وطن عزیز میں روزانہ تقریباً 20کروڑ لوگ بھوکے رہتے ہیں

0

راج موہن اُنیتھان
(مترجم: محمد صغیرحسین)

ہندوستان میں سوئِ تغذیہ کی سطح کئی افریقی ملکوں کے مقابلے میں کم و بیش دوگنی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (Global Hunger Index) 2020رپورٹ نے 107ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کو 94واں مقام دیا ہے جو بنگلہ دیش، پاکستان اور نیپال سے بھی کہیں نیچے ہے۔ ایک UN-FAO رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر روز 19کروڑ چالیس لاکھ لوگ بھوکے سوجاتے ہیں۔ بھوکوں اور فاقہ کشوں کی یہ بڑی تعداد، دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سوئِ تغذیہ کی شکار مجموعی آبادی کا 23فیصد ہے۔ یہ صورت حال اُس وقت ہے جب حق خوراک سے متعلق انقلابی کیس میں سپریم کورٹ نے اس حق کو حق زندگی سے متعلق آئین ہند کے آرٹیکل 21کا جز قرار دیا تھا۔
یہ ایک تلخ حقیقت اور مہیب ناکامی ہے کہ آزادی کے 73سالوں بعد بھی تحفظ خوراک کے میدان میں بہتات کے زعم باطل میں ہندوستان گرفتار ہے۔ ملک کچھ عرصے پہلے زرعی پیداوار میں خود کفیل ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود بڑے پیمانے پر بھوک کا قہر ملک کے طول و عرض میں برپا ہے۔ ہندوستان اس قدر غلہ پیدا کرتا ہے جو اس کی جملہ آبادی کو کھلانے کے لیے کافی ہے۔ ہندوستان نے 2018-19میں 283.37ملین ٹن اناج پیدا کیا۔ ہمارا ملک، پوری دنیا میں باجرے کی پیداوار میں اوّل اور چاول اور گیہوں کی پیداوار میں دوسرے مقام پر فائز ہے۔ ہندوستان میں باغوں کی فصلیں مثلاً پھل اور سبزیاں بھی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ 2018-19میں، باغبانی فصلوں کی مجموعی پیداوار 313ملین ٹن سے زیادہ تھی۔
محکمہ برائے امورِ صارفین کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق، 2011اور 2017 کے درمیان فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (Food Corporation of India) کے گوداموں میں تقریباً 62,000ٹن اناج خراب ہوگیا۔ صرف2016-17 میں ہی 8,600ٹن سے زیادہ اناج برباد ہوگیا۔ بین الاقوامی معاشی روابط پر تحقیق کرنے والی ہندوستانی کونسل کو معلوم ہوا کہ جہاں ملک بھر میں دسیوں لاکھ فرضی اور جعلی راشن کارڈز کے ذریعہ راشن خردبرد کیا جارہا ہے، وہیں ایسے بے شمار واقعی غریب کنبے ہیں جن کے پاس راشن کارڈز نہیں ہیں۔ یہ اعدادوشمار ہندوستان کے نظامِ خوراک کے انتہائی خراب اور ناقص انتظام کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہندوستان میں تحفظ خوراک کو یقینی بنانے کے لیے دو طویل مدتی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔ اولاً یہ کہ حکومت کو زرعی پیداوار کی نفع بخش قیمتیں مقرر کرنی ہوں ہوگی۔اس کے لیے زیادہ سے زیادہ زرعی پیداواروں کے لیے ایم ایس پی(Minimum Support Price) مقرر کرنی ہوں گی۔ یہ اقدام کسانوں کی قوتِ خرید میں اضافہ کرے گا اور وہ لازمی اشیاء غذا خرید سکیں گے۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان کے لیے عوامی نظام تقسیم (Public Distribution System) اور کسانوں سے اناج کی سرکاری خرید کے نظام کی اصلاح کرنا ناگزیر ہے۔
اَنّ پورنا اسکیم(Annapurna Scheme)
موجودہ غذائی حالات کی مزید اصلاح، انّ پورنا منصوبے کو ازسرنو بہتر بناکر کی جاسکتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت، 65سال سے زیادہ عمر کے اُن غریب افراد کو ہر ماہ دس کلو مفت اناج تقسیم کیا جاتا ہے جن کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو یا بہت تھوڑی آمدنی ہو۔ مرکز نے اس منصوبے کا جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ امداد اُن 20فیصد افراد کو دی جائے گی جو قومی اولڈ ایج پنشن پانے کے مستحق تو ہوں لیکن جنہیں ایسی کوئی پنشن نہ مل رہی ہو۔ یہاں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ کیرالہ میں کمیونٹی میں ہر طبقے کے مستحق افراد کو سماجی تحفظ پنشن کے دائرے میں لایا جاچکا ہے۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیرالہ میں تمام مستحق افراد اَنّ پورنا اسکیم سے فیض یاب نہیں ہوسکیں گے۔ یہ مسئلہ ہماری اوّلین توجہات کا مستحق ہے۔
علاوہ ازیں Global Pulse Confederation کے مطابق دالیں، صحت بخش اور متوازن غذا کا جزء خاص ہوتی ہیں اور کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سے تحفظ دینے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ عالمی خوراک پروگرام (World Food Programme/WFP) نے اپنی مثال تھالی میں اناج، تیل، شکر اور نمک کے ساتھ 60گرام دالیں بھی شامل کی ہیں۔ خوراک، امور صارفین اور عوامی تقسیم پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے جو پس منظری تحریر رقم کی ہے وہ ’لازمی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ: اسباب اور اثرات(2020) کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ: ’’ایک سبزی خور معاشرے میں، غذا میں پروٹین شامل کرنے پر اصرار نے دالوں کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔ چنانچہ دالوں کا استعمال تو بڑھا لیکن اسی رفتار سے دالوں کی پیداوار نہیں بڑھی۔۔۔تاہم، گزشتہ دو سالوں میں دالوں کی پیداوار بڑھی ہے۔ یہ اضافہ ایم ایس پی میں مسلسل اضافے، روزافزوں سرکاری خریداری اور دالوں کے اضافی ذخائر جمع کرنے کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔‘‘ لہٰذا یہ صحیح وقت ہے کہ خوراک کے عوامی نظام تقسیم میں ہم دالوں کو بھی شامل کردیں۔
(صاحب مضمون رکن پارلیمنٹ ہیں اور خوراک، امورصارفین اور عوامی تقسیم پر محکمہ جاتی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں)
(بشکریہ: دی ہندو)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS