تشدد، شبہات اور قیام امن

0

صبیح احمد

افغانستان میں تعینات ناٹو افواج کے بعض اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ میں افواج کے انخلا کی مئی کی ڈیڈلائن کے بعد بھی ناٹو افواج ملک میں موجود رہیں گی۔ اس دعویٰ کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں۔ الزام ہے کہ اپریل کے اواخر تک اتحادی فوجوں کا انخلا اس لیے مکمل نہیں ہو گا کیونکہ معاہدے کی شرائط پور ی نہیں ہوئیں۔ ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ امریکہ میں اب ایک نئی انتظامیہ ہے، اس لیے پالیسی میں ردو بدل ہو گا اور کسی بھی جلد بازی کے بجائے معروضی حالات کو دیکھ کر ہی فوج کا انخلا ہو گا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال 29 فروری کو مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔ طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔ افغانستان میں اس وقت امریکی فوجوں کی تعداد گھٹ کر 2500 تک رہ گئی ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اپریل کے بعد کیا پالیسی ہو گی، اس پر فروری میں ناٹو اجلاس میں غور ہو گا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ناٹو اتحاد کو اعتماد میں لیے بغیر کئی فیصلے کیے تھے۔ اب ناٹو کے ترجمان کا کہنا ہے ضرورت کے تحت افغانستان میں فوج رکھی جائے گی۔ امن معاہدے کے باوجود افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے افغان حکومت اور مغربی ممالک طالبان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ طالبان پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ وہ امن معاہدے کی شرائط پوری نہیں کر رہے ہیں۔
ادھر طالبان کا کہنا ہے کہ فروری 2020میں طے شدہ معاہدے کا مطلب امریکی افواج کو افغانستان سے نکلنے کا ایک محفوظ راستہ فراہم کرنا تھا۔ طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں کبھی بھی چڑھائی کرنے والی غیر ملکی افواج کو محفوظ راستہ فراہم نہیں کیا گیا، اس لیے یہ امریکیوں کیلئے ایک اچھا موقع ہے کہ اس معاہدہ کے تحت ہم انہیں یہاں سے نکلنے کا ایک محفوظ راستہ فراہم کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جب وہ اس پر نظر ثانی کر رہے ہیں تو وہ ایک مثبت نتیجے پر پہنچیں گے۔ طالبان نے بہرحال صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ معاہدے پر نظر ثانی سے اس کے مندرجات میں تبدیلی نہیں ہوگی کیونکہ طالبان نے معاہدہ امریکہ میں ایک قانونی طور پر منتخب ہونے والی حکومت سے کیا تھا اور نئی حکومت کی جانب سے اس پر نظر ثانی اس کا اندرونی فیصلہ ہے، تاہم اس کے یہ معنی نہیں کہ امریکہ معاہدے سے الگ ہو رہا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اگرامریکی مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد بھی افغانستان میں رہتے ہیں تو پھر ہم انہیں ہلاک کرنا شروع کر دیں گے۔ اگرچہ فی الحال امریکی اور اتحادی افواج پر حملے نہیں ہوئے ہیں لیکن افغانستان کے اندر حملے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، اسی لیے بائیڈن انتظامیہ دوحہ معاہدہ کو ایک نئی نظر سے دیکھے گی اور شاید اس میں کچھ ترمیم بھی کی جائے۔ اس ضمن میں 18 فروری کو بروسیلس میں ناٹو کی سیکورٹی میٹنگ میں رکن ممالک کے وزرائے دفاع آپس میں ملیں گے۔ یہ میٹنگ بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں جنگ کے خاتمہ اور طالبان سے بات چیت کے لیے زلمے خلیل زاد کو اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا تھا، نئی امریکی انتظامیہ نے بھی انہیں کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔ صدر بائیڈن جب نائب صدر تھے تب بھی ان کی یہ کوشش تھی کہ کسی طریقے سے اس طویل جنگ کو ختم کیا جائے۔ لہٰذا زلمے خلیل زاد کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے کہ امن عمل کا تسلسل نہ ٹوٹے۔ امریکہ اگر زلمے خلیل زاد کی جگہ کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپتا تو کئی معاملات نئے سرے سے شروع کرنے پڑتے اور امن کے حصول میں مزید تاخیر ہوتی۔ دراصل دوحہ امن معاہدہ پر عمل در آمد شروع سے ہی تاخیر کا شکار ہوا۔ معاہدہ کے تحت 10 مارچ تک قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا تھا جس میں 6 ماہ لگ گئے۔ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق معاہدے کی شرائط پر پورا نہیں اتر رہا ہے۔ فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں جبکہ بظاہر افغان حکومت کافی مطمئن ہے کہ یہ معاہدہ ناکام ہوجائے اور پھر سے بات چیت ہو، تاہم اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہو گا۔ خون ریزی مزید بڑھے گی۔ لہٰذا تمام فریقوں کو بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ افغان حکومت میں شامل کئی اہم رہنما امن معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے اس معاہدے میں طالبان کی کئی شرائط تسلیم کرلی تھیں جس کا نقصان ہوا۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاہدہ میں صرف امریکہ اور طالبان شامل تھے جبکہ افغان حکومت اس کا حصہ نہیں تھی۔ امن کے حصول کے لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا تاکہ افغانستان میں ایسی انتظامیہ کا قیام عمل میں آئے جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔ نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے معاہدے پر نظرثانی کی بات اور طالبان کے ردعمل کے بعد یہ تشویش ہے کہ اس سے غیریقینی صورت حال پیدا ہورہی ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ خطہ کے دیگر ممالک پر بھی اثرانداز ہو گی۔ گزشتہ ادوار میں لڑائی کی سمت معلوم ہوا کرتی تھی اور جہاں لڑائی ہوتی تھی وہاں سے لوگ نقل مکانی کر کے دوسری جگہ چلے جاتے تھے۔ اب افغانستان کا کوئی بھی کونہ محفوظ نہیں ہے اور پرتشدد واقعات کابل سمیت پورے افغانستان میں ہو رہے ہیں۔ امن و امان کے ساتھ ساتھ سیاسی صورت حال بھی غیر یقینی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کسی کو بھی یہ نہیں پتہ کہ مستقبل میں کیا ہو گا؟ یہی نظام حکومت برقرار رہے گا؟ طالبان ملک کا نظام سنبھالیں گے؟ یا اندھی جنگ مسلسل چلتی رہے گی؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS