کسانوں کے جاری احتجاج کے چند اہم مضمرات

0

پنجاب، ہریانہ اور یوپی کے کسان خوب جانتے ہیں کہ گیہوں-چاول کی کاشت کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ نہیں چلنے والا ہے۔ 
ایم ایس پی(Minimum Selling Price) پر اُن کی تشویشات، اسی حقیقت واقعی کا نتیجہ ہیں
 

سراج حسین/جگل موہاپاترا
(مترجم: محمد صغیر حسین)

دہلی کی سرحدوں پر بالعموم پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور راجستھان کے کسانوں کے ذریعہ جاری احتجاجات میں نہ صرف مودی حکومت بلکہ ٹوئیٹر کے مناظرین کے لیے چند اسباق پوشیدہ ہیں۔ اے کاش کہ ہم اُن کی جانب متوجہ ہوتے۔
پہلا اور اہم ترین سبق یہ ہے کہ کسی فرمان(Ordinance) کے ذریعہ قانون سازی کا راستہ پرخطر ہوتا ہے۔ ہمارے وفاقی نظام حکومت میں یہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے خاص طور پر جب وہ موضوعات زیرغور ہوں جو ریاستوں کے دائرے میں آتے ہوں۔ بانیانِ دستور اساسی نے زراعت کو ایک مقامی مسئلہ سمجھ کر اسے تقسیم اختیارات کی اسکیم میں ریاستوں کے حلقۂ اثر میں رکھا۔ چوں کہ ریاستی حکومتیں عوام سے قریب تر ہوتی ہیں، اس لیے زراعت سے متعلق مسئلوں میں عوام سے گہرے روابط اور اُن کے مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جی ایس ٹی(GST) پر اتفاق رائے حاصل کرنے کا جو ماڈل منتخب کیا گیا تھا، وہی مستقبل میں بھی مناسب ترین ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل 123کے تحت، صدر محترم کو اس وقت فرمان(Ordinance) جاری کرنے کا اختیار ہے جب پارلیمنٹ کے اجلاس نہ ہورہے ہوں۔ فرمانوں کے ذریعہ قوانین بنانے کے انتظامی اختیارات کا استعمال بس ایسی ہی ہنگامی صورت حال میں کیا جاتا ہے جب حالات ’’فوری کارروائی‘‘ کے متقاضی ہوں۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ تینوں زرعی قوانین کی فوری ضرورت نہیں تھی اور وہ بھی جب کووڈ-19کی وبا بلائے ناگہانی کی طرح سایہ فگن ہو اور اس کے نتیجے میں نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن نے کاروانِ انسانی کے لیے محشربپا کردیا ہو۔
پنجاب، ہریانہ اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے احتجاجات سے بچا جاسکتا تھا اگر پہلے ہی پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون سازی کا نارمل طریقہ اپنا لیا جاتا۔ اس صورت میں کسان تنظیموں، ریاستی حکومتوں اور دیگر شرکاء سے وسیع تر صلاح مشورے کیے جاسکتے تھے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب فرامین، قانون نہیں بن پائے Land Acquisition Ordinance تین بار جاری ہوا لیکن قانون میں نہ ڈھل سکا اور بالآخر اگست 2015میں کالعدم ہوگیا۔
پیداوار کی خریداری کا مسئلہ
دوسرا سبق یہ ہے کہ ٹوئٹر اور دوسرے میڈیا مناظرین ہندوستان کی مجموعی حکمت و دانائی کی عکاسی نہیں کرتے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان کو غذائی تحفظ بخشنے والی اور سبز انقلاب برپا کرنے والی ریاستوں پنجاب، ہریانہ اورمغربی یوپی کے تعاون سے انکار صرف لاعلم لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ شہر کے متعدد وسطی طبقوں نے پنجاب میں زراعت کو دی جانے والی سبسڈی پر سوالات اُٹھائے ہیں گویا دیگر ریاستوں میں کسانوں کو کوئی امداد نہ دی جاتی ہو۔ انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ آندھراپردیش، کرناٹک، تلنگانہ اور تمل ناڈو بھی اپنے کسانوں کو بلامعاوضہ بجلی فراہم کرتے ہیں۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ مختلف ریاستیں ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں اور زراعت کے لیے ایک کل ہند پالیسی وضع کرنا غیرمناسب اور غیرموزوں ہوگا۔
پنجاب اور ہریانہ نے اے پی ایم سی کمیٹیوں (Agriculture Product Market Committees) کے ذریعہ منڈیوں کا ایک زبردست انفرااسٹرکچر قائم کرنے میں خطیر رقمیں صرف کی ہیں جب کہ متعدد دیگر ریاستیں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کی کوششوں کے نتیجے میں، وہاں کے تقریباً تمام کسان اپنے گندم اور دھان کی پیداوار کے ایم ایس پی کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ دوسری ریاستوں میں اے پی ایم سی(APMC) منڈی انفرااسٹرکچر ہونے کے باوجود زیادہ تر خرید و فروخت منڈیوں کے باہر ہوتی ہے۔ ان ریاستوں میں، کسانوں نے اپنی پیداوار کی اچھی قیمتوں پر فروخت کی تمام امیدیں چھوڑ دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سرگرم طور پر احتجاج نہیں کررہے ہیں۔
تاہم یہ بات قابل توجہ ہے کہ عالمی غذائی بحران 2006-07 کے بعد سے اس سمت میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور کئی ریاستوں نے زیادہ تر کوآپریٹیوز کے ذریعہ، پیداوار کی خریداری کا ایک ایسا موثر نظام وضع کیا ہے جس نے کسانوں کو اپنی پیداوار ایم ایس پی پر فروخت کرنے کے قابل بنادیا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ نے 2009-10 میں مجموعی خریداری میں 69.5% کا تعاون دیا۔ اُن کی حصہ داری 2020-21 میں گھٹ کر 51.6% ہوگئی۔ اسی طرح چاول کی خریداری میں 2009-10 میں اُن کا حصہ 34.6%تھا جو 2019-20 میں گھٹ کر محض 29.7%رہ گیا۔ مدھیہ پردیش نے اس سال پنجاب اور اڈیشہ کے مقابلے میں خریداری میں زیادہ تعاون دیا۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ نے سال رواں میں چاول کی بہت بڑی مقدار بہم پہنچائی۔
2015-16 میں مرکزی حکومت نے طے کیا کہ دو ملین ٹن دالوں کا ایک ذخیرہ رکھا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے نیفیڈ (National Agricultural Cooperative Fedration of India/NAFED) کو نوڈل ایجنسی بنایا گیا۔ مہاراشٹر، کرناٹک اور مدھیہ پردیش نے دال پیدا کرنے والے کسانوں کو اُن برسوں میں بھی ایم ایس پی دی جب بازار کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ درآمد شدہ دالوں پر ہندوستان کا انحصار اچھا خاصا کم ہوگیا۔
دس سالہ منصوبہ
آخری بات یہ ہے کہ پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کے کسان خوب جانتے ہیں کہ گیہوں اور چاول کی کاشت کا یہ سلسلہ ہمیشہ نہیں چلنے والا ہے۔ چوں کہ اپنی پیداوار کو ایم ایس پی پر فروخت کے ذریعہ وہ مستقل آمدنی کے خوگر ہوگئے ہیں، اس لیے انہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ دیگر پیداوار کو حکومت شاید نہ خریدے۔ ایک مثال بھی اُن کے سامنے ہے۔ اس سال مکئی کی خریف فصل صرف ایک ہزار سے بارہ سو فی کوئنٹل فروخت ہوئی جب کہ ایم ایس پی 1850روپے فی کوئنٹل مقرر تھی۔ وہ ڈرے ہوئے ہیں کہ شاید مستقبل میں اُن کی پیداوار گیہوں/دھان کا بھی یہی حشر نہ ہو۔
جاری احتجاجات کے دوران اب یہ دیکھنا ہے کہ کسان،ایم ایس پی سے متعلق جاری پالیسی کو جاری رکھنے کی سرکاری یقین دہانی کو محض ایک سرکاری حکم کے اجراء پر مان لیں گے یا پھر وہ قوانین میں ترمیم کے اپنے مطالبے پرقائم رہیں گے۔ پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کے کسان، زیادہ پانی کی ضرورت والی پیداوار مثلاً دھان، گنا وغیرہ کے رقبے کو کم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ایک ایسا دس سالہ منصوبہ چاہتے ہیں جس کے دوران انہیں حسب سابق ایم ایس پی کا فیض ملتا رہے اور فصلوں کی اس تبدیلی کے دوران ایم ایس پی کے تسلسل سے ہونے والے خسارے کو مرکزی اور ریاستی حکومتیں مساوی طور پر برداشت کریں۔
پنجاب اور ہریانہ، ہندوستانی زراعت اور غذائی تحفظ کے لیے انتہائی بیش قیمت ہیں۔ مودی حکومت اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے۔ چنانچہ اُس نے مذاکرات کا آغاز کرکے اور زرعی قوانین میں مناسب ترمیمات کی پیش کش کرکے حکمت و دانائی کا ثبوت دیا۔
(سراج حسین سبکدوش مرکزی سکریٹری برائے زراعت ہیں۔ سردست وہ ICRIER میں وزیٹنگ سینئر فیلو ہیں۔ موہاپاترا مرکزی سکریٹری برائے فرٹیلائزر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ہیں)
(بشکریہ: دی پرنٹ)
 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS