پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی

0

عالمی سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ بدلتے وقت کے ساتھ حالات کے تقاضے بدلتے ہیں، دوستی اور دشمنی کی تعریفیں بدلتی ہیں، دور اندیش لیڈر اسی مناسبت سے فیصلے لیتے ہیں، اقدامات کرتے ہیں، چنانچہ پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی، جو 2022سے 2026 تک کے لیے پیش کی گئی ہے، باعث حیرت نہیں ہے۔ 62 صفحات کی اس پالیسی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کسی بھی ملک سے زیادہ یعنی 16 بار ہندوستان کا تذکرہ آیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کی اس پالیسی میں ہندوستان کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اندازہ یہ بھی لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ کا ساتھ چھوٹنے کے بعد پاک حکومت کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ پوری طرح چین پر انحصار ٹھیک نہیں، ہندوستان سے اسے رشتہ استوار کرنا چاہیے۔ پہلی قومی سلامتی پالیسی میں پاکستان نے ہندوستان سے پرامن تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف زیروٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنے کی بات کہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے اس کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ اس سے امن کا خواہاں ہے؟ ہندوستان میں حملوں کے لیے اسی کی سرزمین کا استعمال ہوتا رہا ہے، چنانچہ پرامن تعلقات کے مابین رکاوٹ بننے والی دہشت گردی سے اسے اپنی زمین کو پاک کرنا چاہیے۔
یہ خوش آئند ہے کہ اب پاکستان نے دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنے کی بات کہی ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وہ یہ پالیسی اختیار کر پائے گا؟ 16 دسمبر، 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے حملہ کرکے 133 بچوں سمیت 149 لوگوں کو مار ڈالا تھا مگر گزشتہ برس خبر آئی کہ پاک حکومت ’مفاہمت‘ کے لیے اسی تحریک طالبان سے گفتگو کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی کامیاب کیسے ہوگی؟ پھر ایک تحریک طالبان ہی نہیں، کئی اور دہشت گرد تنظیمیں بھی پاکستان میں سرگرم ہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ کی اہم وجہ بنتی رہی ہیں۔ جب جب ایسا لگا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پٹری پر آجائیں گے، پاک سرزمین پر سرگرم کسی دہشت گرد تنظیم نے ہندوستان میں دہشت گردانہ حملہ کر دیا، تعلقات بہتر ہونے کے بجائے اور خراب ہوگئے۔ ممبئی حملوں سے پہلے ایک وقت ایسا لگنے لگا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مستحکم ہو جائیں گے مگر 26 نومبر، 2008 کو لشکرطیبہ کے دہشت گردوں نے ممبئی میں حملہ کر دیا اور دونوں کے تعلقات اس حد تک خراب ہو گئے کہ جنگ چھڑنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ اس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی مگر دہشت گردی پھر آڑے آگئی، تعلقات پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان میں کئی لیڈروں نے ہندوستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی جدوجہد کی مگر انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اٹل بہاری واجپئی ہندوستان کے وزیراعظم تھے تو وہ بڑے ارمانوں سے لاہور گئے تھے، وہاں ان کا پرجوش استقبال نواز شریف نے کیا تھا، لاہور علامیہ پر دستخط ہوئے تھے، دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات کی امید بندھی تھی مگر یہ امید کرگل جنگ کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔ اس وقت یہ اندازہ ہوا تھا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کے چاہنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا، ہند کے مثبت اقدامات کا جواب پاکستان تبھی دے پائے گا جب پاک فوج چاہے گی۔ وہ اگر چاہ لے تو پاکستان سے دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اور اگر وہاں سے دہشت گردی ختم نہ بھی ہو تو اتنا تو ممکن ہی ہے کہ کوئی دہشت گرد ہندوستان کی طرف کوچ نہیں کر پائے گا، اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا عمران حکومت نے پاکستان کی جو پہلی قومی سلامتی پالیسی بنائی ہے، اسے نافذ کرنے میں پاک فوج بھی ساتھ دے گی؟ فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ کسی حد تک ساتھ دے گی، یہ دکھانے کی کوشش کرے گی کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر لی ہے، کیونکہ پاکستان ابھی بھی ایف اے ٹی ایف یعنی فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی ’گرے‘ لسٹ میں ہے اور وہ اس سے نکلناچاہتا ہے تاکہ اپنی اقتصادی حالت کچھ بہتر کر سکے۔ عمران حکومت کے ساتھ پاک فوج بھی یہ دیکھ رہی ہے کہ بر وقت اقدامات نہ کرنے سے سری لنکا دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچ گیا ہے، کسی حد تک پاکستان کی حالت بھی ایسی ہی ہے، اس لیے بھی وہ کسی حد تک پہلی قومی سلامتی پالیسی نافذ کرنے اور ہندوستان سے رشتہ استوار کرنے میں معاون بنے گی۔ اس وقت کا فائدہ ہندوستان کو اٹھانا چاہیے۔ پاکستان سے تعلقات استوار ہونے پر افغانستان میں اسے دائرۂ اثر بڑھانے میں کچھ آسانی ہوگی، چین پر ایک دباؤ پیدا ہوگا۔ اس کا مثبت اثر بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسیوں سے اس کے رشتے پر بھی مثبت پڑے گا!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS