مقدس سرزمین، ارض فلسطین: مطیع الرحمٰن عوف ندوی

0

مطیع الرحمٰن عوف ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

ایسی سر زمین جس کی نسبت انبیائے کرام علیہم السلام سے ہو اور جہاں سے ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کو معراج ہوئی ہو اور انہوں نے وہاں انبیائے کرام کی قیادت کی ہو، جس کی طرف سفر کرنے کی فضیلت ہمارے نبیؐ نے بتائی ہو، اس سر زمین سے اہل وطن کا ہی نہیں، ہر مسلمان کا قلبی تعلق ہونا ایک فطری بات ہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا، ’مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ہی کی زیارت کے لیے سفر کیا جائے۔‘
ارض فلسطین کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ یہ انبیائے کرام کی سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسی ملک کے شہر حبرون میں تبلیغی مرکز قائم کیا تھا، حضرت لوطؑ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم پر آنے والے عذاب سے نجات دے کر فلسطین پر اتارا تھا، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اسی سرزمین میں حق کی آواز بلند کی اور اسی طرح حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی حکومت کا مرکزبھی یہی علاقہ تھا۔ حضرت سلیمانؑ نے فلسطین کے شہر بیت المقدس میں ایک خدا کی عبادت کے لیے ہیکل سلیمانی قائم کیا تھا، حضرت سلیمانؑ اور چیونٹی کا مکالمہ بھی فلسطین میں واقع وادی ٔ نمل میں پیش آیا تھا،حضرت زکریاؑ کی عبادت گاہ بھی اسی شہر میں ہے، نیز حضرت عیسیٰؑ نے اسی مقدس سر زمین سے خدا کی وحدانیت کی آواز بلند کی اور آخری نبیؐ کے اس دنیا میں تشریف لانے کی خبر دی۔ اسلام کی آمد اور قبلہ کی تبدیلی سے پہلے اسی مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کر کے مسلمان نماز ادا کرتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلہ کا رخ مسجد الحرام کعبہ مقدسہ کی جانب کر دیاگیا اور مسجد قبلتین اس کی یاد گار اور ایک تاریخی نشانی ہے۔ اس علاقے سے تین مذاہب کے ماننے والوں کی عقیدت وابستہ رہی ہے، مسلمان ،عیسائی اور یہودی ۔ اس سرزمین کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۂ اسراء اور تین میں فرمایا ہے ، فرمایا : قسم ہے انجیر اور زیتون کی، اور صحرائے سینا کے پہاڑ طور کی، اور اس امن و امان والے شہر کی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، تین سے مراد شام کی سرزمین اور زیتون سے مراد فلسطین ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے کہ معراج کے موقع پر ہمارے نبی حضرت محمدؐ بیت المقدس تشریف لے گئے۔ یہیں آپؐ نے تمام انبیائے کرام کو نماز پڑھائی۔ اس سرزمین کے اور بھی فضائل ہیں ۔
یہودیوں کی تاریخ یہ ہے کہ دو ہزار قبل مسیح حضرت ابراہیمؑ کے صاحبزادے حضرت اسحاقؑ نے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، کنعان میں رہائش اختیار کی تو ان کی اولاد مستقل طور پر وہیںآباد ہو گئی اور یہی لوگ بنی اسرائیل کہلائے۔ بنی اسرائیل میںکئی جلیل القدر پیغمبر بھی پیدا ہوئے جن میں حضرت موسیٰؑ کا نام سب سے مشہور ہے۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلائی۔ یہودی خود کو شریعت موسوی کا پیر و کار کہتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں بنو اسرئیل نے بڑا عروج حاصل کیا اور اسرائیلی سلطنت جنوبی شام کے بیشتر حصے میں پھیل گئی لیکن اس کے بعد بنو اسرائیل کا زوال شروع ہوا اور وہ مصائب اور مشکلات کے دور سے گزرتے رہے۔ بابل کے حکمراں بخت نصرنے بیت المقدس کا ہیکل سلیمانی ڈھا دیا اور یہودیوں کو منتشر کر دیا۔ دوسری صدی عیسوی میں فلسطین پر رومیوں کا قبضہ ہو گیا اور رومی حکومت نے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا۔ وہ دنیاکے مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے رہے۔ یوروپ میں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا گیا۔ ان کے رہنے کے لیے علیحدہ محلے مخصوص کیے جاتے جن کو یہودیوں کا باڑہ کہا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی نے بڑی تعداد میں یہودیوں کو ہلاک کیا یا جلا وطن کر دیا۔
دنیا میں پھیلے یہودی اپنے وطن واپسی کا خواب لیے در بدر بھٹکتے رہے اور اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی جس کوصہیونیت کہا جاتا ہے۔ اس کا اصل مقصد فلسطین کو اپنا مر کز بنانا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپؐ کی آمد کے بعدجب پوری دنیا اسلام کے زیر نگیں ہو رہی تھی تو حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ممالک فتح کیے۔ اس زمانے میں انہوں نے قبلۂ اول کو بغیر کسی جنگ کے فتح کیا۔ انہوں نے حضرت عمر بن عاص ؓ کو قبلۂ اول کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا لیکن وہاں کے عیسائیوں اور یہودیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آ پ جیسا نہیں ہے، چنانچہ انہوں نے خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطابؓ کو خط لکھا اورپوری صورتحال سے آگاہ کیا۔اس کے بعد خود حضرت عمرؓ فلسطین روانہ ہوئے اور بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کی گئیں، کیونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مطابق آپ کا حلیہ مبارک ان کی کتابوں میں درج حلیہ کے مطابق تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے وہاں کے باشندوں سے جو معاہدہ کیا، وہ انسانی حقوق اور تحفظ و وقار کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس معاہدے کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کا فی عرصے کے بعد مسلمانوں سے صلیبی جنگیں ہوئیں اور یہ علاقہ عیسائیوں کے زیر اثرہو گیا۔ 88 سال کے بعد دوبارہ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒنے اس علاقے کو بازیاب کیا۔ 1187 میں حطین کے مقام پر عیسائیوں سے سلطان کا مقابلہ ہوا۔ ان کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت ہوئی اور بہت سے جنگجو قیدی بنائے گئے۔ ان کا جنرل رینالڈ گرفتار ہوا اور خود سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے اس کا سر قلم کیا جو گستاخ رسول بھی تھا۔ حطین کی فتح کے بعد سلطان نے بیت المقدس کارخ کیا اور 88 سال بعد دوبارہ بیت المقدس مسلمانو ںکے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد تقریباً 761 سال تک بیت المقدس مسلمانوں کی حکمرانی میں رہا۔ پھر اس پر عیسائیوں کا تسلط ہوگیا تو یوروپ کے یہودیوں نے انیسوی صدی سے دوبارہ فلسطین آباد کرنا شروع کر دیا۔ اعلان با لفور کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی عام اجازت مل گئی۔ برطانوی حکومت نے فلسطین مسئلے کو حل کرنے کے لیے باقاعدہ تقسیم کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کے تحت فلسطین کا ایک حصہ جس میں ساحل کا زر خیز ترین حصہ تھا، یہودیوں کو دے دیا گیا، دوسرا حصہ عربوں کواور تیسرا حصہ یعنی یروشلم اور گرد و نواح کے مقدس مقامات پہ بین الاقوامی نگرانی قرار پائی۔ اس طرح رفتہ رفتہ فلسطینیوں کو ان کے ملک اور حقوق سے محروم کیا جاتارہا۔ تنازع جاری رہا اور پھر 29 نومبر 1944 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ اور روس کی تجویز کے پیش نظر فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ عربوں نے اس کی مخالفت کی، حسب معاہدہ برطانوی فوجیں فلسطین سے واپس ہو گئیں اور اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہو گئے۔ یہودیوں نے بڑی تعداد میں عربوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ تل ابیب میں اسرائیل کی نئی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد عربوں سے لڑائی ہوئی اور بالآخرسلامتی کو نسل کے حکم پر 11 جون، 1948 کو طرفین نے جنگ بند کر دی، البتہ جھڑپیں جاری رہیں11 مئی، 1949 کو اسرائیل اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن بن گیا۔
اس کے بعد مختلف عرب ملکوں اور اسرائیل سے جھڑپوں کا سلسلہ رہا۔ 19 مئی، 1967 میں مصر اور بعض عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوئی۔ اس میںعربوں کوسخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور مزید علاقوں پر اسرائیل قابض ہوتا چلا گیا۔ وہ دن بدن مضبوط ہوتا گیا اور دنیا کے نہ صرف یہود نواز ملکوں نے ریاست اسرائیل کو تسلیم کر لیا بلکہ بعض عرب ملکوں، مثلاً: مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین نے بھی تسلیم کرلیا۔ بعض عرب ممالک کے اسرائیل سے بہتر تعلقات بنانے کے لیے مذاکرات جاری رہے۔ فلسطینیوں پر ظلم وجور ایک معمول سا بن گیا، ان کے گھروں کو مسمار کر کے یہودی کالونیاں آباد کی جاتی رہیں، فلسطین کے بجلی پانی اور غذا کا بیشتر انحصار بھی اسرائیل نے اپنے اوپر رکھا۔ مصری سربراہ السیسی کی مسلم دشمن پالیسی کی وجہ سے مصری بارڈر بھی بند ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اپنی ہی سر زمین پر فلسطینیوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ ہے۔ اسرائیل اہل غزہ پر بموںکی بارش کر رہا ہے جس میں عورتیں بچے اور جوان ہلاک ہو رہے ہیں۔ اسپتالوں میں گنجائش نہیںہے۔ بجلی پانی اور تغذیہ کی کمی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ نہ جنگ بند ی کے آثار ہیں اور نہ ہی امدادی سامان ان فلسطینیوں تک پہنچ رہا ہے۔ اللہ ہی ان کا حامی و ناصر ہے ۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS