۔۔۔تو یہ دنیا پھر سے ہوسکتی ہے سرسبز

0

صبیح احمد

کووڈ19- کی وبا کے پھیلتے ہی پوری دنیا میں احتیاطی تدبیر کے طور پر سب سے پہلے ’لاک ڈائون‘ نافذ کیا گیا۔ اس قدم سے ایسا لگ رہا تھا کہ پوری دنیا جیسے تھم سی گئی ہو۔ سڑکیںو دیگر  عوامی مقامات پر سناٹا چھا گیا۔ سبھی اپنے اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔ کوئی بھی عام آدمی باہر نظر نہیں آرہا تھا سوائے ان کے جو لازمی خدمات پر مامور تھے جیسے ڈاکٹرس،نرسز، صفائی ستھرائی کرنے والے وغیرہ۔ حالانکہ یہ قدم وبا سے بچنے کے لیے ایک اہم احتیاطی تدبیر کے لیے اٹھا یا گیا تھا مگر اس سے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا سبب بننے والے ایک اور مسئلہ کے حل میں بڑی حد تک معاون ثابت ہوا۔ وہ مسئلہ ہے آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ جس سے نہ صرف انسان کو خطرہ ہے بلکہ کرئہ ارض پر موجود تمام جاندار اس کی زد میں ہیں۔ 
لاک ڈائون کے دوران جب تمام انسانی سرگرمیاں صرف محدود ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے مکمل طور پر بند ہو گئی تھیں، تمام فیکٹریاں اور کاربن ڈائی آکسائڈ گیسوں کا اخراج کرنے والی مشینوں اور فیکٹریوں کے دروازوں پر تالا لگ گیا تھا اور سڑکوں پر سے گاڑیاں ہٹ گئی تھیں تو اس کا مثبت  اثر ماحولیات کی بہتری میں واضح طور پر دکھائی دینے لگا تھا اور کچھ حد تک وہ اثر ’ان لاک‘ کا عمل شروع ہونے کے بعد اب بھی موجود ہے مگر دھیرے دھیرے دنیا پھر اپنے اسی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے جو معمول لاک ڈائون سے پہلے تھا۔ خاص طور پر اپنے ملک ہندوستان میں پھر سے وہی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آلودگی کا مسئلہ سنگین رخ اختیار کر لیتا ہے۔ قومی راجدھانی دہلی میں آلودگی پھر سے اپنی چادر پھیلانے لگی ہے۔ دہلی میں ہوا کی کوالٹی ابھی سے یعنی اکتوبرکے پہلے اور دوسرے عشرے میں ہی ’بہت خراب‘ زمرے میں پہنچ گئی ہے۔ اس موسم میں پہلی بار ہوا اتنی خراب ہوئی ہے۔ ابھی دھند اور فوگ کا موسم آنا باقی ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ 
جب سے موسموں اور درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، اس کے ڈیٹا کے مطابق 2020 کا ستمبر کسی بھی پچھلے ستمبر کے مقابلے گرم ترین ثابت ہوا ہے۔ موسمیات سے متعلق یوروپی سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ اس سے پہلے گرم ترین ستمبر کا ریکارڈ پچھلے سال قائم ہوا تھا جو اس سال ٹو ٹ گیا۔ اس سال ستمبر یوروپ، شمالی سائبیریا، مغربی آسٹریلیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے کئی علاقوں پر بھی بھاری رہا اور وہاں گزشتہ برسوں کے اوسط درجہ حرارت کے مقابلے اضافہ دیکھا گیا۔ یوروپی یونین کے موسمیات سے متعلق ادارہ کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے مطابق دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے سال کے پہلے 9 مہینوں کے دوران جنگلوں میں تباہ کن آگ لگنے کے واقعات ماضی سے زیادہ ہوئے اور بحراوقیانوس میں 2005 کے بعد کا سب سے خطرناک سمندری طوفان آیا۔ ستمبر کا ماہ 2019 کے ستمبر کے مقابلے .63 درجے زیادہ گرم تھا جبکہ 2019 کا ستمبر ایک سال قبل سے .05 فیصد گرم تھا۔ 
تشویشناک بات یہ بھی  ہے کہ بحرمنجمد شمالی میں برف کی تہہ میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی جس کی وجہ جون کے اواخر میں وہاں کا ریکارڈ بلند درجہ حرارت تھا۔ سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2050 تک قطب شمالی کے منجمد سمندری علاقے میں گرمیوں کے موسم میں برف مکمل طور پر پگھلنے لگے گی۔ اس وقت کرئہ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 8 لاکھ سال میں سب سے زیادہ ہے اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی ہے جو گرین ہاؤس گیسوں میں سب سے زیادہ گرمی جذب کرتی ہے اور انسانی زندگی کی مصروفیات یہی گیس سب سے زیادہ فضا میں پیدا کرتی ہیں۔ کرئہ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافہ سے قطبین پر برفانی تہیں پگھلنے لگ گئی ہیں اور اس کے نتیجے میں سمندر وں کی سطح بلند ہو کر ساحلی مقامات کو خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔
ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ آئندہ 5 سال حالیہ تاریخ کے گرم ترین سال ثابت ہوں گے اور اس دوران عالمی درجہ حرارت ’پری انڈسٹریل دور‘ کے مقابلے ہر سال کم از کم ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہوگا۔ ’پری انڈسٹریل‘ دور 1850 سے 1900 کے درمیانی عرصہ کو کہا جاتا ہے جب دنیا میں صنعتی سرگرمیوں کا صحیح معنوں میں آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور ان کے موسم اور درجہ حرارت پر اثرات نہ ہونے کے برابر تھے۔ خدشہ ہے کہ اگلے 5 برسوں کے دوران مغربی یوروپ میں مزید طوفان آئیں گے جبکہ 2020 میں جنوبی امریکہ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے متعدد حصے زیادہ تر خشک موسم کی لپیٹ میں رہیں گے۔ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ 5 برسوں کے دوران اس بات کے 20 فیصد امکانات ہیں کہ عالمی درجہ حرارت کسی ایک سال کے دوران ’پری انڈسٹریل دور‘ کی اوسط سے کم از کم 1.5سینٹی گریڈ تک زیادہ ہو گا۔ عالمی ادارہ برائے موسمیات کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران درجہ حرارت میں واضح اضافہ ہوا ہے اور ریکارڈ کے اعتبار سے گزشتہ 5 برس دنیا کے گرم ترین سال تھے لیکن اب 2020 سے 2024 تک کی 5 سالہ مدت کے دوران درجہ حرارت نئی بلندیوں تک پہنچ جائے گا۔  ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں دیر تک موجود رہتی ہے، اس لیے رواں سال کووڈ19- کے سبب معاشی اور صنعتی سرگرمیاں بند ہونے کے باوجود عالمی درجہ حرارت پر اس کے مثبت اثرات پڑنے کے امکانات نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زمین کا اوسط درجہ حرارت ’پری انڈسٹریل‘ دور سے ایک سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے اور آئندہ 5 برسوں کے دوران یہ 1.5 سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔
بہرحال کرئہ ارض کو سب سے زیادہ خطرہ ان گرین ہاؤس گیسوں سے ہے جو انسانی زندگی کی مصروفیات سے ماحول میں شامل ہوتی ہیں۔ کووڈ19- وبا پھیلی اور اس کے نتیجے میں لاک ڈائون کا نفاذ ہوا تو اندازہ ہونے لگا کہ ان گیسوں کی مقدار فضا میں کم ہوگئی ہے کیونکہ انسان زیادہ تر گھروں میں بند ہو کر رہ گئے۔ اگرچہ یہ کمی عارضی ہی سہی مگر اس سے یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ بلاوجہ سفر سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کو اب سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ماحول کو بچانے اور سانس لینے کی فضا کو صاف رکھنے کیلئے بلا وجہ گاڑیاں سڑک پر لانے اور بزنس میٹنگ کے بہانے سفر پر جانے سے گریز کرنا کتنا ضروری ہے۔ کووڈ19- کی وجہ سے لوگ گھروں سے کم نکل رہے ہیں تو گاڑیوں کا دھواں بھی کم ہوا ہے، ورنہ شہروں میں ٹریفک کی صورت حال اور آبادی کا دباؤ ماحول کو کبھی صاف رہنے نہیں دیتا۔ لوگ اگر ذرا بھی اس جانب توجہ دیں تو یہ دنیا پھر سے سرسبز ہو سکتی ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS