ٹرمپ کیلئے ابھی امتحان اور بھی ہیں

0

صبیح احمد

امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مواخذہ کی دوسری کوشش آخر کار ناکام ہوگئی۔ ان پر امریکی پارلیمنٹ (کیپٹل ہل) پر 6 جنوری کو ہونے والے حملے کے ذمہ داروں کو اکسانے کا الزام تھا۔ مواخذہ کے مقدمہ کو سینیٹ کے دو تہائی اراکین کی ضروری حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ 100 نشستوں والی امریکی سینیٹ میں اس معاملے پر ہونے والی رائے شماری میں 57 ووٹ مواخذہ کے حق میں جبکہ 43 ووٹ مخالفت میں پڑے۔ سینیٹ کے 50 ری پبلکن اراکین میں سے 7 نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے 50 اراکین کا ساتھ دیا لیکن یہ تعداد صدر ٹرمپ کو 6 جنوری کے واقعات کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے درکار دوتہائی یعنی 67 ووٹوں سے کم تھی۔
بہرحال تکنیکی اعتبار سے ٹرمپ ایک بار پھر مواخذہ کی کارروائی میں بری کر دیے گئے اور وہ اسے اپنے لیے ایک بڑی جیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے فیصلے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں ٹرمپ کا اپنے خلاف مواخذہ کی کارروائی کو ملکی تاریخ کا سب سے بدترین سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ امریکی تاریخ میں کسی بھی صدر کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکہ کو عظیم ترین بنانے کی خوبصورت مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔‘ اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس آنے والے مہینوں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور میں آپ کے ساتھ مل کر اس ملک کو تمام امریکیوں کے لیے عظیم تر بنانے کا مشن حاصل کروں گا۔‘حالانکہ الزامات سے بری ہونے کی صورت میں سابق صدر کو ایک طرح سے اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اب بھی ری پبلکن حلقوں میں اثر و رسوخ حاصل ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے اندر ایک حلقہ ان کے سخت خلاف ہے۔
جہاں 7 ری پبلکن رہنمائوں نے مواخذہ کی کارروائی کے دوران ان کے خلاف ووٹ دیا، وہیں دوسری جانب ٹرمپ سے ناراض ری پبلکن پارٹی کے درجنوں رہنماؤں نے نئی جماعت یا پارٹی کے اندر نیا گروپ بنانے کے لیے مشاورت بھی شروع کر دی ہے۔ کئی ری پبلکن رہنماؤں کی جانب سے حالیہ صدارتی الیکشن کے بعد ٹرمپ کے طرز عمل کو جمہوریت کے منافی قرار دیتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ جن افراد نے اس مشاورت میں حصہ لیا ان میں سابق ری پبلکن قانون ساز، سابق صدور ، ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل بعض رہنما، سابق سفارت کار اور ری پبلکن منصوبہ ساز شامل ہیں۔ ان 120 افراد نے ’زوم‘ کال کے ذریعہ پارٹی کے نئے دھڑے کی تشکیل پر غور و خوض کیا جو ’اصولوں کے مطابق قدامت پسندی، آئین اور جمہوریت کے تحفظ کا علم بردار ہو گا۔‘ 2016 کے صدارتی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار حصہ لینے والے سیاست داں اور ’زوم‘ میٹنگ کے شریک میز بان ایون مک مولین کے مطابق اجلاس کے دوران یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ قومی سطح پر ایک تیسری جماعت بنالی جائے جبکہ بعض شرکا نے یہ تجویز دی کہ ایک الگ گروپ بنا لیا جائے جو پارٹی کے اندر یا اس سے باہر رہ کر کام کرے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نئی پارٹی کے لیے جو نام زیر غور ہیں، ان میں ’انٹیگرٹی پارٹی‘ یا ’سینٹر رائٹ پارٹی‘ شامل ہیں۔ اگر پارٹی کے اندر ہی الگ گروپ بنایا جاتا ہے تو اس کا متوقع نام ’سینٹر رائٹ ری پبلکنز‘ ہو سکتا ہے۔
سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھلے ہی مواخذہ کی دوسری کارروائی میں سینیٹ سے بری ہو گئے ہوں لیکن ان کی پریشانی ابھی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ انہیں کیپٹل ہل بلڈنگ (امریکی پارلیمنٹ) پر حملہ معاملے میں عدالتی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ اب عام شہری ہوگئے ہیں لہٰذا ان کے پاس قانونی تحفظ نہیں ہے جو صدارتی عہدے پر رہنے کے دوران انہیں حاصل تھا۔ اس پہلو سے مواخذہ کے دوران ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر بھی واقف ہیں۔ سینیٹ میں اقلیتی رہنما کینٹکی مچ میک کونیل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اب بھی ایک عام شہری کے طور پر عہدہ پر رہتے ہوئے اپنے ہر کام کے لیے ذمہ دار ہیں اور انہیں جواب دہ ٹھہرانے کے لیے سینیٹ کے مقدمے سے زیادہ عدالتیں مناسب مقام ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کو آئندہ مہینوں میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کا خطرہ اب بھی لاحق ہے۔ امریکہ کے سابق وفاقی استغاثہ پروفیسر لوری لیوینسن کے مطابق اس معاملے میں تحقیقات کار 200 لوگوں کو گرفتار کرچکے ہیں اورسیکڑوں مزید لوگوں کی تلاش میں ہیں۔ یہ سبھی لوگ گواہ بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ انہیں ٹرمپ نے یہ (حملہ کرنے کو) کہا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب فساد ہو رہا تھا تب ٹرمپ کیا کررہے تھے؟ مواخذہ میں اس کا جواب نہیں ملا۔ وفاقی تحقیقات کاروں کے پاس مجرمانہ معاملوں کی جانچ میں ’گرینڈ جیوری‘ کے ذریعہ سمن کرکے ثبوت حاصل کرنے کے لیے زیادہ اختیارات ہیں۔
ایک اور ڈیولپمنٹ یہ ہے کہ اب دونوں پارٹیاں(ڈیموکریٹک اور ری پبلکن) پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کے معاملے کی جانچ اسی طرح آزاد کمیشن سے کرانے کی حمایت میں سامنے آ رہی ہیں جس طرح 11 ستمبر کو ہونے والے حملے کی جانچ کی گئی۔ اس سلسلے میں ’سینیٹ رولس کمیٹی‘ میں اس ماہ کے اواخر میں سماعت ہونی ہے۔ اس حوالے سے کارروائی کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کیپٹل ہل بلڈنگ پر حملے کی جانچ کے لیے 9/11 حملے کی جانچ کے لیے تشکیل شدہ کمیشن کے جیسے ہی ایک آزاد کمیشن کی تشکیل کی تجویز پیش کردی ہے۔ پلوسی نے ڈیموکریٹک ارکان کانگریس کو تحریر کردہ ایک خط میں واضح کیا ہے کہ کمیشن ’کیپٹل ہل بلڈنگ پر ملکی دہشت گردانہ حملے کی جانچ کرے گا اور اس سے متعلق حقائق جمع کرنے کے ساتھ ہی اس کے پیچھے کی وجوہات کا پتہ لگائے گا۔‘ اسی طرح کا مطالبہ پارٹی وابستگی سے اوپر اٹھ کر دونوں ہی پارٹیوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ نے بھی کیا تھا۔ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ کو ان کی حرکتوں کے لیے انہیں ذمہ دار ٹھہرانا ہے، اس لیے ان کے لیے ابھی امتحان اور بھی ہیں۔
جہاں تک مواخذہ کا معاملہ ہے، اس کے خلاف یہ جواز بھی پیش کیا جارہا تھا کہ اب جبکہ ٹرمپ صدر کے عہدہ پر نہیں ہیں تو اس کارروائی کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن بعض ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ ٹھیک ہے، مواخذہ کی اس کارروائی سے بطور صدر ٹرمپ پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن یہ کارروائی دراصل ایک مثال قائم کرنے کے لیے ہے کہ آگے کوئی بھی صدر اپنے آخری دنوں میں اس طرح کی کوئی کارروائی کر کے بچ نہیں سکتا۔ اگر سینیٹ نے ٹرمپ کو مجرم ٹھہرا دیا ہوتا تو اس کے بعد انہیں کسی بھی وفاقی عہدے کے لیے نااہل قرار دینے کی قرارداد ایوان میں پیش کیے جانے کا منصوبہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے جو کچھ کیا، اس کی انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے اور چونکہ اب انہیں عہدے سے ہٹانا ممکن نہیں رہا تو بطور سزا ان کے آئندہ کوئی الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ ڈیموکریٹ رہنماؤں کے بقول ان کا مواخذہ کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ آئندہ صدور کو یہ پتہ ہو کہ اگر وہ اپنے آخری دنوں میں بھی کوئی قابل مواخذہ جرم کریں گے تو انہیں اس کا حساب دینا ہوگا، چاہے وہ عہدے پر رہیں یا نہ رہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS