ہم سے قدرت کیوں خفا ہے؟

0

اتُل کنک
(مترجم: محمد صغیر حسین)

کورونا  وائرس کی متعدی وبا نے ساری دنیا کے لیے آسانی اور اطمینان سے زندگی گزارنا مشکل بنادیا ہے۔ الزام ہے کہ یہ وائرس چین کی ایک لیباریٹری سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلا اور اس سے متاثر ہونے کے خدشات نے لوگوں کو کھلی ہوا میں آسانی سے سانس لینے کی خوشی سے بھی محروم کردیا۔ کورونا وائرس کا خطرہ ابھی ٹلا بھی نہیں ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں کبھی زلزلے کے جھٹکے، کبھی سمندری طوفان سے تباہی، کبھی جنگل کی آگ کی تپش اور کبھی ندیوں کی روانی میں آیا تلاطم جیسی قدرتی آفات زندگی کو درہم درہم کررہی ہیں۔ قدرت کے مزاج کی برہمی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سالوں پہلے تک زلزلے جیسے حادثات سے محفوظ سمجھی جانے والی دہلی اور اُس کے قرب و جوار کے علاقوں میں جون سے اگست کے درمیان محض تین ماہ میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زلزلوں کے اس تسلسل میں جان و مال کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔
راجدھانی علاقے میں محسوس کیے گئے زلزلوں کے جھٹکوں کے بعد وہاٹس ایپ پر ایک پیغام وائرل ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ قدرت چاہتی کیا ہے؟ کورونا سے بچنے کے لیے گھروں میں رہیں یا زلزلے سے بچنے کے لیے گھروں سے باہر نکل پڑیں؟ اس پیغام میں بہت گہرائی تک قدرت کی انسانوں کے تئیں ناقابل برداشت پہلو کی عکاسی ہوتی ہے۔ قدرت کے مزاج میں روزافزوں انتقامی جذبے کے تئیں فکر و تشویش اس لیے بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ خبروں کے مطابق دنیا بھر میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمے برف کے تودے (Glacier) تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بار بار بجلی گرنے کی وجہ سے جنگلوں میں لگی آگ دنیا کے مختلف ملکوں کے لیے تشویش کی وجہ بنتی جارہی ہے۔ گلیشیر اسی طرح پگھلتے رہے تو سواحل سمندر پر بسے شہروں کے لیے نیا بحران پیدا ہوجائے گا، کیوں کہ ایسی صورت حال میں سطح آب تین فٹ سے زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح کیلی فورنیا کے جنگلوں سے لے کر امیزن کے جنگلوں تک یونہی آگ سلگتی رہی تو انسانوں کے لیے ماحولیاتی نظام کو بچانے کی نئی نئی چنوتیاں پیدا ہوجائیں گی۔ قدرت زندگی کے تمام اسباب کھلے ہاتھوں سے انسان کو سونپ دیتی ہے لیکن اگر اسی قدرت کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوں تو ہماری خوشی اور خوش حالی کس طرح ممکن ہوگی؟
یہ فکر بے محل بھی نہیں ہے۔ زیادہ پرانی بات نہ بھی کریں تو سال 2020کی شروعات قدرتی آفات کے ساتھ ہوئی۔ آسٹریلیا کے لاکھوں ایکڑ پر محیط جنگلات آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ وکٹوریا صوبے میں تو ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی۔ نئے سال کی پہلی صبح کے ساتھ انڈونیشیا کے جکارتہ میں سیلاب آیا۔ پیرو کے ہُوانکو صوبے میں بھی سیلاب سے 300خاندان متاثر ہوئے۔ جنوری مہینے میں ہی فلیپینس میں تال نامی آتش فشاں فعال ہوگیا۔ پاکستان میں زوردار برفباری کی وجہ سے دو دنوں کے اندر 41لوگ ہلاک ہوگئے۔ فیجی کے وانوالیوو میں ٹینرنامی سمندری طوفان نے تباہی مچادی۔ اِمغان نامی طوفانِ بادوباراں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کو تہہ و بالا کردیا۔ اسپین میں گلیریا نامی طوفان قہر بن کر ٹوٹا تو برازیل میں موسلادھار بارش نے ہزاروںلوگوں کی جان لے لی۔ ترکی، جمائیکا، روس، چین، فلیپینس، افریقہ اور برازیل میں زبردست بارش نے ہزاروں لوگوں کو لقمۂ اجل بناڈالا۔ ترکی، جمائیکا، روس، چین، فلیپینس، افریقہ اور ہندوستان کے کئی حصوں میں بار بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اتنا ہی نہیں، مشرقی افریقہ سے چل کر ہندوستان تک آنے والے ٹڈیوں کے دل نے انسان کے روبرو ایک نئی چنوتی کھڑی کردی۔ گزشتہ 25سالوں میں ٹڈی دل کا یہ سب سے خطرناک حملہ مانا گیا ہے۔ مذکورہ بالا ساری آفات سماوی، بنی نوع بشر کا امتحان لینے پر آمادہ ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا تو سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ چند لوگ مذہبی کتابوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ آفات قدرت کی انتہائی ناراضگی کی علامت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قدرت کی جبیں پر حقیقت میں شکنیں ابھر آئی ہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ گزشتہ کئی سالوں سے ماہرین ماحولیات ہم کو متنبہ کررہے ہیں۔ سطح سمندر کا بڑھنا، گلیشیروں کا پگھلنا، جنگلوں کا مسلسل کم ہونا، آب و ہوا میں آلودگی کا بڑھ جانا، اوزون پرت کا مجروح ہونا اور ہمارے موسموں کی گردش میں رخنہ اندازی وغیرہ کچھ ایسے اسباب ہیں جو حساس لوگوں کو فکرمند کررہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ کرئہ ارض کا دو تہائی حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کے لائق پانی میسر نہیں ہے۔
قدرت نے انسان کو تمام ضروری چیزیں عطا کردیں لیکن انسان کی لالچ مسلسل بڑھتی گئی اور اُس نے قدرتی وسائل کا نامعقول استعمال اور بڑے پیمانے پر استحصال شروع کردیا۔ ہم بھول گئے کہ قدرت کے پاس سب کی ضرورتیں پوری کرنے کی استطاعت ہے لیکن لالچ تو وہ ایک بندہ بشر کی بھی پوری نہیں کرسکتی۔ ہم نے قدرت کے تئیں اپنا سلوک پنچ تنتر کی ایک کہانی کے اُس لالچی کردار کی طرح کرلیا جسے ایک بار ایسی مرغی مل گئی جو ہر روز اسے ایک سونے کا انڈا دیا کرتی تھی۔ لیکن اس لالچ میں کہ روزانہ کہاں تک ایک سونے کے انڈے کا انتظار کروں گا، یہ سوچ کر اُس نے ایک دن چاقو سے مرغی کا پیٹ چاک کردیا اور اپنی غیردانشمندی اور بے صبری کے سبب اپنے ہی سکھ کی تمام توقعات پر خود ہی پانی پھیر دیا۔
ہمارے آباء و اجداد قدرت کی سکت و صلاحیت اور حیات بشری میں اس کی اہمیت سے واقف تھے۔ اسی لیے دنیا کی بیش تر ابتدائی تہذیبوں میں قدرتی وسائل کی تعظیم کے ثبوت پائے گئے ہیں۔ رِگ وید میں تو سورج، پانی اور آگ ہی نہیں، نباتات تک دیووں کا جلوہ گر ہونا مانا گیا ہے۔ دراصل اُس دور کی پرستش انسان کی زندگی میں قدرتی قوتوں کی عطا و بخشش کے تئیں اظہارتشکر تھی۔ درختوں سے لے کر ندیوں تک کی پرستش کے چلن میں تشکر کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔
قدرت تو ماں ہے۔ وہ پرستش نہیں خلوص و احترام کی طلب گار ہے۔ کوئی ماں اپنی ہی آل اولاد سے کب تک ناراض رہ سکتی ہے؟ لیکن جرم جب تمام حدوں کو پار کرلے تو مجرم کو سزا ملنی لازم ہے، اور قدرت کے احترام سے کھلواڑ کرنے کا جرم تمام عالم انسانیت کے سر پر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور آنے والی نسل درنسل کے آرام کے لیے قدرت کے تحفظ کی سمت میں جدوجہد کریں تاکہ پھر کسی لمحے دل و دماغ میں یہ خوف جاگزیں نہ ہو کہ کیا قدرت ہم سے ناراض ہے؟
(بشکریہ: جن ستّا)
(صاحب مضمون کے ماحولیات سے متعلق مضامین اکثروبیشتر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون اُن کے دل کی آواز ہے جو صدابصحرا ثابت نہ ہو، اسی میں کرئہ زمیں کی بقا کا رازپوشیدہ ہے)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS