مسئلہ فلسطین: مسئلہ فلسطین 150سال کے اہم واقعات

0

تقسیم میں اقوام متحدہ کی جانب داری
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاقتور ملکوں کے سامنے اقوام متحدہ کی کبھی ایک نہیں چلی۔ فلسطین کی تقسیم کے وقت بھی اسی لیے اس ادارے نے بھرپور جانب داری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اتنی بھی زمین فلسطینیوں کو آج تک نہیں مل سکی جو انہیں تقسیم کے وقت دی گئی تھی۔ 1947 تک فلسطین میں یہودی آبادی مجموعی آبادی کا 33 فیصد تھی اور ان کے پاس 6 فیصد زمین تھی۔ اس وقت آبادی میں 67 فیصد فلسطینی تھے اوران کے پاس 94 فیصد زمین تھی لیکن اقوام متحدہ نے تقسیم کے منصوبے کے تحت زرخیز زمین سمیت 56 فیصد زمین یہودی ریاست کے لیے دے دی۔ اسے عربوں نے مسترد کر دیا۔ بعدمیں 42 فیصد زمین عرب ریاست یعنی فلسطین کو دی گئی، 55 فیصد زمین یہودی ریاست یعنی اسرائیل کو۔ یروشلم کی 3 فیصد زمین عالمی قبضے میں رکھی گئی۔
’نکبہ‘ : فلسطینیوں کیلئے بھلانا مشکل
14 مئی، 1948 کو برٹش مینڈیٹ کے ختم ہونے سے پہلے ہی صہیونی پیراملٹری نے فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی۔ ان کے قصبے اور محلے تباہ کیے گئے۔ ممکنہ صیہونی ریاست کی سرحدوں کی توسیع کے لیے اپریل 1948 میں دیر یاسین میں 100 سے زیادہ فلسطینی مرد، خواتین اور بچے شہید کر دیے گئے۔ 1947 سے 1949 کے درمیان 500 سے زیادہ فلسطینی شہر، قصبے اور گاؤں تباہ کر دیے گئے۔ فلسطینی اسے ’نکبہ‘ کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا مطلب ’تباہی‘ ہوتا ہے۔ اس کے تحت درجنوں قتل عام میں 15,000 فلسطینی شہید کیے گئے۔ 750,000 فلسطینیوںکو گھر چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کیا گیا۔ 78 فیصد فلسطینی زمین پر صہیونی تحریک نے قبضہ کر لیا۔ 22 فیصد زمین میں آج کا مقبوضہ مغربی کنارہ اور محصور غزہ ہے۔ فلسطینی جو بھگائے گئے تھے، ان کی نسلوں میں سے 60 لاکھ لوگ آج لبنان، شام، اردن اور مصر میں مہاجر کی حیثیت سے رہتے ہیں۔
’نکبہ‘ کے بعد
150,000 فلسطینی اسرائیل میں رہ گئے تھے۔ ان پرسخت نگرانی رکھی گئی اور تقریباً 20 برس لگے انہیں سلسلہ وار شہریت دینے میں۔ یہودی ریاست کی تشکیل کے فوراً بعد عرب ملکوں نے حملے کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں غزہ پٹی پر مصر اورمغربی کنارہ پر اردن نے قبضے کر لیے تھے۔ 1964 میں پی ایل او یعنی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی تشکیل ہوئی۔ 5 جون 1967 کو ’نکسہ‘ یعنی 6 دنوں کی جنگ ہوئی۔ متحدہ عرب فوج سے اسرائیل غزہ پٹی، مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم کے ساتھ شام کی گولان پہاڑیاں اور مصر کا جزیرہ نما سینا چھیننے میں کامیاب ہوگیا۔ عربی میں ’نکسہ‘کا مطلب ’دھچکا‘ ہوتا ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں
مغربی کنارہ کے مقبوضہ علاقوں میںاسرائیلی حکومت نے مسلسل یہودی بستیاں آباد کی ہیں۔یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ 250 یہودی بستیوں میں 600,000 سے 750,000 یہودی بسائے جاچکے ہیں۔ ان میں مغربی کنارہ میں 463,353 اور مشرقی یروشلم میں 220,200یہودی آبادکیے گئے ہیں جبکہ عالمی قانون کی رو سے یہ ناجائز ہے۔
پہلا ’انتفاضہ‘
پہلے ’انتفاضہ‘ کی ابتدا دسمبر 1987 میں اسرائیلی ٹرک کے فلسطینی وین سے ٹکرانے سے ہوئی۔ اس میں 4 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ اس پراحتجاج نے حماس کو جنم دیا جسے اخوان المسلمین کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی مظاہرین کو دبانے کے لیے ’ان کی ہڈی توڑو‘ پالیسی کے تحت اسرائیلی حکومت سختی سے پیش آئی۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم’ بتسیلم‘کے مطابق 1,070 فلسطینی مارے گئے، ان میں 237 بچے تھے۔ 175,000 گرفتار کیے گئے۔ 1988 میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینیوں کا واحد ترجمان مانا اور عالمی برادری نے بھی مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے جدوجہد شروع کی۔
اوسلومعاہدہ
1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی انتفاضہ کا اختتام ہو گیا۔ عبوری حکومت فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل ہوئی۔ اسے مغربی کنارہ اور غزہ پٹی پرحکومت کی اجازت دی گئی۔ اوسلو معاہدے کے تحت مغربی کنارہ کو 3 حصوں، اے، بی اور سی میں بانٹا گیا۔ اے والا 18 فیصد علاقہ فلسطینیوں کے قبضے میں دیا گیا، بی والا 22 فیصد علاقہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو مشترکہ طور پر قبضے میں دیا گیا اور سی والا 60 فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں دیاگیا۔
دوسراانتفاضہ
28 ستمبر، 2000 کو ایریل شیرون نے مسجدالاقصیٰ کا متنازع دورہ کیا۔ مسجد کے احاطے اور یروشلم کے پرانے شہر میں سیکڑوں سیکورٹی فورسز تعینات کی گئیں۔ اس پر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں تصادم ہوا۔ 5 فلسطینی جاں بحق اور 200 مجروح ہوئے اور دوسرا انتفاضہ شروع ہوا۔ یہ اسرائیل کے لیے فلسطینی اقتصادیات اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنے کا ایک موقع تھا۔ اسرائیل نے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا جو فلسطینی اتھارٹی کے قبضے میں تھا۔ اس نے ان پر یہودی بستیاں بسائیں۔ اوسلو معاہدے کے وقت تک 110,000 یہودی ہی مغربی کنارہ کے مقبوضہ علاقوں میں تھے لیکن اب تک 6 لاکھ سے زیادہ یہودی مقبوضہ زمین پر بسائے جاچکے ہیں۔ دوسرا انتفاضہ 2004 میں ختم ہوا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS