ترقی کی دوڑ میں جانوروں کو تو بخش دیجیے

0

آنند دتّا
(مترجم: محمد صغیرحسین)

گزشتہ 31اگست کو پلامو ٹائیگر ریزرو (Palamu Tiger Reserve) میں ایک دردناک حادثہ ہوا۔ اس ریزرو سے گزرنے والی ٹرین سے کٹ کر ایک ساتھ پانچ ہرنوں کی موت ہوگئی۔ ان میں تین ہرن اور دوہرنیاں تھیں۔ دو بچے تھے۔ یہ بے زبان جانور بھوک سے بے حال ہوکر چارے کی تلاش میں جنگل سے نکل کر دیہی علاقے میں آنکلے تھے۔ واپس لوٹتے وقت ٹرین کی زد میں آگئے اور اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ٹرین سے کٹ کر مارے جانے کا یہ حادثہ کوئی نیا نہیں ہے۔
اس تاریخی اور دنیا کی سب سے پہلی ٹائیگر شماری کے لیے مشہور و معروف پلاموٹائیگرریزرو کے بالکل بیچ سے انڈین ریلویز اب ایک اور 9کلومیٹر لمبی ریل لائن بچھانے کی تیاری کرچکا ہے جو جانوروں کے لیے حادثات کی ایک اور وجہ بنے گی۔ جنگل کے بالکل بیچ میں تقریباً 9کلومیٹر لمبی ڈبل ریل لائن پہلے سے بچھی ہوئی ہے۔ انڈین ریلویز، محکمۂ جنگلات اور جھارکھنڈ سرکار نے جانوروں کی حفاظت اور ایسے حادثوں سے کوئی سبق نہیں لیا ہے اور اس کے برعکس نئی لائنیں بچھانے کی تیاری میں مصروف و مشغول ہیں۔ حالاں کہ محکمۂ جنگلات نے ریلویز کے اس منصوبے پر اعتراضات درج کرائے ہیں۔
پی ٹی آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمار آشیش نے اس بارے میں جھارکھنڈ کے چیف سکریٹری، محکمۂ جنگلات و ماحولیات کے سکریٹری اور ریلویز کو مراسلات تحریر کرکے اس کا روٹ بدلنے کا اصرار کیا ہے۔ کمار آشیش نے بتایا کہ کسی بھی ٹائیگر ریزرو میں کور(Core) اور بفر(Buffer) ایریا ہوتا ہے۔ کور ایریا بہت ہی حساس ہوتا ہے۔ باگھوں کی افزائش نسل اسی علاقے میں ہوتی ہے۔ کور کے قرب و جوار کا علاقہ بفر کہلاتا ہے۔ مجوزہ ریلوے لائن کے کور ایریا سے نکلنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ پی ٹی آر کے اس علاقے سے ہر دن 100سے زیادہ مال گاڑیاں اور مسافر گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس وجہ سے جانوروں کا چلنا پھرنا، گھومنا اور آناجانا دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ پی ٹی آر میں فی الحال 25-30 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے ٹرینیں چل رہی ہیں۔ نئی ریل لائن اگر کور ایریا میں بننی ہے تو یہاں بھی ٹرین 25-30کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑے گی۔ لیکن ریل لائنیں اگر کنارے کنارے بچھائی جائیں تو 100کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلائی جاسکتی ہیں۔
کمار آشیش بتاتے ہیں کہ اس نو کلومیٹر کے بیچ چھیا دوہر اور ہیہیگڑا نام کے دو پڑاؤ آتے ہیں اور یہی ہمارے کور ایریا ہیں۔ اس سے متصل اورنگاندی ہے۔ دونوں پرانی ریل پٹریاں اور ایک نئی، تینوں اسی کور ایریا سے گزرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں نے ریلوے بورڈ کے افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگل کے کنارے سے اگر لائن لے جاتے ہیں تو پی ٹی آر پوری طرح محفوظ ہوجائے گا اور ریلویز کا منشا بھی پورا ہوجائے گا۔‘‘
اُن کے مطابق، ’فی الحال یہ منصوبہ 4,000 کروڑ روپے کا ہے۔ اگر این او سی(NOC) ملتا ہے تو مختلف اجازتوں کے عوض ریلویز کو تقریباً 500کروڑ روپے کی مزید ادائیگی کرنی ہوگی، جب کہ جنگل کے کنارے سے ریلوے لائن نکالنے پر پانچ فیصد یعنی 200کروڑ روپے کا مزید خرچ آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 300کروڑ روپیوں کی بچت ہوجائے گی اور جانوروں کی زندگی بھی محفوظ ہوجائے گی۔‘
ریل وکاس نگم لمیٹڈ(RVNL) اس کی تعمیر کررہا ہے۔ یہ علاقہ دھنباد ریلوے زون میں پڑتا ہے۔ زون کے جی ایم اکھلیش پانڈے نے بتایا: ’کیوں کہ ڈبل لائن پہلے سے ہی بہت مصروف تھی، اس لیے زیادہ بار برداری کے لیے ایک نئی لائن کی ضرورت تھی۔
تعمیر سے پہلے کئی سطحوں پر کلیئرنس لینا ہوگا۔ وائلڈ لائف کلیئرنس اور فاریسٹ کلیئرنس۔ دونوں کے لیے درخواست پہلے پی ٹی آر کے ڈی ایف او(DFO) کے پاس جائے گی۔ یہاں سے پاس ہوکر یہ جھارکھنڈ سرکار کے محکمۂ جنگلات و ماحولیات اور اسٹیٹ بورڈ آف وائلڈ لائف (State Board of Wild Life) کے پاس جائے گی۔
فاریسٹ کلیئرنس کے لیے وزارت جنگلات اور ماحولیات، دہلی اور وائلڈ لائف کے لیے نیشنل بورڈ آف وائلڈ لائف کے پاس بھیجی جائے گی۔ جب ان تمام جگہوں سے کلیئرنس مل جائے گا تو اس کا آخری پڑاؤ سپریم کورٹ کی وضع کردہ کمیٹی ہوگی۔ تب کہیں جاکر تعمیر کا کام شروع ہوگا۔ معلوم ہوا ہے کہ ریلویز نے وائلڈ لائف کلیئرنس کے لیے درخواست دی ہے لیکن فاریسٹ کلیئرنس کے لیے ابھی درخواست نہیں دی ہے۔
کلیئرنس کے تعلق سے آر وی این ایل کے افسر وشال آنند نے بتایا کہ ’’وہ علاقہ محکمۂ جنگلات کے تحت نہیں آتا ہے۔ ریلویز نے 1924میں وہاں لائن بچھا دی تھی اور 1975میں ڈبل لائن بھی بن گئی تھی جب کہ 1976میں اسے وائلڈ لائف ایریا بنایا گیا تھا۔ ایسے میں ریلویز کو صرف وائلڈ لائف کلیئرنس کی ضرورت ہے جس کے لیے درخواست دے دی گئی ہے۔‘
مجھے معلوم نہیں
سترہ بار فون کرنے اور وہاٹس ایپ پر سوال بھیجنے پر پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ(PCCF) پی کے ورما نے بتایا: ’ریلویز کی جانب سے دی گئی وائلڈ لائف کلیئرنس کی درخواست کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے۔ کیا ہوگا تو آن لائن کیا ہوگا۔ جہاں تک کلیئرنس کی بات ہے تو نیشنل بورڈ فار وائلڈ لائف طے کرے گا، ہم نہیں۔‘
’روٹ بدلنے کی بابت، ہم نے ایک سوال پہلے ہی ریلویز سے کیا تھا لیکن ابھی تک اُس کا جواب نہیں ملا ہے۔ ریلویز کو رویت(Visibility) جانچ کرنی تھی۔ کیا ہوا مجھے نہیں معلوم۔ رہی بات ریلویز کے اراضی پر دعوے کی تو جب حقائق اور دستاویزات سامنے رکھے جائیں گے تب طے ہوگا۔‘
شیروں کی تعداد ہے صفر
2010میں سینٹ پیٹرس برگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آنے والے دس سالوں میں پوری دنیا میں شیروں کی تعداد دوگنی کی جائے۔ ہندوستان نے اس ہدف کو وقت سے پہلے حاصل کرلیا تھا۔ گزشتہ 29جولائی کو شیروں کے عالمی دن پر وزیراعظم مودی نے اس کے لیے محکمۂ جنگلات اور اس ہدف کو حاصل کرنے والی جملہ تنظیموں اور افراد کو مبارکباد دی تھی لیکن اس مبارکباد میں شاید پی ٹی آر شامل نہیں تھا کیوں کہ سروے کے مطابق یہاں ایک بھی شیر نہیں بچا ہے وہیں پورے جھارکھنڈ میں محض پانچ شیر بچے ہیں۔‘
دنیا کی سب سے پہلی شیرشماری1932میں، اسی پلامو میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1973 میں حکومت ہند نے پروجیکٹ ٹائیگر شروع کیا جس کے تحت ملک بھر میں کل نو ٹائیگرریزرو بنائے گئے۔ ان میں ایک پی ٹی آر بھی تھا۔
دنیا کی اوّلین شیرشماری کا تمغہ حاصل کرنے والا پی ٹی آر، ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ریلویز کا دعویٰ ہے کہ وہ اراضی پہلے سے ہماری ہے۔ محکمۂ جنگلات کہہ رہا ہے کہ جانوروں کو بچانے میں مدد کیجیے۔ ریلوے لائنیں کنارے سے لے جائیے۔ کیا نتیجہ نکلے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
(بشکریہ: دی پرنٹ)
(صاحب مضمون ایک آزاد صحافی ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS