اصلاحات ‘ یا ’جمہوریت‘ کا خاتمہ؟’

0

محمد فاروق اعظمی

ہندوستان   کو ’وشو گرو‘ بنانے کی راہ پر گامزن مودی حکومت دھیرے دھیرے ملک کو ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں ترقی کی راہ میں جمہوریت ا ب رکاوٹ محسوس ہورہی ہے ا ور سرمایہ داری کے فروغ کو ملک کی نجات اور ترقی کاسبب سمجھاجانے لگا ہے۔  ملک کی معاشی پالیسی میں سرمایہ داروں کی رضا اور خوشنودی کا رنگ بھرنے کو ’ اصلاحات ‘ کا خوبصورت نام دے کر سرمایہ اور سرمایہ دار کی بالواسطہ حکمرانی کو سہارا دیاجارہا ہے۔ حال کے دنوں میں مرکزی حکومت اور اس کے زیرانتظام پالیسی ساز اداروں نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن کے نتیجہ میں جمہوریت سرمایہ دارکے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گی اور طاقت و اختیار کا ساراسرچشمہ سرمایہ دار ہوگا۔قومی وسائل،عوامی ملکیت کی بجائے سرمایہ دار کاخزانہ بھرنے کے کام آئیں گے۔ اس کا آغاز مودی حکومت نے منافع بخش قومی اداروں کو سرمایہ دار کے ہاتھوں سونپنے سے کیا ہے اورا ب دھیرے دھیرے قومی وسائل کوبھی سرمایہ داروں کے حوالے کررہی ہے۔ہوائی اڈوں، ریل کی پٹریوں، ٹرین اور ریلوے اسٹیشنوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو بیچنے کے بعد اب حکومت ریلوے کی زمین بھی سرمایہ داروں کو فروخت کرنے جارہی ہے، اس کا آغاز دہلی میں تیس ہزاری میٹرو اور کشمیری گیٹ سے متصل ریلوے کالونی کی انتہائی قیمتی اراضی سے ہوا ہے۔ ان قیمتی زمینوں کو حکومت نے پرائیویٹ کمپنیوں کو پٹہ پر دینے کا اعلان کیا ہے اور اس کی آن لائن بولی بھی شروع ہوگئی ہے۔اگلے سال کی27جنوری تک کوئی بھی سرمایہ دار آن لائن بولی میں حصہ لے کر ان قیمتی زمینوں کی حق ملکیت حاصل کرسکتا ہے۔تقریباً21800 مربع میٹر کے رقبہ پر پھیلی یہ قطعات اراضی وسطی دہلی کی انتہائی قیمتی زمین سمجھی جاتی ہیں۔ حکومت نے اس کی محفوظ قیمت 393 کروڑ روپے رکھی ہے۔ریلوے کی یہ قیمتی زمین سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کے عمل کو پبلک- پرائیویٹ پارٹنرشپ کا نام دیا گیا ہے اوراس کیلئے ریل لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آر ایل ڈی اے) قائم کی گئی ہے جو ملک میں ریلوے کی بیچے جانے کے لائق زمینوں کی نشاندہی اور سرمایہ داروں کوا نہیں خریدنے کیلئے راغب کرے گی۔ دہلی میں ریلوے کی زمین سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ گومتی نگر، دہرہدون کے راستہ ہوڑہ، بھوبنیشور، حیدرآباد، مدراس اور کیرالہ تک پورے ملک میں پھیلنے والا ہے۔ ان شہروں کی ریلوے کالونیوں کی اراضی کو ڈیولپ کرنے کیلئے پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپ دیا جائے گا۔
اس سے قبل حکومت نے بینکنگ کے شعبہ میں ’ انقلابی اقدامات‘ بھی اٹھائے ہیں۔ان اقدامات کے تحت محنت کشوں، مزدوروں اور غریبوں کا خون نچوڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں کو ہرا رکھاجائے گا۔ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی ایک کمیٹی نے بڑے کارپوریٹ اور صنعتی گھرانوں کو اپنے پرائیویٹ بینک کھولنے کی اجازت دینے کی ایک تجویز پیش کی ہے۔آر بی آئی کی اس تجویز میں نان بینکنگ فائنانس کمپنیاں جنہیں این بی ایف سی کہاجاتا ہے انہیں بھی باقاعدہ بینک میں تبدیل کرناشامل ہے۔اس تجویز پر عوا م الناس سے رائے طلب کی گئی ہے، اس کے بعد باقاعدہ اسے قانونی شکل دے دی جائے گی۔آر بی آئی اس سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن تجویز اپنے آپ میں انتہائی خطرناک اور عوام دشمن ہے۔ ایک طرح سے غریب مزدور اور ملازم پیشہ افراد کی جمع رقم پر سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو باقاعدہ قانونی شکل دینا ہے۔آج جب کہ ہر دوسرے مہینہ ملک کا کوئی نہ کوئی بینک دیوالیہ ہورہاہے، بڑے صنعتی گھرانوں کو قرض دے کر اس کی واپسی میں ناکام ہے ایسے میں انہیں سنبھالنے کی بجائے نئے سرے سے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو بینک کھولنے کی اجازت دینے کا کھلا مطلب یہی ہے کہ انہیں عوام کے پیسے کو اپنے استعمال میں لانے کی آسانی فراہم کی جائے۔ حال کے دنوں میں پی ایم سی بینک، یس بینک، لکشمی ولاس بینک جیسے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور آر بی آئی ان کا کنٹرول سنبھال رہی ہے۔ ایس بی آئی، ایچ ڈی ایف سی اور اس جیسے دوسرے بڑے بینکوں کو سرمایہ داروںاور صنعت کاروں کو دیے ہوئے دیوہیکل قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔ پورا بینکنگ سیکٹر ایک غیر یقینی صورتحال سے گزررہا ہے، ایسے میںاگر اس تجویزکو منظور کرکے سرمایہ داروں کو بینک کھولنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تو وہ قرضوں کی بند ر بانٹ کا ایسا سلسلہ شروع کریں گے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آر بی آئی کے دو سابق گورنر رگھو رام راجن اور ورل اچاریہ نے اس تجویز کو انتہائی خطرنا ک بتاتے ہو ئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اس سے ’کنیکٹیڈ لینڈنگ‘شروع ہوجائے گی۔ یعنی بینک کا مالک اپنی ہی کمپنی کو آسان شرط پر یا بلا کسی شرط کے قرض دینا شروع کردے گا۔ ایک طرح سے یہ عوا م کی جمع رقم کو لوٹنے کانظام ہوگا جسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔
زراعت کے شعبہ میں اصلاحات کے نام پر حکومت نے جس کھیل کا آغاز کیا ہے، وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر بنائے جانے والے تینوں قانون زراعت پر سرمایہ دار کا قبضہ مستحکم کرنے والے ہیں۔زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے والے کسان اپنی فصل سرمایہ داروں کی مرضی سے اگائیں گے اور ان کی من پسند قیمت پر فروخت کریں گے۔ ہر چند کہ حکومت کا یہ اصرار ہے کہ کسانوں کو اپنی فصل اپنی مرضی کی قیمت پر بیچنے کا اختیار ہوگا لیکن یہ انتہائی گمراہ کن اور کھلا دھوکہ ہے۔ چند بیگھہ زمین پر فصل اگانے والا کسان اپنی پیداوار کو جلد از جلد بیچ کر قیمت حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے تاکہ وہ اس سے اپنا گزربسر کرنے کے ساتھ ساتھ اگلی فصل بھی پیداکرنے کا سامان کرے، ایسے میں اس کے پاس نہ تو اتنا وقت ہوگا کہ وہ زیادہ قیمت کے انتظار میں اپنی فصل روک رکھے اور نہ جگہ ہوگی۔ جس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سرمایہ دار کی مرضی اسے تسلیم کرنی ہوگی۔ سرمایہ داروں کا گروہ فصل کی خریداری کیلئے قیمت پر ایک ہوجائے گا اور کم ترین قیمت طے کی جائے گی جسے قبول کرنا کسانوں کی مجبوری ہوگی۔ایم ایس پی کا خاتمہ بھی زراعت پر سرمایہ داروں کے قبضہ کی کلید ہوگا۔
ان میں سے کئی پالیسیاں اور قوانین تو حکومت اپنی طاقت کے بل پر نافذ کرچکی ہے اور کچھ کے سلسلے میں اسے مزاحمت کا سامنا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں مزاحمت کا یہ حق شروع سے ہی حکومت کو منظور نہیں تھا لیکن اب تو جمہوریت کو وہ اپنی ’ترقی‘ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے لگی ہے۔ نیتی آیوگ جیسے پالیسی ساز ادارے کے سربراہ چیف ایگزیکٹیو افسر امیتابھ کانت کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ’کچھ زیادہ ہی جمہوریت ہے‘ لیکن مودی حکومت ہرشعبہ میں ’ اصلاحات‘ کیلئے پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔امیتابھ کانت بعد میں اپنی اس بات سے بھلے ہی انکاری ہوگئے لیکن ان کے اس سہ لفظی جملہ نے مودی حکومت کی تمام پالیسی کا نچوڑبیان کردیا۔
واقعہ یہی ہے کہ مودی حکومت ملک کو دھیرے دھیرے جمہوری نظام سے ہٹاکر ایک ایسے نظام حکومت کی راہ پر لگانا چاہتی ہے جس میں عوام کے بجائے سرمایہ داروں کے مفاد کا تحفظ ہو، جہاںپیداوارضرورت کے برخلاف خالص منافع کمانے کی بنیاد پر ہو، ملکیت کا ہرحق سرمایہ دار کوحاصل ہو، ترقی کی تمام راہیں سرمایہ داروں اور صنعت کارو ں کے محل کی طرف ہی جاتی ہوں، سرمایہ دار کی دولت اور منافع کو انسانی زندگی پر فوقیت حاصل ہو۔ایسے کسی بھی ہدف کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اگر کوئی ہے تو وہ جمہوریت ہے جس میں مساوی سیاسی اور شہری حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔حکمراں طبقہ ہندوستان میں اسی جمہوریت کے زیادہ ہونے کا رونا رورہاہے۔یہ درست بھی ہے کہ سرمایہ داری اور جمہوریت دونوں دو الگ الگ منطقے ہیں،سرمایہ دارانہ نظام کی راہ ہموار کرنے کیلئے جمہوریت کا خون کرنا ضروری ہے جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ عوام دشمن سفاک قانون اور پالیسی اگر تسلسل اختیار کرگئے تو ملک کیلئے خون آشام بلا ثابت ہوں گے۔اورملک کو اس سے محفوظ رکھنا ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS