ایران میں امریکی سفیررابرٹ میلی کی تعیناتی خوش آئند

0

ڈاکٹر سید ظفر محمود

صدر بائیڈن کو امور خارجہ کے لیے اپنی ٹیم تشکیل دینے میں سیاسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اور انٹلیجنس کے سینئر افسران کے تعین میں بھی وہ اختلاف و تکرار سے محفوظ رہے۔لیکن ایران میں سفیر کے طور پر جب انھوں نے اوباما انتظامیہ کے سفارت کار، اس میدان کے ماہر رابرٹ میلی کے انتخاب کا اعلان کیا تو مختلف اطرا ف سے گرماگرم خیالات کی فائرنگ ہونے لگی گو کہ ان کی تعیناتی کے لیے امریکی سینیٹ کی منظوری درکار نہیں ہے۔ رابرٹ میلی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ تہران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر گفتگو کر کے اس کو راضی کریں کہ وہ 2015 کے بین الاقوامی معاہدہ کے ذریعہ متعین حدود کے اندر ہی یورینیم کی افزودگی کرے اورآئندہ کے لیے تازہ معاہدہ پر متفق ہوجائے تا کہ امریکہ کے ذریعہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ہٹائی جا سکیں۔ابھی یہ یقینی نہیں ہے کہ صدر بائیڈن کی حکمت عملی کامیاب ہو گی کہ نہیں کیونکہ ایران نے کئی بار کہا ہے کہ جب تک امریکہ پابندیاں ہٹا نہیں لیتا تب تک وہ 2015 کے معاہدہ پر واپسی کے لیے اپنی آمادگی ظاہر نہیں کرے گا، اب دیکھنا ہے کہ قماربازی کے اس کھیل میں کون پہلے پلکیں جھپکتا ہے۔یاد رہے کہ 2018 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی معاہدے سے امریکہ کو دستبردار کرلیا تھاجبکہ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاہدہ کی حیات نو و قوت بخشی کو اپنی منصوبہ بند ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ 2018 کے بعد سے ایران لگاتار اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا آرہا ہے حتیٰ کہ گزشتہ برس کے دوران بین الاقوامی انسپکٹروں نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کے لیے ضروری نیوکلیائی ایندھن موجود ہے چہ جائے کہ اسے نیوکلیئر ہیڈ بنا کے اسے استعمال کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک کی نیوکلیئر استطاعت کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم انٹرنیشنل ایٹمک اینرجی ایجنسی نے بھی پہلی بار دستاویز پیش کیے یہ دکھاتے ہوئے کہ کس طرح ایران نے اس کے انسپکٹروں کو اپنے تین کریٹیکل مقامات پر جانے سے روک دیا تھا۔ر ابرٹ میلی نے ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی، وہ روڈس اسکالر رہیں، نرم دم گفتگو، کلنٹن اور اوباما کے زیر صدارت وہ وہائٹ ہائوس میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں جہاں انھیں مشرق وسطیٰ کا ایکسپرٹ تسلیم کیا جاتا رہا، اس دوران ان کے تعلقات اس خطہ کی اہم شخصیتوں سے خوب استوار رہے۔ وہ بائیں بازو کے عرب یہودی والد کے فرزند ہیںاورمع حماس، حزب اللہ اور صدر شام بشر الاسد اہم امریکہ مخالف افراد و تنظیموں کو گفت و شنید میں مشغول رکھنے میں ماہر ہیں۔ ایران اور فلسطین کے ان لیڈروں سے جنھیں امریکہ کا دوست نہیں مانا جاتا، ان سے بھی دل آویزی کے ساتھ گفت و شنیدکرلینا ان کا شیوہ رہا ہے۔
امریکہ میں ر ابرٹ میلی کے نقاد وں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے مذہبی پیشوائوں کے ساتھ مصالحت و ہم آہنگی کے قیام کے عوض میں تازہ معاہدہ کے ذریعہ ایران کے تئیں کافی حد تک ہتھیار ڈال دیں گے۔ ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے رابرٹ میلی کو ’ ایران موافق انتہا پسند‘ کا خطاب دیا۔ فائونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے چیف ایگزیکٹیو مارک ڈبووٹز نے کہا کہ ر ابرٹ میلی امریکی طاقت میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔لیکن ر ابرٹ میلی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ در اصل داہنے بازو کے انتہا پسندوں کے لیے ر ابرٹ میلی کا استعمال ایک آسان نشانہ کے طور پر کیا جا رہا ہے اور اس طرح صدر بائیڈن کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ نیا معاہدہ بہت زیادہ ایران کے حق میں نہیں ہو نا چاہیے۔متعدد سابق صدور کے تحت کام کا تجربہ رکھنے والے مشرق وسطیٰ معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ڈیوڈ ملر کا کہنا ہے کہ رابرٹ میلی کے نقاد ان کی مثبت و روشن خیال اہلیت سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ وہ ان سے اس لیے متعصب ہیں کیونکہ ان کے والد سائمن میلی مصر میں پیدا ہوئے تھے اوروہ ایک سیکولر عرب قوم پرور تھے جن کے لیے ر ابرٹ میلی نے 2008 میں ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ ’انھوںنے مجھ میں اس خطہ کے لیے دلچسپی پیدا کی تھی‘۔ صدر بائیڈن کی ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے رابرٹ میلی انٹرنیشنل کرائیسس گروپ کے روح رواں تھے، یہ ایک تھنک ٹینک ہے جہاں تنازعات کا حل ڈھونڈنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی میں مصر و لبنان کے سفارتکار جارج اینٹانیوس کی یاد میں منعقد سالانہ لیکچر کے دوران رابرٹ میلی نے بتایا تھا کہ ان کے والد سامراجیت مخالف تحریک چلاتے تھے، ان کے تین مختلف نام تھے اور ان کے پاس نو ممالک کے پاسپورٹ تھے جس میں فلسطین کا اعزازی پاسپورٹ بھی شامل تھا، وہ تین میگزینوں کے بانی ایڈیٹر تھے، وہ پختگی سے اپنے عقائد و اصولوں کے پابند رہتے تھے جہاں شک و شبہ یا پہلوتہی کی گنجائش نہیں تھی۔ صدر کلنٹن کے انتظامیہ میں مشرق وسطیٰ میںقیام امن کے معاملہ دار ی کی میعاد کے اختتام کے فوراً بعد رابرٹ میلی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ میں امن مذکرات کی ناکامی کے لیے صرف یاسر عرفات ہی تنہا ذمہ دار نہیں تھے۔
اپنے 2008 کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیکچر میں رابرٹ میلی نے کہا تھا کہ کئی بار امریکہ نے عالمی سطح پر مہلک طریقے اختیار کیے ہیں، ہم پہلے سے متعین لیڈروں کو ممسوح (Anoint)کر تے ہیں،ہم مقامی حرکیات(Local dynamics)کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں،طاقت کے مقامی توازن کی ہم غلط تشریح کرتے ہیں، اس کے مقدور کا غلط استعمال کرتے ہیں،بیجا بغل گیر ی کرنے کی زہر آلودگی کا ہم غلط اندازہ لگاتے ہیں، ہم محاذ آرائی کو شہ دیتے ہیں، سیاسی نمونے بنا کے ہم ان کو ایکسپورٹ کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ جن کے ساتھ ہم کھلواڑ کرتے ہیں۔ رابرٹ میلی کا یہ مشاہدہ اب کافی حد تک امریکہ میں عوام الناس کا نقطہ نظر بن چکا ہے خصوصاً افغانستان و عراق میں جنگوں اور لیبیا اور صومالیہ میں بدنصیب امریکی مداخلت کے بعد، پھر بھی اب تک امریکی رائے عامہ کے کچھ حلقوں میں رابرٹ میلی کے اس پر جوش اظہار جذبات کی مذمت کی جاتی ہے۔ بہر حال 2015 والے ایران سے معاہدہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے رابرٹ میلی صدر اوباما کے اعلیٰ صلاح کار تھے۔ اب ایران میں ان کے امریکی سفیر بننے کے بعد امور خارجہ کے درجنوں ماہرین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کامیاب سفارت کاری کے لیے متعلقہ ملک کے اندرونی محرکات کا متوازن افہام و ادراک زبردست اہمیت کا حامل ہے اور وہ حاصل کرنے کاواحد ذریعہ ہے اس سے گفت و شنید۔ادھر رابرٹ میلی نے کہا ہے کہ بیرون ملک امداد دینے اورممالک پر پابندیاں لگانے کے اثر کا امریکہ نے بیجا طور پر غلط تخمینہ لگا رکھا ہے جبکہ قوموں کے مذہبی نظریہ واعتقاد کو امریکہ اپنی غلطی سے کمتر سمجھتا رہاہے۔ نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹانی بلنکیٹ اور رابرٹ میلی بچپن میں ایک ساتھ پیرس کے اسکول میں پڑھتے بھی تھے۔ لہٰذا نیویارک ٹائمس کے وہائٹ ہائوس نامہ نگار مائیکل کرولی نے امید ظاہر کی ہے کہ اب امریکہ و ایران کے درمیان باہمی مفادات کو فروغ دینے کے لیے رقیبانہ کی جگہ اتفاق و اشتراک پر مبنی تعلقات جنم لیں گے جس سے مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن و امان کو فروغ ملے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS