٹ ریزرو نہیں ہوگی۔ اگر محفوظ نشستیں 2ہیں تو پہلے 2عام انتخابات میں ایک نشست درج فہرست ذاتوں/قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ریزرو ہوگی البتہ دونوں متذکرہ بالا انتخابات میں خواتین کے لیے وہی حلقۂ انتخاب ریزرو نہیں ہوگااور تیسرے عام انتخاب میں ان زمروں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے کوئی بھی نشست محفوظ نہیں ہوگی۔ان نشستوں کو بھی Rotation کے ذریعے یعنی باری باری سے الاٹ کیا جائے گا۔ اس طرح اس بار الیکشن لڑنے والوں کو اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ وہ آئندہ سال وہاں سے الیکشن لڑسکیں گے یا نہیں۔
اس مجوزہ قانون پر محض نظر طائرانہ ڈالنے سے ہی سب سے پہلی بات جو دماغ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بات تو ہر وقت مساوات مرد و زن کی ہوتی ہے تو خواتین کے لیے50 فیصدکے بجائے 33 فیصد ریزرویشن کیوں؟کون سا پیمانہ یا چشمۂ مساوات ہے جس میں 33 کو 50 فیصد کے برابر سمجھا جائے۔ اقوام متحدہ کی خواتین کے سیاسی حقوق سے متعلق کنونشن، 1952 کی دفعہ 2میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ خواتین ایسے تمام عوامی اداروں کے، جن کے لیے انتخاب کرائے جاتے ہیں، مردوں کی طرح مساوی شرائط پر حصہ لینے کی حقدار ہوںگی۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز ختم کرنے سے متعلق کنونشن، 1979جس کا نفاذ 3ستمبر 1981کو ہوا اور جسے دنیا CEDAWکے نام سے جانتی ہے، کی دفعہ 3میں بھی دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو مساوی سیاسی حقوق عطا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ 33کوبھی مختلف زمروں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں اس طرح نہ بانٹا جائے کہ پہلے سے ہی محروم اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین مزید محرومی کا شکار ہوجائیں اور خواتین کے اس طبقے کو پھر دوسرے طبقوں کی خواتین جو زیادہ مضبوط پریشر گروپ ہیں اس طرح مغلوب کرلیں جس طرح او بی سی ریزرویشن کے معاملے میں مسلمانوں کو دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افرادنے مغلوب کررکھا ہے۔ اگر اقلیتوں کو ان کا کما حقہ حق نہیں ملتا تو وہ اقوام متحدہ کے اقلیتوں سے متعلق 1992کے کنونشن، جس پر خود ہندوستان نے بھی دستخط کیے ہیں، کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو عوامی زندگی میں موثر طور پر حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔
اس مجوزہ قانون کامثبت پہلو یہ ہے کہ یہ خواتین کو کم از کم سیاسی میدان میں بہتر نمائندگی دلانے کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس کی مخالفت کی کوئی معقول وجہ ہی نہیں۔ البتہ اس کی مخالفت اگر اس بنا پر کی جائے کہ تمام طبقات کی خواتین کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے کچھ اور دفعات شامل کی جائیں تو اسے مخالفت برائے مخالفت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
اس بل کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔اس قانون میں یہ التزام ہے کہ روٹیشن کے باعث دو تہائی مرد اور خواتین اپنی اپنی سیٹوں پر قابض نہیں رہیںگے اور ایک تہائی کودوبارہ منتخب ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس مرتبہ الیکشن لڑنے والے کو اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ وہ دوسرا الیکشن یہاں سے لڑپائے گا یا نہیں، اس لیے وہ اپنے حلقۂ انتخاب کے لیے کیے جانے والے کاموں میں اتنی دلچسپی نہیں لے گا جتنی کہ وہ اس صورت حال میں لیتا جب وہ اس بات کے لیے پر امید ہوتا کہ وہ آئندہ بھی اسی حلقۂ انتخاب سے الیکشن لڑے گا۔ اس کے علاوہ آج سیاسی بدعنوانی کو دور کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، اس سے اس عمل کو بھی دھکا پہنچے گا، چونکہ منتخب نمائندہ اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو کچھ وہ کررہا ہے آئندہ ہونے والے انتخاب میں لوگ اس سے اس کا حساب مانگیںگے۔ اب رہی بات مسلم خواتین کے لیے کوٹے میں سے الگ کوٹہ دینے کی۔ اس بات کی نام نہاد پرانی ٹونیشن تھیوری کا حوالہ دیتے ہوئے جو تقسیم ہند کے ساتھ ختم ہوگئی، مخالفت کی جارہی ہے۔ مسلم خواتین کے الگ کوٹے کی بات ان کی پسماندگی اور زمینی حقائق کی روشنی میں کی جارہی ہے نہ کہ مذہب کے تعلق سے چونکہ تمام یقین دہانیوں کے باوجود، جس میں گاندھی جی،پنڈت جواہرلعل نہرو اور مولاناآزاد شامل ہیں جنہوں نے 1947 کے ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کو اسی ملک میں رہنے کے لیے اس یقین دہانی کے ساتھ آمادہ کیا کہ انہیں اس ملک میں بالکل برابر سمجھا جائے گا اور وہ اپنے روشن مستقبل کے بارے میں مکمل طور پر پرامید رہیں، آج بھی مسلمانوں کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے اور مسلم خواتین ہر شعبۂ حیات میںجس میں سیاسی وتعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کے سرکاری اعداد و شمار سب کے سامنے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یاتو اس ترمیم میں کوئی کوٹہ ریزرو کرنے کی بابت کوئی گنجائش پیدا کی جائے یا کسی دیگر قانون کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کم وبیش ان کی آبادی کے تناسب سے ہوگی۔
جہاں تک اس بل کو منظوری ملنے کی بات ہے تو اس سے بہترسیاسی ماحول شاید ہی کبھی مل پائے۔ حکمراں جماعت، جسے ایوان میں اکثریت حاصل ہے اور جو خواتین کی بہتری کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہے، یہ اس کی صوابدید پر منحصر ہے۔رہی بات کسی اور جانب سے اٹھنے والی آواز کی تو جمہوریت میں سب کی آواز سنی جاتی ہے اور سنی جانی بھی چاہیے۔ بصورت دیگر تو بس یہی کہا جائے گا ’صدا طوطی کی سنتا کون ہے نقار خانہ میں؟‘اب تو یہ معاملہ نقار خانۂ سیاست کے حوالہ ہے۔بے چارہ مرغ شب آویز تو رات بھر ایک ٹانگ پر کھڑا رہتا ہے اور صبح تک حق حق کی صدا بلند کرتا رہتا ہے اور اس قدر فریاد کرتا ہے کہ خون کا قطرہ اس کے حلق سے نکلنے لگتا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS