یہودیت کے خلاف نہیں صہیونی عزائم کے خلاف جنگ: پروفیسر اخترالواسع

0

پروفیسر اخترالواسع
پروفیسر ایمریٹس،جامعہ ملیہ اسلامیہ

اسرائیل اور فلسطینیوں کے بیچ جو جنگ ہو رہی ہے، اب اس کو 12 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اس جنگ پر دنیا بٹ گئی ہے۔ مثال کے طور پر جہاں کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے غزہ میں محصور اور جنگ سے متاثر شہریوں کے لیے ایک خطیر رقم کا اعلان کیا ہے اور امدادی سامان کی فراہمی کے لیے راستہ نہ دینے پر اسرائیل کی مذمت کی ہے وہیں امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ جنگ بندی کے لیے نہیں، اظہار یکجہتی کے لیے تھا لیکن یوروپ میں مختلف صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ناروے نے کھل کر اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات کی ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ ایک طرف تو یوکرین میں روس کی جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسی روس کے سامنے مدد کے لیے یا تائید کے لیے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ عالم اسلام میں بھی صورتحال پہلے کے مقابلے زیادہ صاف طور پر فلسطینیوں کے حق میں ہے۔ ایران، سعوی عرب اور ترکی تقریباً ایک جیسی زبان بول رہے ہیں۔ وہ اسرائیل کا ساتھ دینے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں۔ بحرین نے اسرائیل سے حال ہی میں سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، اس کے سربراہ نے اٹلی میں دورے کے دوران غزہ کی مدد کے لیے اعلان کیا ہے۔ مصر کے سربراہ عبدالفتاح السیسی ہوں یا اردن کے شاہ عبداللہ دوم یا پھر متحدہ عرب امارات کے سربراہ یہ سب غزہ کے لوگوں کی ہی حمایت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے ان ملکوں کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مصر اور اردن تو بہت پہلے سے اسرائیل کے ساتھ خیرسگالی کا رشتہ قائم کیے ہوئے تھے، ابھی بہت دن نہیں ہوئے کہ یو اے ای نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اسرائیل کو سوچنا چاہیے، اس کے ہم نوا ملکوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے مسلم ممالک آج کیوں اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں؟ اس لیے نہیں کہ انہیں حماس سے ایکدم کوئی پیار ہو گیا ہے بلکہ تشدد، بربریت اور خاص طور پر مسجد اقصیٰ کی بار بار بے حرمتی، وہاں پر فلسطینیوں کو اکثر نماز سے روکنے کی کوششوںنے اسرائیل کو ایک طرح سے اپنے عرب دوستوں کی ہمدردی سے محروم کر دیا ہے۔ عالم اسلام میں جو صورتحال اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ ساری دنیا کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔
ہم ایک اور بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ جنگ یہودیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ صہیونی عزائم کے خلاف ہے۔ اگر یہودیت کے خلاف ہوتی تو نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت رکھنے والے یہودی دانشور اسرائیل کی مخالفت کیوں کرتے؟ اسی طرح اسرائیل کے رہنے والے یہودی آج تل ابیب میںنیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کیوں کر رہے ہیں؟ اسی طرح فلسطینی عیسائی اسرائیل سے آزادی کے لیے کب سے جنگ کر رہے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ عیسائی خاتون لیلیٰ خالد ہی تھیں جنہوں نے ایک جہاز کا اغوا کرکے ساری دنیا کو فلسطین کے مسئلے کی سنگینی اور اہمیت سے واقف کرایا تھا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایڈورڈ سعید جیسے عالم اور دانشور نے، جو عیسائی تھے، اور حنان عشراوی، جو خود عیسائی تھیں، ہمیشہ فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھا اور اسرائیل کی بھرپور مخالفت کی۔
یہ صحیح ہے کہ غزہ ہو یا فلسطین کا پورا علاقہ، اس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن اس جنگ میں تمام انصاف پسند، مظلوم اور مقہور لوگوں کی طرف ہیں اور اسرائیل ایک طرف۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ غزہ میں موجودہ جنگ بنیامن نیتن یاہو نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے برپا کی ہے، اس لیے کہ وہ اسرائیلی سماج اورسیاست میں اپنی ساکھ پوری طرح سے کھو چکے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے وہ غزہ کی جنگ کا سہارا لے رہے ہیں۔ ہم اس جنگ کے خلاف ہیں،اس لیے کہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے، وہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔ امریکہ، یوکرین میں وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا جو وہ چاہتا تھا ،لیکن غزہ میں ان مفادات کو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہر بڑی طاقت کا زوال جنگوں کے غیرمعمولی اخراجات کے بوجھ تلے ہی ہوا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی جیتی جاگتی مثال سوویت یونین کا زوال ہے جس نے افغانستان میں جنگ پر جو غیر معمولی اخراجات کیے، اس کے بوجھ تلے اس کا زوال دیکھنے کو ملا۔
آخری بات جو ہے، وہ یہ ہے کہ یہودیوں کا ہالو کاسٹ میں جو حشر ہوا تھا، وہ ہٹلر کے ذریعے نازیوں نے یوروپ میں کیا تھا۔ کیسی ستم ظریقی ہے کہ اس کا بدلہ آج صہیونی طاقتیں فلسطینیوں سے لے رہی ہیں۔ غزہ کو تمام مصائب، مظالم اور بہیمیت کا مرکز بناکر فلسطینیوں سے ہالوکاسٹ کا بدلہ لیا جا رہا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح ہالوکاسٹ کرنے والے نہیں رہے اسی طرح بے قصور غزہ والوں کو اس صورتحال سے دوچار کرنے والے بھی نہیں رہیں گے، وہ تاریخ میں اپنے آپ کو نیک نام قرار نہیں دے پائیں گے۔ n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS