پنکج چترویدی: امرت تالاب سے ہوسکتی ہے پانی کی فراوانی

0

پنکج چترویدی

ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی میں بھلے ہی زراعت کا حصہ محض17فیصد ہو، لیکن آج بھی یہ روزگار مہیا کروانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دیہی ہندوستان کی70فیصد آبادی کی روزی روٹی زراعت پر منحصر ہے۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری تقریباً 52فیصد زراعت کا انحصار بارش پر ہے۔ صرف 48فیصد کھیتوں کو ہی آبپاشی کی سہولت دستیاب ہے اور اس میں بھی زمینی پانی پر انحصار بڑھنے کی وجہ سے بجلی، پمپ، کھاد، کیڑے مار ادویات کے مد پر زراعت کی لاگت بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے غذائی اجناس جمع کرنا ہمارے لیے ایک چیلنج ہے تو دوسری طرف مسلسل خسارہ کا سودا بنتی جا رہی زراعت کو ہر سال چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آبپاشی کے بڑے پروجیکٹس لاگت اور تعمیر میں لگنے والے وقت کے مقابلہ میں کم ہی کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں معاشرے کو حکومت نے اپنے سب سے طاقتور روایتی واٹر فنڈ تالاب کی طرف آنے کی اپیل کی ہے۔ آزادی کے 75ویں سال کے موقع پر ملک کے ہر ضلع میں75تالاب بنانے کے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔
گزشتہ22؍اپریل2022کو شروع کی گئی اس اسکیم میں ملک کے ہر ضلع میں75آبی ذخائر تعمیر کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔3دسمبر2022تک ملک میں کل91226 مقامات کا انتخاب کیا گیا جبکہ 52894 مقامات پر کام بھی شروع ہوگیا۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسے 25659تالاب بن کر بھی تیار ہوگئے۔ ان میں سے زیادہ تر تالاب اتر پردیش میں ہیں-نشان زد مقامات 15845، کام شروع ہوا 10803پر اور8562تالاب بن کر تیار بھی ہوگئے۔ مدھیہ پردیش میں6958مقامات کا انتخاب، 5454پر کام شروع اور2227پر مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مقام ہے راجستھان کا جہاں ابھی تک978تالاب بن گئے ہیں جبکہ3329پر کام جاری ہے، یہاں 5176 تالابوں کا ہدف ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت کے محکمانہ پورٹل پر اس کام کی روزانہ کی پیش رفت رپورٹ پوسٹ کی جاتی ہے، جو اس کی تیز رفتاری کی علامت ہے۔
حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ تالاب کو تیار کرنا اپنے آپ میں ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے مقام کا انتخاب ہمارے روایتی پانی کی فراہمی، اس جگہ کی مٹی کی قسم، مقامی آب و ہوا وغیرہ کے مطابق کیا جاتا تھا۔ مرکزی حکومت کی ہدایات پر تیزی سے عمل آوری کے لیے ضلعی حکومتوں نے اب تک پرانے تالابوں کو ہی چمکایا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر ملک کے کل 773اضلاع میں یہ اسکیم کامیاب ہوگئی تو تقریباً نوے ہزار ایسے تالاب بن جائیں گے، جن کا رقبہ اگر ہر تالاب اوسطاً ایک ہیکٹر اور دس فٹ گہرائی کا بھی ہو اتو 27ارب کیوبک لیٹر گنجائش کا بڑا ذخیرہ ہوگا۔ ایک ہیکٹریعنی10ہزار میٹر، دس فٹ کایعنی3.048میٹر، ہر تالاب کی گنجائش30ہزار مربع میٹر۔ ایک ہزار لیٹر پانی کا مطلب ہے ایک کیوبک میٹر- ظاہر ہے کہ ہر تالاب میں30ہزار کیوبک میٹر پانی ہوگا اور اگر سبھی90ہزار تالاب کامیاب ہوگئے تو ہم مقامی سطح پر پانی کے حوالے سے مکمل طور پر خودکفیل ہو سکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ہمارے ملک میں سالانہ اوسطاً 1170 ملی میٹر پانی آسمان سے نعمت کے طور پر برستا ہے۔ ملک میں تقریباً پانچ لاکھ87ہزار گاؤں ہیں۔ اگر اوسط سے آدھی بھی بارش ہوجائے اور ہر گاؤں میں صرف1.12 ہیکٹر اراضی پر تالاب بنے ہوں تو ملک کی کوئی1.3ارب آبادی کے لیے پورے سال پینے اور دیگر استعمال کے لیے 3.75ارب لیٹر پانی آسانی سے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہیکٹر زمین پر صرف100ملی میٹر بارش ہونے کی صورت میں10لاکھ لیٹر پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے ابھی بھی بیشتر گاؤں میں روایتی تالاب-جوہڑ، باؤلی، جھیل جیسے ڈھانچے دستیاب ہیں، ضرورت ہے تو بس انہیں قرینہ سے سنبھالنے کی اور ان میں جمع پانی کو گندگی سے بچانے کی۔ ٹھیک اسی طرح اگراتنے رقبہ کے تالاب بنائے جائیں تو کسان کو اپنی مقامی سطح پر ہی آبپاشی کا پانی بھی ملے گا۔ چونکہ تالاب لبالب ہوں گے تو زمین کی مناسب نمی کی وجہ سے آبپاشی کا پانی کم استعمال ہوگا، ساتھ ہی کاشتکاری کے لیے ضروری قدرتی نمکیات وغیرہ بھی دستیاب ہوں گی۔
آزادی کے بعد1950-51میں تقریباً17فیصد کھیت (تقریباً36 لاکھ ہیکٹر) تالابوں سے سینچے جاتے تھے۔ آج کے کل سیراب شدہ رقبہ میں تالابوں سے آبپاشی کا رقبہ کم ہو کر17لاکھ ہیکٹر یعنی صرف ڈھائی فیصدرہ گیا ہے۔ ان میں سے بھی جنوبی ریاستوں نے ہی اپنی روایت کو محفوظ رکھا۔ ہندی پٹی کے علاقوں میں تالاب یا تو مٹی سے بھر کر اس پر تعمیر کردی گئی یا پھر تالابوں کو گھریلو گندے پانی کے نابدان میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ نمونہ ہے کہ کس طرح ہمارے کسانوں نے آبپاشی کی روایت سے منہ موڑ کر اپنے اخراجات، زمین کی بربادی کو دعوت دی۔
امرت سروور یوجنا دیکھنے میں بہت پرکشش ہے اور اس کے کام کے لیے منریگا سمیت تمام اسکیموں سے فنڈز مختص کرنے کی بھی سہولت ہے، لیکن اگر اسے شروع میں صرف ہر ضلع میں موجود تین ہیکٹر یا اس سے بڑے تالابوں کو نشان زد کرنے اور انہیں روایتی شکل میں سنوارنے تک محدود رکھا جاتا تو منصوبہ مزید زمین پر نظر آتا۔ درحقیقت ہر ضلع میں سیکڑوں سال پرانے واٹر اسٹرکچر ہیں، وہ صرف واٹر کیچمنٹ ایریا میں تجاوزات اور سیوریج کی گندگی ڈالنے سے ہی بے جان ہوئے ہیں۔ اگر منصوبہ کا امرت پہلے ان پر گرتا تو نتائج مختلف ہوتے۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے برے اثرات اب سب کے سامنے ہیں، موسم کی غیریقینی اور انتہا کسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ زیر زمین پانی کی حالت پورے ملک میں دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف بڑے ڈیموں کے ناکام استعمال اور مضر اثرات کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ بڑے آبپاشی منصوبے ایک تو بہت مہنگے ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ ان سے نقل مکانی اور بہت سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ان کی تعمیر کا عرصہ طویل ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں زراعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ہندوستانی سماج کو اپنی جڑوں کی طرف لوٹنا پڑے گا۔پھر سے کھیتوں کی آبپاشی کے لیے تالابوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ زمین کی نمی کو بچانے سمیت متعدد ماحولیاتی تحفظات کے لیے مثبت ہے ہی،مچھلی پروری، مکھانے، کمل جیسی مصنوعات اگانے کے امکانات کے ساتھ کسانو ںکو اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے۔ تالاب کو بچانے اور اس سے پانی لینے کا خرچ کم ہے ہی۔ یہی نہیں ہر دو تین سال میں تالابوں کی صفائی سے حاصل ہونے والی گاد بیش قیمتی کھاد کی شکل میں کسانوں کی لاگت کو کم کرنے اورپیداواری صلاحیت بڑھانے کا مفت ذریعہ الگ سے ہے۔
تالاب صرف اس لیے ضروری نہیں ہیں کہ وہ پانی کے روایتی ذرائع ہیں، تالاب پانی کو محفوظ رکھتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھتے ہیں، زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اس سے بہت سے لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔1944میں تشکیل کیے گئے ’فیمن انکوائری کمیشن‘نے واضح ہدایات دی تھیں کہ آنے والے سالوں میں پینے کے پانی کے ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لیے تالاب ہی کارآمد ہوں گے۔ کمیشن کی رپورٹ تو لال بستہ میں کہیں دب گئی۔ آزادی کے بعد ان پشتینی تالابوں کی دیکھ بھال کرنا تو دور کی بات، ان کی حالت خراب کرنی شروع کردی۔چاہے کالاہانڈی ہو یا پھر بندیل کھنڈ یا پھر تلنگانہ۔ ملک کے تمام آبی بحران والے سبھی علاقوں کی کہانی ایک ہی جیسی ہے۔ ان سبھی علاقوں میں ایک صدی پہلے تک سیکڑوں بہترین تالاب ہوا کرتے تھے۔ یہاں کے تالاب صرف لوگوں کی پیاس ہی نہیں بجھاتے تھے، یہاں کی معیشت کی بنیاد بھی ہوتے تھے۔ مچھلی، کمل گٹا، سنگھاڑا، کمہار کے لیے چکنی مٹی، یہاں کے ہزاروں ہزار گھروں کے لیے کھانا پیدا کرتے رہے ہیں۔ تالابوں کا پانی یہاں کے کنوؤں کے پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتا تھا۔
اگر ملک میں زراعت کو بچانا ہے، اپنی آبادی کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے غذائی اجناس درآمد کر کے غیر ملکی کرنسی کے خرچ سے بچنا ہے، اگر شہروں کی طرف نقل مکانی روکنی ہے تو ضروری ہے کہ مقامی طور پر دستیاب تالابوں کی طرف لوٹاجائے۔ کھیتوں کی آبپاشی کے لیے تالابوں کا استعمال بڑھایا جائے اور تالابوں کو بچانے کے لیے سرکاری محکموں کے بہ نسبت مقامی سوسائٹی کو ہی شامل کیا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS